منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان، نسل نو کی تباہی کا باعث، نقصانات اور ہماری ذمہ داریاں!

منشیات کا بڑھتا ہوا رجحان ،
نسل نو کی تباہی کا باعث
نقصانات اور ہماری ذمہ داریاں!

ہوئے مے خوار میرے گلشن کے بلبل کیوں؟

آ تجھ کو بتاتا ہوں، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر وسناں اول، طاوس ورباب آخر

طول غم حیات سے نہ گھبرا اے جگر
ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو۔

عصر حاضر میں امت مسلمہ جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں ایک اہم مسئلہ ہمارے سماج کی غیر اسلامی صورتحال ہے۔ آئے روز ہمارے سماج میں نِت نئے فتنےجنم لے رہے ہیں۔ روزبہ روز ایسے الحادی طوفان ہمارے سماج میں وارد ہورہے ہیں جن کی موجودگی میں ایک خوشحال، پُرسکون اور پُر امن زندگی گزارنا مشکل بن چکا ہے۔ مادیت کے اِس جدید بُت نے ہمارے معاشرے میں ایسے سیاہ بادل منڈلائے کہ ڈاکہ زنی، قتل عام، عصمت ریزی اور یہاں تک کہ لڑکیوں کی کالابازاری بڑے پیمانے پر ہورہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اپنے نفس کی غیر اسلامی تسکین کے لئے انسان کسی بھی حد سے متجاوز ہورہا ہے جو کسی بھی طور ایک صحت مند معاشرے کی نشانی نہیں ہے۔

یہ اللہ تعالی کا کرم ہے کہ اُس نے ہمیں دین اسلام کی عظیم نعمت سے نوازا، ایسا دین جو ہماری زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی کرتا ہے ۔ رب العالمین نے جہاں توحید ، عبادات ، شہادت حق اور جہاد جیسے احکامات نازل کئے وہیں بے شمار آیات محکمات اور احادیث نبوی ﷺ بھی وحی کئے جو ایک خوشحال ، پُر امن اور انسان دوست معاشرہ وجود میں لانے کے لئے کافی ہیں اور جن تعلیمات کی بنیاد پر نبی ﷺ نے اسلامی معاشرہ تشکیل دیا۔ فحاشی ، بدکاری ، منشیات اور جنسی بےراہ روی ملت اسلامیہ کو بالعموم اور مسلمانانِ کشمیر کو بالخصوص اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ صورتحال ایسی ہوچکی ہے کہ دور دور تک تاریکی ہی تاریکی نظر آرہی ہے۔ شرم وحیا اور خاندانی نظم کا جنازہ خاموشی سے نکل رہا ہے، خاموشی سے نسل نَو کے ذہنوں سے تہذیب ، تمدن اور اسلامی فکر نکالی جارہی ہے۔ عریانیت اور فحاشیت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ منشیات ، کالا دھندا ، بے گناہوں کا قتل عام ، عصمت ریزی اب اس معاشرے کے معمولات بن چکے ہیں ۔ انسانیت خون کے آنسو رورہی ہے اور یہ سب زہر ہلاہل ثابت ہو رہے ہیں۔ ایک سوچی سمجھی چال کے تحت اُمتِ مسلمہ کا راستہ بدلا جارہا ہے اور انہیں مغربیت کے گھٹا ٹوپ انھیروں میں دھکیلا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا اور کچھ موبائل کمپنیاں اس کے آلہ کار ثابت ہورہی ہیں۔ میڈیا زیادہ سے زیادہ بے حیائی ، عریانیت اور بدکاری کو فروغ دے رہا ہے ۔

