استاد کو کیسا ہونا چاہئے؟

7نومبر 2013 کو اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ہند کے ایک گاؤں میں رِہائش پذیر ایک استاد صاحب گزشتہ 20سال سے روزانہ 70میٹر چوڑی ندّی تیر کر پار کرتے ہیں اور دوسرے گاؤں میں پڑھانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کبھی پہنچنے میں تاخیر نہیں کی اور نہ ہی کبھی کوئی چُھٹّی کی ہے۔ برسات کے موسم میں ندّی کا پانی 20فٹ تک ہوجاتا ہے وہ پھر بھی استقامت سے پڑھانے پہنچتے ہیں، ندّی کے کنارے آ کر اپنا سارا سامان ایک بیگ میں ڈال لیتے ہیں اور ربڑ کی ٹیوب کے ذریعے ندی پار کرتے ہیں۔ سڑک کے ذریعے فاصلہ سات کلومیٹر ہے جس کے لئے دو سے تین بسیں تبدیل کرنا پڑتی ہیں کیونکہ جس گاؤں میں پڑھانے جاتے ہیں وہ تین طرف سے ندّی میں گھِرا ہوا ہے جبکہ ندّی پار کر کے جانے میں یہ فاصلہ صرف ایک کلو میٹر رہ جاتا ہے اس لئے وہ ندّی کے راستے پڑھانے کے لئے جاتے ہیں۔(دنیا اخبار آن لائن)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اَساتِذہ (Teachers) کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقّی میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتے ہیں۔ اساتِذہ کا شمار قوم کے باشعور طبقے میں ہوتا ہے۔ اساتِذہ کے فرائضِ مَنْصَبِی میں تعمیرِ قوم، کردار سازی، تزکیۂ نفس، قیادت کی تیاری، طلبہ کو اعلیٰ نظریات سے مُتَّصِف کرنا، حق و باطل، جائز و نا جائز اور حلال و حرام کا شعور بیدار کر نا بھی شامل ہیں۔ انہی اہم ذمّہ داریوں کی وجہ سےدینی اُستاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا۔

کہتے ہیں کہ استاد دراصل قوم کے مُحافِظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہیں کے سپرد ہے۔ سب محنتوں سے اعلیٰ درجے کی محنت اور کارگزاریوں میں سب سے زیادہ بیش قیمت کارگزاری ملک کے اساتذہ کی ہے۔استاد و معلم کا فرض سب فرائض سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیونکہ تمام قسم کی اَخلاقی تَمَدُّنی اور اُخروی نیکیوں کی چابی اس کے ہاتھ میں ہے اور ہمہ قسم کی ترقی کا سر چشمہ اس کی محنت ہے۔

استاد اور معلّم ہونا بہت عزّت و شرف کی بات ہے، اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بنا کر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ، 1/150،حدیث:229)

نسلِ انسانی کی بہترین پرورش کی ذمّہ داری بنیادی طور پر دو لوگوں پر ڈالی گئی ہے (1)والدین اور (2)اساتذہ پر۔

ایک والد اور والدہ کی بنیادی ذِمّہ داریاں کیا ہیں اور بچّوں کی تربیَت میں ان کا کردار کیا ہونا چاہئے؟ اس موضوع پر الگ آرٹیکل پیش کیا جائے گا۔ ذیل میں ایک کامیاب استاد کی اہمیت و ذمّہ داریوں کا بیان کیا جاتاہے۔

ایک بہترین اور معاشرے کے خیرخواہ استاد کے اوصاف کو چارعنوانات میں تقسیم کیا جاسکتاہے :(1)استاد کا کردار و گفتار (2)اسباق کی تیّاری اور پڑھانے کا انداز (3)طلبہ کے ساتھ تعلّقات (4)طلبہ کی صلاحیتوں اور میلانِ طبعی کی پَرَکھ (پہچان)۔
(1)استاد کاکردار و گفتار
❀کامیاب ترین استاد وہ ہے جو اپنے علم پر پہلے خود عمل
