آج بھی اکثر اوقات ماضی کے کچھ لمحات جو اپنے اندر عجب سی
مقناطیسی کشش رکھتے ہیں مجھے ماضی کے حسین جھروکوں میں کھینچ لیتے ہیں میں
یہ سمجھتی ہوں خاندان کے بزرگ کسی مظبوط درخت کی مانند ہوتے ہیں جو سب کو
سایہ فراہم کرتے ہیں ، ہمیں آپس میں جوڑے رکھتے ہیں ، وہ محفلیں جو ان کی
موجود گی میں سجتی تھیں ان کے جانے کے بعد کہیں کھو سی جاتی ہیں ہماری دادی
و نانی کی باتوں میں کس قدر مٹھاس ہوتی تھی ، وہ راتوں کی کہانیاں ، وہ
پرانے قصّے ، وہ دادی کے ہاتھوں کا ڈالا ہوا گھر کا اچار ، وہ پاندان کی
کھنک، وہ ان انمول ہاتھوں سے بنی ہوئی سبزی کی بھینی بھینی مہک ، ان کی
باتیں مجھے بارش کی پہلی پہلی بوندوں کے بعد اٹھنے والی سوندھی سوندھی
خوشبو کی طرح آج بھی محسوس ہوتی ہیں وہ کسی تخت پر بیٹھی ہوئی دادی اور وہ
پاندان کی آواز ,وہ آتے جاتے نظر بچا کر پاندان سے کچھ چھالیہ کے دانے
اٹھانا ، اپنے اندر بہت ہی اثر رکھتی ہوئی دعا.
مگر آنکھ کھولتی ہوں تو آج نہ دادی ہیں نہ کوئی پاندان ، بس کچھ یادیں ہیں
بہت قیمتی یادیں ، کاش کے وہ حسین پل واپس لایا جا سکتا - نویں کی دہائی
میں بڑے ہونے والے جوان اس معاملے میں انتہائی خوش نصیب ہیں کے انہوں نے وہ
لمحات محسوس کیے ہیں جو آج کے دور کا بچہ شاید کبھی محسوس نہ کر سکے -
اب مجھے نہ دادی نظر آتی ہیں نہ انکا پاندان ہے مگر ان انمول ہاتھوں سی بنے
ہوۓ پان کی مہک اور انکی شیریں باتوں کا ذائقہ آج بھی میرے ساتھ ہے -
|