سید منور حسن اور جماعت اسلامی

سید منور حسن بھی دنیا چھوڑ گئے. جماعت اسلامی ایک تجربہ کار دانشور، مصلح، مدبر، سچے، کھرے اور دبنگ رہنما سے محروم ہوگئی. انکی رحلت کے بعد جماعت اسلامی میں انکے مرتبے کا کوئی رہنماء دکھائی نہیں دیتا۔ ایک ایک کرکے ایسے تمام افراد رخصت ہو گئے ہیں جو جماعت اسلامی کی اجتماعیت کو حقیقی فکر پر قائم رکھتے ہوئے اسے عام روائتی مذہبی جماعتوں کے برعکس ایک رواں دواں تحریک کی صورت اگے بڑھا سکنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

جماعتوں اور تحریکوں کی قیادت میں دو طرح کے لوگ موجود ہوتے ہیں ایک طرح کے وہ لوگ جو اپنی جماعت کے روائتی ماحول کے اندھے مقلد، اپنے ماضی کی پالیسیوں، مزاج، روایات پر سختی سے کاربند اور اپنے اندر کسی بھی نوعیت کی تبدیلی کے لئے تیار نا ہونے والے لوگ اور دوسری قسم کے ایسے افراد جو منزل کے حصول کے لیے بنیادی اصولوں کو قائم رکھتے ہوئے حالات کے مطابق حکمت عملی میں تبدیلی پیدا کر کے آگے بڑھنے کی صلاحیت اور دماغ رکھنے والے جواہرات۔

مولانا مودودی رح کو جس قدر ہم نے پڑھا اور سمجھا ہے ,وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنے وقت اور حالات کے مطابق ایک فکر، اسکی تفصیلات و جزیات اور اسکے مطابق ٹھوس تنظیم چھوڑ کر چلے گئے اس وقت جماعت اسلامی کا موجودہ ڈھانچہ بظاہر انہی روایات پر کاربند نظر آتا ہے لیکن اس اجتماعیت میں مختلف حوالوں سے تشنگی مسلسل بڑھ رہی ہے جن پر از سر نو غوروفکر کرکے حکمت عملی میں تبدیلی کی ضرورت محسوس کرنے والا کوئی رہنماء موجود نہیں ہے۔ مولانا مودودی رح کے بعد فکری میدان میں خرم مراد مرحوم روائتی جمود سے ہٹ کر اعلی پائے کی تخلیقی صلاحیتوں کی حامل شخصیت تھے جو تخلیقی امور پر بھرپور دسترس اور انہیں بیان کرنے کا ملکہ بھی رکھتے تھے ان کی تخلیقی افکار میں رنگ بھرنے کے لیے اعلی دماغ اور کہنہ مشق عوامی لیڈر قاضی حسین احمد اور دانشور پروفیسر خورشید احمد بھی موجود تھے انہی کے دور میں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی میدان میں ظلم کے خلاف جدوجہد کے لئے عام نوجوانوں کو پاسبان کے نام سے منظم کرنے اور انتخابی میدان میں اسلامک فرنٹ کے قیام کا تجربہ کیا گیا یہ دونوں پلیٹ فارم اس وقت کی مروجہ کرپٹ اور مفاد پرست سیاست کا بہترین اور بروقت متبادل سمجھے جارہے تھے۔ لیکن جماعت اسلامی میں موجود اپنے ماضی کے ساتھ آنکھیں اور دماغ بند کرکے جڑا ہوا طاقتور تقلیدی ذہن والا طبقہ تخلیقی سوچ رکھنے والوں پر غالب آگیا جس کے نتیجے میں جماعت کے اندر بدلتے حالات کے ساتھ بدلتی حکمت عملی کی پروان چرھتی فکر کے ساتھ ساتھ بدلتا ہوا پاکستان بھی کہیں ماضی میں کھو گیا۔خرم مراد اور قاضی حسین احمد آخرت سدھار گئے اور پروفیسر خورشید احمد اپنی عمر رسیدگی کی وجہ سے صاحب فراش ہوچکے ہیں۔ سید منور حسن جیسے اجلے انسان کے وجود سے جماعت اسلامی کی اجتماعیت کا محروم ہوجانا اس جماعت کے لئے کسی المیے سے کم نہیں ہے لیکن خود سید منور حسن اپنی جماعت میں موجود ''عالی دماغ '' لوگوں کے ''حسن سلوک'' کے المیے کا شکار ہوئے۔