کرے تبھی طلبہ اس کی باتوں پر عمل کریں گے، کسی دانا کا قول ہے کہ عالِم جب اپنے علم پر عمل نہیں کرتا تو اس کی نصیحتیں دلوں سے اس طرح پھسل جاتی ہیں جس طرح سخت چٹان سے بارش کے قطرے پھسل جاتے ہیں❀استاد کو حُسنِ اَخلاق کا پیکر ہونا چاہئے تاکہ ذہین و غیر ذہین تمام طلبہ اس سے استفادہ کرسکیں، اکثر دیکھا گیا ہے کہ سخت رَوَیّے والے اساتِذہ کے غیر ذہین شاگرد ناکامی ہی کی طرف گرتے جاتے ہیں جس کی بڑی وجہ استاد کے سامنے اپنا ما فی الضّمیر (یعنی دلی بات) نہ کہہ سکنا اور سوال کرنے سے ڈرتے رہنا بھی ہوتی ہے❀وقت کی پابندی کا سب سے بڑا عملی نمونہ ایک استاد کو ہی ہونا چاہئے، کیونکہ جس قدر وہ پابندِ وقت ہوگا، اس کے شاگرد بھی وقت کی پابندی کریں گے، پھر یہی پابندِ وقت طالبِ علم عملی زندگی میں بھی وقت کے قدردان ثابت ہوں گے❀انسانی زندگی میں نشیب و فراز (اُتارچڑھاؤ) آتے رہتے ہیں، پریشانی، بیماری اور ضروریاتِ زندگی کے معامَلات ہر کسی کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن طبیعت کی ہلکی پھلکی ناسازی اور ایسے کام جو کوئی دوسرا بھی کر سکتا ہے ان کی وجہ سے چُھٹّی کرلینا یا درسگاہ دیر سے پہنچنا مُناسب نہیں، ایک اچّھے استاد کے پیشِ نظر قوم کا مستقبل ہوتا ہے جو ایک چھٹّی کیا ذرا سی تاخیر سے بھی متأثر ہوتا ہے۔
(2)اسباق کی تیّاری اور پڑھانے کا انداز
❀جس فنّ اور عِلْم میں مہارت ہو وہی پڑھائے، خود سیکھنے کے لئے بچّوں پر تَجْرِبات نہ کرے بلکہ پہلے خود اچّھی طرح پڑھے، سیکھے، سمجھے پھر بچّوں کو پڑھائے❀بے شک معلّم کا رُتبہ بہت عظیم ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر معلّم ہر پہلو سے کامل و اکمل ہو، سیکھنے سکھانے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے اس لئے ایک استاد کو چاہئے کہ اپنی کمی اور کوتاہی کو اعلیٰ ظرفی سے تسلیم کرے اور ان پر قابو پانے کی کوشش کرے❀اساتذہ کی اوّلین کوشش اپنے شاگردوں کی کامیابی ہونی چاہئے اور اس کیلئے اساتِذہ کو بچّوں کی ابتدائی اور ثانوی تعلیم میں بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بچّوں کی تعلیمی بنیادیں ہیں❀استاد کا فرض بنتا ہے کہ جو بھی سبق پڑھانا ہے اوّلاً اچّھی طرح مطالعہ کرے، سمجھے اور سمجھانے کے لئے تیاّری کرے، جس قدر ہو سکے آسان انداز میں سمجھائے، سبق کو آسان بنانے کے لئے مثالیں بیان کرے اور طلبہ کی ذِہْنی سطح کا لازماً خیال رکھے❀ہر شعبۂ زندگی میں قابل افراد مُہَیَّا کرنے کے لئے تعلیم و تربیَت بہت ضروری ہے اور تعلیم و تربیت کی اہم ذمّہ داری معلّم و مدرّس پر عائد ہوتی ہے۔ یوں تو ہر فنّ اور مضمون کے استاد کو اپنے مضمون کے اعتبار سے محنت کرنی اور کروانی ضروری ہے لیکن اسکول کالج میں اسلامیات اور اس سے متعلقہ مضامین کے اساتِذہ کی ذِمّہ داری بقیہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اسلامیات کے استاد کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ دین اور مذہب کی تعلیم دے رہا ہے، اس لئے اوّلاً خود اس مضمون اور سبق کو اچّھی طرح سمجھتا ہو، قراٰن و حدیث میں اپنی ذاتی رائے ہرگز نہ دے، بزرگوں اور اَسلاف نے جو لکھا اور بیان کیا وہی طلبہ کو سکھائے۔ ایمانیات کی بنیادی باتیں، عقائد اور فرض عُلوم جو نصاب میں شامل ہوں لازماً اور اچّھے انداز میں سکھائے اور ان کے دل میں ایمان کو ایسے بٹھا دے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ادارے یا شعبے میں جائیں پکّے سچّے صحیح العقیدہ مسلمان رہیں۔
نوٹ اسباق کی تیّاری اور بہترین تدریس کے بارے میں مزید جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”کامیاب استاد کون؟“ کا مطالعہ کیجئے۔
