ترجمہ:
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا۔(۱)اور جب ستارے(اپنی کہکشاؤں سے)گر
پڑیں گے۔(۲)اور جب پہاڑ(غبار بنا کر فضا میں)اڑا دئیے جائیں گے۔(۳)اور جب
دس ماہ کی گابھن(حاملہ)اونٹنیاں بے کار چھوڑ دی جائیں گی۔(اونٹنی اس وقت
عرب کے لوگوں کیلئے سب سے بڑی دولت سمجھی جاتی تھی،اور اگر اونٹنی گابھن ہو
تو اسکی قیمت اور بڑھ جاتی تھی،اور دس ماہ کی گابھن ہو تو اسے سب سے زیادہ
قیمتی سمجھا جاتا تھا۔اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ بروز ِقیامت ہر شخص
پر ایسی حالت طاری ہو گی کہ اسے اتنی بڑی دولت کو بھی سنبھالنے کا ہوش نہیں
رہے گا،اسلئے ایسی اونٹنیاں بھی بے کار چھوٹی پھریں گی۔)(۴)اور جب وحشی
جانور(خوف کے مارے)جمع کر دئیے جائیں گے۔(بعد اسکے کے جب وہ زندہ کئے جائیں
گے،تاکہ ان کے درمیان انصاف کیا جائے۔اگر ایک بے سینگھ بکری کو سینگھ والی
بکری نے دنیا میں مارا تھا،تو اس بے سینگھ کو سینگھ دیا جائے گا،تاکہ وہ اس
کو مار لے۔ہائے افسوس!ان ظالموں کے حال پر جو لوگوں کا خون گراتے ہیں اور
ان کا مال تباہ کرتے ہیں۔)(۵)اور جب سمندر اور دریا(سب)بھڑکا دئیے جائیں
گے۔(۶)اور جب روحیں (بدنوں سے)ملا دی جائیں گی۔(۷)اور جب زندہ دفن کی ہوئی
لڑکی سے پوچھا جائے گا۔(۸)کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی؟(جاہلیت کے
زمانہ میں ایک انتہائی وحشیانہ رسم یہ تھی کہ لوگ عورتوں کو منحوس سمجھتے
تھے اور بعض قبیلے ایسے تھے کہ اگر ان میں سے کسی کے ہاں بچی پیدا ہو جاتی
تو وہ شرم کے مارے اس بچی کو زندہ زمین میں دفن کر دیتا تھا۔قیامت میں اس
بچی کو لا کر پوچھا جائے گا کہ تمہیں کس جرم میں موت کے گھاٹ اتارا گیا
تھا؟اس سے ان ظالموں کو سزا دینا مقصود ہوگا جنہوں نے اس بچی کے ساتھ
درندگی کا معاملہ کیا۔)(۹)اور جب اعمال نامے کھول دئیے جائیں گے۔(مقاتل
بیان کرتے ہیں کہ جب انسان فوت ہوتا ہے تو اسکے اعمال کا صحیفہ لپیٹ دیا
جاتا ہے اور قیامت کے دن کھول کر اسکے سامنے رکھ دیا جائے گا۔)(۰۱)اور جب
سماوی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گا۔(۱۱)اور جب جہنم(کی
آگ)بھڑکائی جائے گی۔(۲۱)اور جب جنت قریب کر دی جائے گی۔(۳۱)ہر شخص جان لے
گا جو کچھ اس نے حاضر کیا ہے۔(۴۱)میں قسم کھاتا ہوں پیچھے ہٹنے والے ستاروں
کی۔(۵۱)سیدھے چلنے والے اور چھپنے والے ستاروں کی۔(۶۱)اور قسم ہے رات کی جب
وہ جانے لگے۔(۷۱)اور صبح کی قسم جب اس کی روشنی آنے لگے۔(۸۱)بیشک
یہ(قرآن)بڑی عزت وبزرگی والے رسول کا(پڑھا ہوا)کلام ہے۔(۹۱)جو(دعوت
ِحق،تبلیغ رسالت اور روحانی استعداد میں)قوت وہمت والے ہیں (اور)مالک ِعرش
کے حضور بڑی قدرومنزلت (اور جاہ وعظمت)والے ہیں۔(۰۲)(تمام جہانوں
کیلئے)واجب الاطاعت ہیں (کیونکہ ان کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے)،امانتدار
ہیں (وحی اور زمین وآسمان کے سب الوہی رازوں کے حامل ہیں)۔(۱۲)اور (اے
لوگو!)یہ تمہیں اپنی صحبت سے نوازنے والے(محمد صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم)دیوانے نہیں ہیں (جو فرماتے ہیں وہ حق ہوتا ہے)۔(۲۲)اور بیشک انہوں نے
اس(مالک ِعرش کے حسن مطلق)کو(لامکاں کے)روشن کنارے پر دیکھا ہے۔(۳۲)اور
وہ(یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)غیب(کے بتانے)پر بالکل بخیل نہیں
ہیں (مالک ِعرش نے ان کیلئے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔(۴۲)اور یہ(قرآن) کسی
شیطان مردود کا قول نہیں ہے۔(۵۲)پھر(اے بدبختو!)تم(اتنے بڑے خزانے کو چھوڑ
کر)کدھر چلے جارہے ہو؟(پھرتم کہاں جارہے ہو اے کافرو؟چونکہ کافر کہتے تھے
کہ قرآن مجید شیطان کا کلام ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی قسم کھائی،جن کا
پہلے ذکر آیا ہے کہ قرآن مجید میرا کلام ہے اور اس میں شیطان کا کلام بالکل
نہیں ہے۔شیطان بھی اس سے گریز کرتا ہے اور تم بھی شیطان کی پیروی کرتے ہو
ایسا مت کرو اور باز آجاؤ اور قرآن مجید کو اپنا پیشوا بناؤ۔کافروں کی
جہالت ہے کہ انہوں نے قرآن مجید اور سردار الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کو چھوڑ رکھا ہے اور شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔حکیم سنائی غزنوی
ؒفرماتے ہیں:تو قرآن مجید کے گرد گھوم کیونکہ جس نے قرآن مجید سے ہدایت
حاصل کی،وہ اس جہان(آخرت)میں عذاب سے بچ گیا (اور)اس جہان(دنیا)میں فتنوں
سے محفوظ رہا۔تو شریعت کے بادشاہ (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے گھوڑے کے سموں کی گرد کا سرمہ بنا،تاکہ نور ِالہٰی تیری دونوں آنکھوں کو
نصیب ہو جائے۔سنائی کی آنکھ میں پلک تیر کی مانند تیز ہو جائے،اگر وہ زندگی
کا ایک لمحہ بھی(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی)سنت کے بغیر زندہ
رہنا چاہے۔) (۶۲)یہ(قرآن)تو تمام جہان والوں کیلئے نصیحت ہے۔(۷۲)تم میں سے
ہر اس شخص کیلئے(اس چشمہ سے ہدایت میسر آسکتی ہے) جو سیدھی راہ چلنا
چاہے۔(۸۲)اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا رب
ہے۔(۹۲)
|