ہمارے علم کے مطابق انہوں نے دوسری مرتبہ امیر جماعت کے انتخاب میں اپنے نام کی شمولیت سے معذرت کرلی تھی یہ وہ وقت تھا جب سید منور حسن اور فوجی اسٹیبلشمنٹ ، افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تناظر میں آمنے سامنے کھڑے تھے اجلے کردار کے منور حسن اپنے مضبوط موقف کی وجہ سے اپنوں اور بیگانوں کے نشانے پر تھے جماعت کے ''اندر اور باہر '' کے کرداروں نے ایک طرف سید منور حسن کے جماعت کی امارت سے انکار کے راز کو ارکان جماعت میں افشاء کر دیا اور دوسری طرف سینہ بسینہ ایسا ماحول پیدا کردیا گیا جس سے سید منور حسن کا یقینی انتخاب نتائج میں تبدیلی کا ذریعہ بن گیا۔

اس کھلی حقیقیت کے واضح ہونے کے باوجود سید منور حسن جیسے عظیم انسان کے کردار کو شکست دینا ممکن نا ہو سکا وہ اپنے ساتھ ہونے والے کھیل پر کچھ نا بولے انکا کردار جیت گیا لیکن جماعت کے پست ذہنیت پالیسی ساز اور ملک کے حالات کو کنٹرول کرنے والی قوتیں بیک وقت جیت کر بھی ہارگئیں وہ وقت سید منور حسن کو منتخب کرکے جماعت کو اٹھا دینے یا رد کر کے زمین بوس کردینے کا تھا جماعت کے ذہین وفطین دماغوں نے دوسرے راستے کو اختیار کر کے شائد اپنی کامیابی کا راستہ ہمورا کرنا مناسب سمجھا۔وقت گزر جاتا ہے فیصلوں اور کرداروں کے اثرات باقی رہ جاتے ہیں خرم مراد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن دنیا سے پوری شان سے رخصت ہو گئے لیکن انکی جماعت اپنی غلط حکمت عملی کی بدولت ایک این جی او کے کردار تک محدود ہو کر رہ گئی۔ قوم کو صاف ستھرا متبادل دینے کی تڑپ رکھنے والے چلے گئے لیکن متبادل قیادت اور سیاسی قوت کھڑی کرنے، ظلم و ظالمانہ نظام کے خلاف جدوجہد کی تحریک جاری و ساری ہے یہ تحریک دائیں اور بائیں کی کشمکش میں پڑے بغیر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار عوامی لیڈر الطاف شکور کی قیادت میں '' پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی'' کے نام سے میدان عمل میں ہے۔ پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے نزدیک پپلز پارٹی، مسلم لیگ، پی ٹی آئی، لسانی و علاقائی، مذہبی اور غیر سیاسی اشرافیہ آئین پر عملدرآمد کرنے، ملک چلانے اور عوام کو حقوق دینے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کو تبدیلی کی نہیں باصلاحیت، بے لوث اور مخلص متبادل سیاسی قوت کی ضرورت ہے جس کی صورت گری پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کی صورت میں ہورہی ہے اور تیزی سے یہ نام عام آدمی کے دل کی آواز بنتا جارہا ہے ہمیں یقین ہے کہ یہ نام ایک دن کامیابی کی علامت اور ملک و قوم کی نجات کا ذریعہ بن جائے گا#
 

Khalil Ahmed
About the Author: Khalil Ahmed Read More Articles by Khalil Ahmed: 5 Articles with 3040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.