(3)غیرنصابی(Extracurricular) تربیتی سرگرمیاں
❀استاد کو چاہئے کہ صرف پڑھانے کی حد تک نہ رہے بلکہ بچوں کو سیکھنے کے عمل میں مدد دینے کےلئے نصابی اور غیر نصابی دونوں طریقے استعمال کرے۔
❀استاد کا کردار اور ذمّہ داری صرف تعلیمی ادارے ہی تک محدود نہیں ہوتی، طالبِ علم استاد کا لگایا ہوا وہ پودا ہوتا ہے جس کی حفاظت و پرورش کرنا، دنیا کے سَرْد وگرم سے بچانا، آبیاری کرنا، نگہداشت کرنا اور پروان چڑھانا استاد کی ذمّہ داریوں میں شامل ہے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ طالبِ علم کی درسگاہ کے علاوہ کی مصروفیات و مَشاغل سے بھی حتَّی الاِمکان واقفیت رکھے تاکہ اسے گھر کا کام (Homework)دینے اور اسباق وغیرہ کی تیاری نہ ہونے یا کمی ہونے کی صورت میں مناسب انداز میں نصیحت کرسکے، طَلَبہ کو صرف کتاب پڑھا دینا اور نصاب مکمل کروا دینا حقیقی کامیابی نہیں، اصل کامیابی یہ ہے کہ نصاب کے ساتھ ساتھ کتابِِ زندگی بھی پڑھائے، دنیا میں جینے اور کامیاب رہنے کے اسلامی اُصول بھی سکھائے۔
❀بچے کی تربیت میں والدین اور استاد دونوں ہی کا اہم حصّہ ہوتاہے، استاد کو چاہئے کہ کبھی بھی یہ نہ سوچے کہ یہ میرے پاس پڑھنے آئے ہیں، کتاب پڑھاؤں، سبق سنوں اور واپس بھیج دوں، تربیت ماں باپ خود کریں۔
❀بچوں کی تربیت کے ہر پہلو کو ملحوظِ خاطر رکھنے کیلئے مرد اَساتِذہ بچوں کے والد اور خواتین ٹیچرز والدہ سے رابطہ رکھیں اور ان کی خامیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ہر ہر بات کی شکایت کرنے کے بجائے خامیوں کو دور کرنے کی سچی نیّت سے مُشاورت کریں اور بچوں میں علم حاصل کرنے کی لگن پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔
❀ایک اچھا استاد اپنے طالب علموں کے دلوں میں اپنے مقصد اور نصبُ العین سے لگن پیدا کرتا ہے اور ان کو بے کار مَشاغِل سے اجتناب کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ایک کامیاب استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو محنت کا عادی بنائے اور انہیں سمجھائے کہ کاہلی، سستی، وقت کے زِیاں اور کام کو ٹالنے کی عادت سے تعلیمی معیار گِرتا ہے جو ایک قوم کا مجموعی نقصان ہے۔
(4)طلبہ کی صلاحیت و میلانِ طبعی کی پَرَکھ
❀اچھے استاد کے اوصاف میں یہ بھی شامل ہے کہ اپنے طلبہ کو پریشانی اور ناکامی کی صورت میں حوصلہ دے اور مزید محنت سے کام لینے کی نصیحت کرے اور اچھے مشورے دے، ایک مدنی اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں نے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات دئیے ، جب رزلٹ آیا تو عربی کے مضمون میں فیل تھا، بہت پریشانی ہوئی کہ پسندیدہ مضمون میں ہی فیل ہوگئے! اتفاق سے میرے بہت ہی شفیق و مکرم استاد محترم ہمارے شہر میں مدنی قافلے میں تشریف لائے ہوئے تھے، ان سے شرفِ ملاقات پایا، صورتِ حال عرض کی تو انہوں نے حوصلہ دیا اور قریبی بیکری پر لے جا کر مٹھائی وغیرہ کھلائی اور فرمایا کہ پریشان نہیں ہوں، بورڈ آفس(Board Office)جائیں اور اپنے پیپر رِی چیک کروائیں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّبہتر ہوگا۔ میں نے ہمت کی اور بورڈ آفس پہنچا، شکایت درج کروائی، ایک ہفتے کا وقت ملا، ہفتے بعد جب دوبارہ گیا تو بورڈ آفس میں موجود ایک سیّد صاحب(جنہیں شکایت درج کروائی تھی انہوں) نے بڑے پُرجوش انداز میں یہ کہتے ہوئے:”ارے حافظ صاحب! کہاں رہ گئے آپ، مَا شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّبہت نمبر آئے ہیں آپ کے!“ نیا رزلٹ کارڈ میرے ہاتھ میں تھما دیا، میں نے دیکھتے ہی اللہ کریم کا شکر ادا کیا کہ میرے عربی کے مضمون میں 92فیصد نمبر تھے۔