اللہ تعالی نے انسان کے لئے صرف ان چیزوں کو حلال فرمایا ہے جو انسانی جسم اور روح دونوں کے لئے مفید ہیں اور جو چیزیں انسانی جسم وروح دونوں کے لئے مضر ہیں ، جن کے استعمال سے انسان میں فساد وبگاڑ پیدا ہوجائے، ایسی چیزیں اللہ تعالی نے حرام کردی ہیں اور ان سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسلام نے نشہ آور چیزوں سے کلی طور پر روکا ہے۔ ساتھ ہی ان کی قباحتیں ، خباثتیں اور نقصانات بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ قرآن وسنت نےان کے استعمال کے سلسلے میں سخت قسم کی وعیدیں سنائی ہیں اور بعض نشہ آور اشیاء کے استعمال کے بارے میں اسلام نے مختلف قسم کی سزائیں بھی مقرر کی ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشار ہے :’’ اے ایمان والو! بات یہی ہے کہ شراب ، جوا ، بُت پرستی اور فال نکالنے کے پانسے کے تیر ، یہ سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں۔ ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح یاب ہو‘‘ [ المائدہ : ۹۰]

حدیث میں آیا ہے کہ : ’’ ہر نشہ آور چیز حرام ہے ‘‘ [صحیح مسلم] - ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالی نے شراب اور اسکی قیمت کو حرام کیا ہے۔ ‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ پاک کی لعنت ہے شراب پر ، اسکے پینے والے اور پلانے پر ، بیچنے والے اور خریدنے والے پر ، اسکو نچوڑنے والے اور بنانے والے پر، اسکو ادھر اُدھر لے جانے والے پر اور اس پر جس تک یہ پہنچائی جائے۔ ‘‘ [ابو داود]

اسباب و وجوہات:
بوڑھوں اور عمر رسیدہ افراد میں منشیات استعمال کرنے کی وجہ جو ہو سو ہو ؛ مگر اکثر بچے اور نوجوان والدین کی غفلت اور ان کے سرد رویہ کی وجہ سے نشے کی لت کا شکار ہوجاتے ہیں اور بعض دفعہ تو غلط صحبت کا اثر انہیں لے ڈوبتا ہے ، بعض اوقات مسائل سے چشم پوشی اور حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لئے بھی نشہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ نوجوان نسل فیشن کے طور پر سگریٹ نوشی ، شراب خوری یا دیگر نشہ آور اشیاء کا استعمال شروع کرتی ہے۔ پھر یہ شوق وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت کی شکل اختیار کر جاتا ہے اور اس طرح انسان مکمل طور پر نشے کا عادی بن جاتا ہے۔ اور اس کے دماغ کو مکمل تباہ وبرباد کردیتا ہے۔ پھر وہ شخص اس نشہ میں مدہوش رہتا ہے اور بار بار اس کو پورا کرنے کے لئے غلط ذرائع سے پیسہ حاصل کرتا ہے اور یوں اچھا خاصا صحت مند وتوانا انسان اپنی زندگی کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کرتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں منشیات اور دیگر فواحش کے فروغ کی بنیادی وجہ مغرب کی اندھی نقالی اور غلامی کے مزاج ہے، اسلام کا مکمل علم نہ ہونے ، اپنی دینی تعلیمات پر بصیرت واعتماد نہ ہونے اور روح کے بجائے مادے کو ترجیح دینے کے مزاج کی وجہ سے امت کی اکثریت مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب اور منکرات سے لبریز کلچر کی اندھا دھند نقالی اور غلامی کررہی ہے۔ اس مغرب پرستی نے ہمارے سماج میں دیگر لعنتوں کے ساتھ منشیات کی لعنت کو بھی پروان چڑھایا ہے، اور یہ خمار اس وقت تک نہیں اترے گا جب تک نقالی اور غلامی کا مزاج ختم نہ ہوجائے۔اور یہ اسی غلامی کا نتیجہ ہے کہ ہماری وادی کے نوجوانوں کو تباہی کے دھانے پر کھڑا کرنے، ان کو اسلامی تعلیمات سے دور رکھنے اور خصوصا تحریک آزادی کو دبانے کے لیے حال ہی میں محکمہ ایکسائز کے ایک مبینہ سرکاری دستاویز کے مطابق وادی کشمیر میں ایسی 67 جگہوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں شراب کی دکانیں کھولی جائیں گی۔ حکومت کی یہ پہل اہلیان کشمیر کے لیے انتہائی ضرر رساں ہے اور اس طرح کے اقدامات ہماری مسلم شناخت، انفرادیت اور اقدار پر حملہ اور ہمارے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ جموں و کشمیر میں مجموعی طور پر 224 شراب کی دکانیں ہیں جن میں سے جموں میں 220 جبکہ کشمیر میں صرف 4 دکانیں ہیں جن سے حکومت کو ماہانہ ایک سو کروڑ کی آمدنی ہوتی ہے۔

