معاشرے اور اپنے ہی خونی رشتوں کے بے ڈھنگ و بے سروپا
سوالات کے جواب دینے کو اس وقت جب شاید سانس بھی لینے پر پابندی عائد
ہو۔۔وہ رب ہےجو تھام لیتا ہے۔۔۔ہاں وہ اپنے بندے کو سرخروح کرتا ہے!!!جب
خود کو خود کی نظروں میں گرایا جائے تو وہ مخاطب بنتا ہے۔ وہ بولتا ہے۔۔۔۔میرا
اور تمہارا رب ڈھال بنتا ہے ہر اس مقام پر جہاں نیچا دکھانے کی کوشش کی
جائے۔۔۔۔۔
جہاں منہ کے بل گرانے کی کوشش کی جائے۔تو کیسے نہ عشق ہو اپنے رب سے ۔۔۔۔۔۔اپنے
مسیحا سے۔۔۔۔۔وہ زمین پر ہے کسی سایے کی طرح۔اور ہر معمولی آنکھ اسے دیکھنے
کی تاب نہیں رکھتی۔
اے عقل کے اندھوں! اللّٰہ بذات خود زمین پر نہیں اترتا وہ آپکے لیے ایسے
لوگوں کو منتخب کر دیتا ہے جو سایہ بن جایا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔کیا تم نے وہ
حدیث نہیں سنی کہ بیمار کی عیادت کو جاؤ وہاں کسی نہ کسی کے روپ میں اللّٰہ
نظر آئے گا۔۔۔۔۔۔۔
اور کیا وہ واقعہ نہیں سنا کہ ایک یتیم بچے کی دعا پر ایک شخص نے اسے جوتا
دلایا تو اللہ نے اسے اپنا جانشین بنا لیا۔لیکن کچھ ایسے لوگ ہوتے ہے جنکی
عقلوں پر میرے رب نے جہالت کے پردے ڈال رکھے ہیں۔ایسے لوگوں کو دیکھ کر
حضرت علی علیہ السلام کا ایک قول یاد آتا ہے کہ"جاہلوں سے بحث مت کرو انہیں
انکے حال پر چھوڑ دو وہ اپنا قصور ماننے کی بجائے الٹا تم سے الجھ پڑے گے"
ہر ایک سے اسکی عقل کے زاویے کے مطابق بات کرو ہر ایک کو ایک ہی ترازو کے
پلڑے میں مت تولو۔یہاں پڑھے لکھے تو بہت ملے گے لیکن علم والے نہیں۔علم حلم
ہے۔یہ کسی کے باپ کی جاگیر نہیں کہ پیسے دینے سے مل گئی یا کوئی وراثت میں
جاتا ہوا چھوڑ گیا۔.........میاں!!!! یہ تو اللّٰہ پاک کی خاص عطاؤں میں سے
ایک ہے کہ جس کو چن کر نکال لیا۔اور عام سے خاص کر دیا۔۔۔۔۔شرابی سے ولی کر
دیا۔۔۔۔۔حر کو حسین کا جانشین کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نسبتوں کے سلسلے ہیں میاں!تم فہم سے عاری لوگ ۔۔۔۔۔۔۔جو بس تینوں وقتوں
میں دو دو روٹیاں کھانا فرض سمجھتے ہو۔کھاتے جاؤ۔یہ لفظ جسے سائنس نے دماغ
کہا ہے اسے قطعاً استعمال نہیں کرنا جوں کا توں اللّٰہ کو واپس کرنا
ہے۔امانت میں خیانت نہ ہو جائے نا۔۔۔۔۔۔۔وہ علم سے راستے نکالتا ہے۔۔۔۔منزلیں
واضح کرتا ہے۔۔۔۔راستوں کا تعین کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اندھیرے راستے میں ایک جگنو
کی طرح جس کا ننھا سا روشنی سے بھرا وجود اندھیروں کی چھانٹی کرتا ہے۔۔۔علم
اور تعلیم اسی طرح دو لفظ ہیں اپنے اندر ڈھیروں گہرائیاں سموئے ہوئے۔تعلیم
تو سبھی حاصل کرتے ہیں لیکن علم کوئی کوئی حاصل کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
اور باعمل علم تو ہزاروں میں سے کوئی ایک ہی حاصل کرتا۔۔۔میرا رب چنتا ہے
اور چن کر الگ کرتا ہے۔۔۔اس کے چنے ہوئے لوگ روز روشن کی طرح سب میں چمکتے
ہوئے نظر آتے ہیں۔۔وہ الگ نظر آتے ہیں۔اپنے راستے خود بناتے ہیں جیسے پانی
اپنے راستے کا تعین خود کرتا ہے۔۔۔جیسے ہوا اپنے راستے میں آنے والی ہر
رکاوٹ کو اڑا لے جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
|