❀طالبِ علم کو اس کی ذہنی اِسْتِعداد، میلانِ طبع اور شوق و لگن کے اعتبار سے نیک مشورہ و راہنمائی دینا بھی ایک اچھے استاد کے اعلیٰ ترین اوصاف بلکہ ذمّہ داریوں میں سے ہے۔ ایک جامع مسجد کے امام و خطیب مدنی اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں حفظِ قراٰن کے بعد کالج میں داخلہ (Admission) لینے گیا، فیس جمع کروانے لائن میں کھڑا تھا کہ قاری صاحب کا فون آگیا، صرف ایک جملہ کہا اور لائن کٹ گئی: ”بیٹا! میں نے تو سوچا تھا کہ آپ درسِ نظامی کریں گے“ قاری صاحب دورانِ حفظ میرا ذہنی میلان ملاحظہ فرماچکے تھے، اسی لئے ایسی نصیحت کی چنانچہ اسی ایک جملے نے میری دنیا بدل دی اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں نے درسِ نظامی میں داخلہ لےلیا اور تکمیل کے بعد مسجد میں امامت و خطابت اور خدمتِ دین کے ایک اہم شعبہ میں مصروف ہوں۔
❀باقاعدہ تعلیم کے اختتامی سال طلبہ عملی زندگی میں جانے کے لئے شعبہ جات کا انتخاب کر رہے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر طلبہ کو درست راہنمائی کی اَشَد ضرورت ہوتی ہے، ایک شفیق و تجربہ کار استاد پرلازم ہے کہ طلبہ کو ان کی صلاحیتوں اور طبعی میلان کے مطابق درست شعبہ کی طرف راہنمائی کرے۔ دعوتِ اسلامی کے علمی شعبہ ”المدینۃُ العلمیۃ“ کے ایک مدنی اسلامی بھائی کا بیان ہے کہ میں جامعۃُ المدینہ میں درجۂٔ خامسہ میں پڑھتا تھا، ایک دن ذہن میں ایک سوال آیا اور اس کے بارے میں مطالعہ شروع کیا لیکن مناسب جواب نہ مل سکا، بالآخر اپنے مطالعہ کی روشنی میں ایک سوالنامہ ترتیب دیا اور اپنے استاد صاحب کو پیش کیا، استاد صاحب نے تحریر دیکھی تو جو پہلی نصیحت کی وہ یہ تھی کہ آپ ”المدینۃُ العلمیۃ“ میں انٹری ٹیسٹ دیں۔ میرا فی الحال کسی بھی کام کا ارادہ نہ تھا، دوسرے اور تیسرے دن بھی استاد صاحب نے یہی ذہن بنایا، چنانچہ میں نے ”المدینۃُ العلمیۃ“ میں ٹیسٹ دیا اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کامیاب ہونے کے بعد تاحال خدمتِ دین کے اس اہم شعبہ میں مصروف ہوں۔
پیارے اسلامی بھائیو!آخرُالذّکر سچی حکایات سے مقصود صرف یہ ہے کہ ایک اچھا استاد ہر قدم اور ہر موڑ پر اپنے طلبہ کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کرتاہے۔
اللہ ربُّ العزّت کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِس کائنات کے سب سے دانش مند اور کامیاب ترین مُعلّم ہیں، کیوں نہ ہوں کہ خود ربِّ کریم نے انہیں مُعلّم بناکر بھیجا چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ،1/150،حدیث:229)
احادیثِ مُبارَکہ اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ کے مُطالَعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کریم کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام، صحابیات، اہلِ بیتِ اطہار اور مکّۂ مکرّمہ و مدینۂ منوّرہ کے بچوں اور بچیوں کی کس قدر اچّھے اور دل میں رَچ بَس جانے والے انداز سے اِصلاح و تعلیم فرماتے تھے۔ ایک استاذ کو سیرتِ مصطفےٰ سے ملنے والے چند تدریسی مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