ابن باز رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ سگریٹ نوشی حرام ہے کیوں کہ یہ گندی چیز ہے اور بہت سے نقصانات پر مشتمل ہے اور اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے کھانے پینے کی چیزوں میں سے پاکیزہ چیزیں ان پر حلال ومباح کی ہیں اور گندی چیزوں کو حرام کیا ہے اور تمباکو اپنی تمام قسموں سمیت پاکیزہ چیزوں میں سے نہیں بلکہ گندی چیزوں میں سے ہے، اس طرح تمام نشہ آور چیزیں بھی گندی چیزوں سے ہیں۔ اس لئے تمباکو پینا ناجائز ہے اور اس کی بیع وشراء اور تجارت بھی ناجائز ہے، جیسا کہ شراب کی صورت ہے۔ لہذا جو شخص سگریٹ پیتا ہے اور اس کی تجارت کرتا ہے اسے جلد ہی اللہ تعالی کے حضور رجوع اور توبہ کرنا ، گذشتہ فعل پر نادم ہونا اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرنا چاہئے، اور جو شخص سچے دل سے توبہ کر اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : ’’ اے ایمان والو! سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاو۔

*نقصانات : عام طور پر لوگ منشیات سے ہونے والے نقصانات سے ناواقف ہیں ۔ ان میں طبی نقصانات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور مالی نقصان بھی ہیں۔ دنیوی تباہی کے ساتھ ساتھ اخروی بربادی بھی ہے۔ اس سے انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی بھی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ آدمی جسمانی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ روحانی اور دماغی کمزوریوں کا بھی شکار ہوجاتا ہے۔ غرض منشیات گوناگوں نقصانات ، قباحتوں اور کمزوریوں کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ ماہرین طِب کا کہنا ہے کہ اس سے جسم کا درجہ حرارت (Body Temperature) تبدیل ہوجاتا ہے۔ خون خراب ، دل کی دھڑکن غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ جسم کی چربی بڑھ جاتی ہے، جس سے جسم موٹا ہونے لگتا ہے۔ آنکھوں کی بینائی کمزور پڑ جاتی ہے، دماغ اور یاداشت کمزور ہونے لگتی ہے، نظام ہاضمہ میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے اور پٹھے کمزور ہوجاتے ہیں۔ انسان میں جھنجھلاہٹ ، بے چینی ، نیند میں خلل اور درد وغیرہ کی شکایتیں پیدا ہوجاتی ہیں، دھیرے دھیرے سونگھنے اور ذائقہ کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے، گیسٹرک السر اور برونکائٹس کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے، بلڈ پریشر ، دل کا دورہ اور کینسر کے خطرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ نوجوانوں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ یہ ایک Slow Poison یعنی میٹھا زہر ہے جو رفتہ رفتہ جسم کو کھوکھلا کرتا ہے۔ صحت سے متعلق ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس میں چار ہزار (4000) کمیکل اور زہر کی دو سو (200) اقسام ملائی جاتی ہیں جو جسمانی نشونما کو بری طرح متاثر کرتی ہیں ۔ بیڑی اور سگریٹ کا آغاز شوقیہ ہوتا ہے مگر یہ رفتہ رفتہ لت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر موت کی نیند سلا کر ہی دم لیتی ہیں۔ اسی زہر سے ریاست جموں وکشمیر میں تقریباً سالانہ ایک ہزار آدمی مرجاتے ہیں۔ اس منشیات کی وبا کی لپیٹ میں اس وقت ساری دُنیا آچکی ہے۔ ہر ایک ملک اور خطہ کے لئے یہ اس وقت مَکروتشویش کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے عادی اگر چہ ہر عمر کے لوگ ہیں مگر ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ان زہریلے منشیات کا کاروباردُنیا میں بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔

