پاکستان میں کورونا سے زندگی نہیں ذہن بھی مفلوج ہوکر رہ
گئے ہیں کیونکہ ہم نے کورونا وائرس کوغیر مسلموں کو اﷲ کا عزاب اورمسلمانوں
کیلئے امتحان قرار دے دیا ہے۔ اگر کورونا وائرس غیر مسلموں کیلئے ؑعذاب ہے
تو اس کا دائرہ صرف غیر مسلم ممالک تک محدود رہتا تو اسے خدا کا قہر قرار
دیے سکتے تھیلیکن اب مشکل یہ ہے کہ اس کی زد میں پاکستان، ایران، سعودی عرب
سمیت بہت سے مسلمان مما لک بھی آ چکے ہیں تواس لئے سوچنا پڑے گا کہ اگر یہ
قہرالہی ہے تو مسلمانوں پرکیوں ٹوٹ رہا ہے؟
ویسے بھی یہ بات کون سی یقینی ہے کہ چین کے علاوہ دوسرے یورپی اور مغربی
ممالک جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی، جرمنی، روس وغیرہ بھی اس وائرس
کے شکارہوئے ہیں کیا وھاں پرمسلمان نہیں رہتے؟ یہ سوال بھی ہونا چاہیے کہ
کیا وائرس انہیں لوگوں کو چن چن کر لپٹا ہیجو مسلمان ممالک نہیں ہیں۔ یا
پھرایک طبقے کا خیال ہیکہ یہ اﷲ کا عذاب ہے اور اس کا حل استغفار کرنے
نمازیں پڑھنے، اذانیں دینے اور بہت سے دوسرے وظائف میں پنہاں ہے۔ اگر یہ اﷲ
کا عذاب ہے تو اس عذاب سے بچنے کے لئے یہ طبقہ جو طریقہ کار بتا رہا ہے،
کیا وہ درست ہے؟ اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے؟ اﷲ کی عذاب سے بچنے کے لئے
پیغامات میں کہیں تو توبہ استغفار کی تسبیحات بھیجی جارہی ہیں تو کہیں پر
لا الہ کا ورد بھیجا جارہا ہے تو کہیں پر نمازوں پر نمازیں پڑھنے کو کہا
جارہا ہے، کہیں رات کے وقت مساجد میں ازانیں دی جا رہی ہیں، اور یہ کہا
جارہا ہے کہ یہ سب دین سے دوری کی وجہ سے ہورہا ہے۔ کیا ہم نے اپنے دین کو
سمجھا ہے؟ دین میں ازانیں دینے یا مشکلات سے بچنے کیلئے کہیں ایسے احکامات
نہیں ہیں بلکہ اپنی حفاظت کیلئے احتیاط اور تدابیر اختیار کرنے کے بارے میں
کہا گیا ہے۔ کسی بھی مرض سے شفا حاصل کرنے کیلئے ان باتوں کی ہرگز کوئی
گنجائش نہیں ہے تدابیر کیلئیے کہا گیا ہے۔ جو ہم کر نہیں پا رہے کیونکہ ہم
میؔں تدابیر کی صلاحیت ہی نہیں ہے اور نہ ہی ہم عملی کوشش کر کے خود کو
سدھارنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ہی نہیں بھولنا چاہئے کہ کہ اگرطاعون، ڈینگی،
ایبولا، ملیریا، ٹی بی، جذام، کوڑھ اور ایڈز جیسے مہلک امراض کو خدا کا
عذاب مان کر ان کا عملی حل نہ کھوجا جاتا تو آج لاکھوں لوگ مٹی تلے سو رہے
ہوتے۔
الکوحل جس سے اجتناب برتنے کو کہا گیا ہے اب وہ بھی سینیٹائزرکی شکل میں
عبادتگاہوں میں اس وائرس سے ہونے والے انفیکشن کو روکنے کیلئے ضروری ہے
تاکہ یہ مرض ایک دوسرے میں منتقل نہ ہو پائے۔ سو اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں
ہے کہ ہم کرونا وائرس کو بے حیائی پرغیر مسلموں کیلئے اﷲ کا عذاب سمجھیں یا
مسلمانوں کیلئے امتحان اگر ہم یہ جاننے میں کامیاب ہو جایئں کہ کورونا ایک
وبائی مرض ھے جس کا علاج محں ت، عمل، تدبراورکوشش کرکے ہی سائینسی طریقوں
سے نکالا جا سکے گا۔ یہ ؤظیفے پڑھنے یا پھراذانیں دینے سے ختم نہیں ہوگا یا
پھرکسی مذہبی ملا کے بس میں نہیں کہ وہ اسے اپنے تعویزوں یا دم درود سے ختم
کر سکے۔ بڑے بڑے نبیوں پر بھی مشکلات آئیں مگر انہوں نے انکا حل عملی
تدابیر سے نکالا۔ معلوم ہوا کہ دنیاوی مسائل اور خدا کی ناراضگی ہمیشہ ایک
دوسرے کے لازم و ملزوم نہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان مسائل کے حل کے
لئے مصلی بچھا کر تسبیح و مناجات نہیں کی گئیں بلکہ اس کے لئے عملی تدابیر
اختیار کی گئیں۔
خشوع و خضوع اور دینداری پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس لئے حادثات کا
خدا کے قہر یا بداعمالی کی سزا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس لئے ان کو مذہب کی
عینک سے دیکھنے کے بجائے عملی راہیں تلاش کی جائیں۔خیموں کوآگ سے محفوظ
رکنے کیلئے۔انہیں فائر پروف بنانا ضروری ہے تاکہ آگ نہ لگے، ٹریفک حادثات
سے بچنے کیلئے ٹریفک قوانین بنانا ضروری ہے تا کہ حادثات نہ ہوں، ہرمیدان
میں مقابلہ کرنے کیلئے انتظام میں جہاں سقم ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہیاور
نتیجتاً ہم ایک اچھی ذندگی گزارنے کے قابل ہو جائینگے۔
تحریر: (سدید انیس احمد بخاری)
|