طالبِ علم کو مرحبا کہنا استاذ کو چاہئے کہ جب درجے میں آئے تو مسکراتے ہوئے، ہشّاش بشّاش طبیعت کا مُظاہرہ کرتے ہوئے آئے اور بعد میں آنے والے طلبہ کا بھی خیرمَقدَم کرے۔ حدیثِ پاک میں ہے: حضرت سیّدنا صفوان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ اپنی چادر پر ٹیک لگائے مسجد میں تشریف فرما تھے، تو میں نے عرض کی: میں علم حاصل کرنے کے لئے حاضرِ خدمت ہوا ہوں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”مَرْحَباً بطالبِ الْعِلْمِ یعنی طالبِ علم کو خوش آمدید!“مزید فرمایا کہ ”طالبِ علم پر فرشتے اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں۔“
(معجمِ کبیر،8/54،حدیث:7347)
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کو بھی یہی وصیّت فرمائی کہ ”عنقریب تمہارے پاس قومیں علم طلب کرنے کیلئے آئیں گی، پس جب تم انہیں دیکھو تو ان سے کہو: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وصیّت کے مطابق خوش آمدید! خوش آمدید!“ پھر فرمایا: ”اور انہیں تعلیم دو۔“(ابنِ ماجہ، 1/161، حدیث:247)
سائل کی طرف توجہ رکھنا اگر کوئی طالبِ علم سوال کرے تو بےتوجّہی سے جواب دینا مفید نہیں، بلکہ خاص اس کی طرف متوجّہ ہوکر جواب دینا چاہئے، روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی طرف سَرِ مبارک اُٹھایا۔ راوی نے بیان کیا: آپ نے اس کی طرف سَر اس لئے اُٹھایا کہ وہ (سائل) کھڑا تھا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے سوال کا جواب ارشاد فرمایا۔ (بخاری، 1/65، حدیث:123)
طلبہ کو خاموش ہونے کی نصیحت کرنا اور متوجّہ کرنا اَہم بات
کرنے اور کچھ سمجھانے سے پہلے اُستاذ کو چاہئے کہ تمام طَلبہ کو خاموش کروائے اور توجّہ سے سننے کی ترغیب دلائے، ورنہ کئی طلبہ کا اس اَہم بات سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہنے کا اندیشہ ہے۔ حدیثِ مُبارَکہ میں ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرفات میں کھڑے ہوئے اور اس وقت سورج غروب ہونے کے قریب تھا۔ پس آپ نے فرمایا: ”اے بلال! لوگوں کو میرے لئے خاموش کراؤ۔“ پس بلال رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیلئے چپ ہوجاؤ۔“
(الترغیب والترھیب، 2/130،حدیث:7)
حضرت سیّدنا خَبَّابرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”سُنو“ ہم نے عرض کی: ”یقیناً ہم نے سُنا (یعنی ہم سننے کے لئے تیّار ہیں) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”سُنو“ ہم نے عرض کی: ”یقیناً ہم نے سُنا۔“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”سُنو“ ہم نے عرض کی: ”یقیناً ہم نے سُنا۔“
(صحیح ابنِ حبان، 1/251، حدیث:284)
طالبِ علم کو نام یا کُنیت سے مُخاطب کرنا جب کوئی ایک یا چند طَلبہ مقصودِ کلام ہوں تو ان کے نام اور کُنیت سے پکار کر بات کرنا زیادہ توجّہ کا باعث ہوتاہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُبارک سیرت اور اَحادیث میں بکثرت ”یا اَبَابَکْر“، ”یاعائِشَۃ“ ”یافَاطِمَۃ“، ”یاعَلی“، ”یااَبَاذَر“ وغیرہ مَروی ہے۔