چونکہ دیگر ملکوں اور خطوں کی طرح ہماری وادی کشمیر میں بھی خفیہ طور پر ان زہریلی اشیاء کا کاروبار کیا جاتا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو اسکولوں ، کالجوں، اور یونیورسٹیوں میں مہذب وتعلیم یافتہ بنانے کے لئے بھیجتے ہیں مگر وہ وہاں انہی زہریلے منشیات کے شکار ہوتے ہیں جس سے ان کی پڑھائی تو متاثر ہوتی ہی ہے ساتھ ہی وہ اپنی زندگی کو بھی تباہ وبرباد کردیتے ہیں۔

* نشہ آور اشیاء سے نجات ! اور ہماری ذمہ داریاں:
منشیات کی یہ وبا ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے برے اثرات سے ہمارے سماج کا ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے۔ اور معاشرے کا ہر ذی شعور اس سلسلے میں فکر وتشویش میں مبتلا ہے اور ہونا بھی چاہئے ۔ مگر اسی سے کام نہیں چلے گا، بلکہ نوجوان نسل کو نشہ آور اشیاء سے پاک کرنے کے لئے چند اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
1) سب سے بڑی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مکمل خیال رکھیں ۔ ان کی تربیت پر خاص توجہ دیں اور اپنی اولاد کو غلط صحبت میں اٹھنے بیٹھنے سے روکیں۔ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کریں۔
2 ) اس حوالے سے علماءاور خطباء کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاشرتی مسئلے کو منبر ومحراب کی وساطت سے لوگوں کو بیدار کریں اور اس کے دینی ودنیوی نقصانات سے عوام کو آگاہ کریں، خاص کر جمعہ کے بیانات میں ۔
3) ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے تدارک کے لئے ایک منظم اور منصوبہ بند مہم چلائیں، جس کے تحت ہم اس کے پھیلنے کے اسباب وذرائع کا پتا لگا کر ان کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کریں۔ ساتھ ہی عوام کو ان نشہ آور چیزوں کی قباحتوں ، مضر اثرات اور نقصانات سے باخبر کریں۔ نشے کے خلاف مہم کو الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر چلایا جائے اور نشے کے عادی افراد کے انٹرویو کئے جائے تاکہ نوجوان نسل کے شعور میں یہ بات بیٹھ جائے کہ یہ خطرناک چیز ہے۔
4) مساجد کمیٹیاں ، اوقاف اس سلسلے میں درسگاہوں ، قرآنی مکتبوں اور دیگراسکولوں ،کالجوں میں وقتاً فوقتاً اجتماعات اور سمیناروں کا انعقاد کریں اور دینی لٹریچر کی مفت تقسیم یقینی بنائے۔

دراصل دین اسلام ہی ہے جو ان منشیات کے خلاف جہاد مسلسل کا اعلان کرتا ہے۔ اس لئے معاشرے میں جتنی اسلامی تعلیم عام ہوگی اور لوگ ان کے پابند ہونگے تو منشیات کا قلع قمع اپنے آپ ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمیں عوام میں دینی اور خلاقی بیداری پیدا کرنی ہوگی، خصوصاً نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں، جس سے ہمارے اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں اور دیگر تعلیمی ادارے ان منشیات سے پاک ہونگے۔ غرض ہمیں ہر ممکنہ ذریعہ بروئے کار لاکر اس منشیات کی وبا کے خلاف مسلسل سعی وجہد کرنی چاہئے ، تب جاکر ہم اس پر قابو پاسکتے ہیں اور ہمارا معاشرہ اس کے بھیانک نقصانات سے نجات پاسکتا ہے۔
وما علینا الا البلاغ

حافظ خباب بن شفیع

Khubab Bin Shafi
About the Author: Khubab Bin Shafi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.