مضامین کا انتخاب و ترتیب ایک قابل استاذ کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے طلبہ کی ضرورت اور اپنی مہارت کے مطابق مضامین کا انتخاب کرے، جو سبق پڑھانا ہے اسے ایسی عمدہ ترتیب دے کہ طلبہ تدریجاً (آہستہ آہستہ) سیکھتے چلے جائیں۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ کا مُطالَعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شروع میں زیادہ تر عقائد کے موضوع پر توجّہ دلائی اور جب صحابۂ کرام عقائد میں پختہ ہوگئے تو اُنہیں عبادات و معاملات وغیرہ کی تعلیم حسبِ حال عطا فرمائی۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس حُسنِ انتخاب اور ترتیب پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ عبادات میں دلجمعی، معاملات میں صفائی اور اخلاق میں پاکیزگی کے لئے عقائد کی پختگی نہایت ضروری ہے۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین میں طِب، نفسیات، نباتیات اور دیگر کئی عُلوم و فنون کا ذخیرہ ملتا ہے، لیکن عقائد کی تعلیم سب سے پہلے ہے۔ ایک استاذ کو بھی یہی انداز اپنانا چاہئے کہ جو بات یا علوم و فنون کسی دوسرے علم پر موقوف ہوں تو وہ (یعنی موقوف عَلیہ عُلوم) پہلے سکھائے۔
طلبہ کے مُطالبہ پرسبق دُہرادینا ہر طالبِ علم مضبوط قوّتِ فہم کا مالک نہیں ہوتا، بعض پہلی بار ہی میں سبق سمجھ جاتے ہیں جبکہ بعض کو دو یا زیادہ بار دُہرائی کی حاجت ہوتی ہے، چنانچہ اگر کوئی طالبِ علم سبق دوبارہ بیان کرنے کی التجا کرے تو بیان کردینا چاہئے کہ سیرتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی یہی مُستَفادہے۔حضرت سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ابو سعید! جو اللہ کے ربّ ہونے پر، اسلام کے دِین ہونے پر اور محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رسول ہونے پر راضی ہوا اس کےلئے جنّت واجب ہوگئی۔ اس بات سے خوش ہوکر ابو سعید رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ”یارسولَ اللہ میرے لئے یہ بات دوبارہ فرمادیجئے۔“ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیا (یعنی کہی ہوئی بات کو دُہرادیا)۔
(مسلم،ص806، حدیث:4880)
طالبِ علم کے سوال پر حوصلہ افزائی کرنا ایک استاذ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو طلبِ علم کیلئے آتا ہے وہ سوالات بھی کرتا ہے اور جو استاذ طلبہ کے سوال کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں طلبہ میں مقبول اور افادۂ عِلمی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ طالبِ علم میں طلبِ علم کی تڑپ مزید بڑھانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچّھے سوال پر صحابۂ کرام کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے تھے، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی: ”یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! مجھے جنّت میں داخل کردینے والا عمل بتائیے!“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”شاباش! شاباش! بے شک تُو نے عظیم (چیز) کے بارے میں سوال کیا۔ اور بِلاشبہ وہ اس شخص کیلئے آسان عمل ہے جس پر اللہ آسان کردے۔ فرض نماز پڑھو اور فرض زکوٰۃ ادا کردو۔“
(مسند ابی داؤد طیالسی، ص76، حدیث: 560)
مسلسل سوالات بعض طلبہ سوال پر سوال کرتے چلے جاتے ہیں، اگر وہ سوالات عمومی فائدہ کے حامل ہوں تو رد (Reject) کرنے کے بجائے مناسب انداز میں جواب دینا چاہئے۔ صحابیِ رسول حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا: کون سا عمل اللہ کے ہاں سب سے پیارا ہے؟“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”نماز اپنے وقت پر (ادا کرنا)۔“ دریافت کیا: ”پھر کونسا؟“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔“ میں نے دریافت کیا؟ ”پھر کونسا؟“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ راوی کا بیان ہے:”رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ان (اعمال) کے متعلق بتلایا۔ اگر میں مزید(سوالات) پوچھتا، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور زیادہ بتلاتے۔“ (بخاری، 1/196، حدیث:527)
اب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ سے بہترین اندازِ تفہیم(یعنی سمجھانے کے انداز) کاذِکرکیاجاتا ہے۔
قَولی اور عَملی طریقہ انسانی فطرت ہے کہ بندہ سمجھانے والے کی بات سننے کے ساتھ ساتھ اس کے عمل کو لازمی دیکھتا ہے، ایک اچّھے استاذ کی خوبی ہے کہ وہ قول و عمل دونوں طریقوں سے تعلیم کا اہتمام کرے، طلبہ کو کوئی نیا کام یا کوئی ہدف دینا ہوتو پہلے اس کی عملی صورت سمجھائے تاکہ وہ جلد اورصحیح سیکھ سکیں۔ حضورِ اکرمصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین اس طریقۂ تعلیم پر گواہ ہیں، چنانچہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوکر نماز کے اوقات کے مُتعلّق دریافت کیا تو آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دو دن نماز اس طرح پڑھائی کہ پہلے دن ہر نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا فرمایا اور دوسرے دن اس کے آخر وقت میں۔ پھر آپ نے دریافت کیا کہ :نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا شخص کہا ں ہے؟ وہ حاضر ہوئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ان دونوں اوقات کے بیچ کا وقت تمہاری نماز کا وقت ہے۔(مسلم، ص243، حدیث:1391)
رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا اندازِ تفہیم
طلبہ کو کچھ بھی ذہن نشین کروانے کے لئے سب سے زیادہ اہمیت اندازِ تفہیم کی ہے۔ یہی وہ ہُنَر ہے جو عملِ تعلیم کو پروان بھی چڑھاتا ہےاور اس کی کمی نقصان بھی پہنچاتی ہے۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی اپنی بات کو سمجھانے کے لئے متعدَّد طر یقے اپنا تے تھے مثلاً
بات واضح کرنا اور حسبِِ ضرورت دُہرانا آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمجب بھی کوئی بات کرتے تو صاف اور واضح انداز میں فرماتے اور کسی خاص بات کی اہمیت کے سبب یا سمجھانے کی غرض سے دو یا تین بار بھی دُہراتے چنانچہ روایت ہے کہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اتنا ٹھہرٹھہر کر گفتگو فرماتے کہ آپ کے پاس بیٹھا ہوا شخص اسے یاد کرلیتا۔ جبکہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لفظ کو تین بار دہراتے تھے تاکہ اسے سمجھ لیا جائے۔(ترمذی،5/366، حدیث: 3659،3660)مدینہ شریف کے بارے میں فرمایا: ھِیَ طَابَّۃ، ھِیَ طَابَّۃ۔ (مسند احمد، 6/409، حدیث:18544)
مثالوں سے سمجھانا قراٰنِ کریم، احادیثِ کریمہ اور انسانی فطرت گواہ ہے کہ کوئی بھی بات مثال کے ذریعے سمجھائی جائے تو بہت جلد سمجھ آجاتی اور دیر تک ذہن نشین رہتی ہے۔حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو مثالیں دے کر سمجھاتے جیسا کہ
(1)حضرت سیّدُنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم موسمِ سرما میں باہر تشریف لائے جبکہ درختوں کے پتے جَھڑ رہے تھے توآپ نے ایک درخت کی ٹہنی پکڑ کر اس کے پتّے جھاڑتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! میں نے عرض کی: یارسولَ اللہ! میں حاضر ہوں۔ ارشاد فرمایا: بےشک جب کوئی مسلمان اللہ پاک کی رضا کے لئے نَماز پڑھتاہے تو اس کے گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے جھڑرہے ہیں۔
(مسند احمد، 8/133، حدیث: 21612)
(2)حضرت سیّدُنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر چھوٹے کان والےبکری کے ایک مُردہ بچے کے پاس سے ہوا ، کچھ صحابۂ کرام بھی آپ کے ہمراہ تھے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا کان پکڑا اور فرمایا: تم میں سے کون اسے ایک درہم میں خریدنا چاہے گا۔ لوگوں نے عرض کی:ہم اسے کسی بھی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتے، ہم اس کا کیا کریں گے؟ ارشاد فرمایا: کیا تم پسند کرتے ہو کہ یہ تم کو مل جائے۔ انہوں نے عرض کی: اللہ پاک کی قسم! اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کہ اس کاایک کان چھوٹاہے اور اب جبکہ یہ مرچکاہے کوئی اسے کیسے لے گا؟ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی قسم! جیسے تمہاری نظروں میں یہ مُردہ بچہ کوئی وقعت نہیں رکھتا اللہ پاک کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ (مسلم، ص1210، حدیث:7418)
سمجھانے کے لئے سوال کرنا بعض باتیں سوالیہ انداز میں سمجھانا مفید ہوتی ہیں، یعنی اگر کسی چیز کی اہمیت بیان کرنی ہو، اہم بات سمجھانی ہو یا کوئی طالبِ علم سوال کرے تو جواباً طلبہ سے ایسا سوال کرنا جس کا جواب وہ جانتے بھی ہوں اور اس کا بتائی جانے والی بات سے تعلق بھی ہو جیسا کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز کے ذریعے گناہوں کے ختم ہونے کی ایک مثال بیان فر ماتے ہوئے صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان سے ارشاد فرمایا: بھلا بتاؤ کہ اگر کسی کے دروازے پر نہرہو اور اس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی رہ جائے گا؟صحابۂ کرام نے عرض کی:اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی نہیں رہےگا۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: یہ مثال پانچوں نمازوں کی ہے۔ اللہ پاک اس کے ذریعے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔(بخاری، 1/196، حدیث:528)
اسی طرح ایک موقع پر مؤمن کی شان و عظمت سمجھانے کے لئے سوال فرمایا: مؤمن کی مِثال اس دَرخت کی سی ہے جس کے پتےّ نہیں گِرتے، بتاؤ وہ کونسا دَرَخت ہے؟ حاضِرین مُختلف درختوں کے نام عرض کرنے لگے۔ حضرتِ سیِّدُنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما بہت ذہین تھے، فرماتے ہیں کہ میرے ذِہن میں آگیا کہ کَھجور کا درخت ہے لیکن میں نے بتانے سے حَیا محسوس کی۔ پھر حاضِرین نے عرض کی: یارسولَ اﷲ! آپ ہی ارشاد فرما دیجئے تو حضورِ پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ کَھجور کا دَرَخت ہے۔
(مسلم،ص1157، حدیث:7098)
ہاتھ کے اشارے سے سمجھانا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کبھی کسی بات کو سمجھانے کے لئے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ بھی فرمایا کرتے تھے، چنانچہ یتیم بچّوں کی پرورش کرنے والے کے درجے کو بیان کرتے ہوئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنّت میں اس طرح ہوں گے۔ پھر اپنی شہادت والی اور درمیان والی انگلی سے اشارہ فرمایا۔ (بخاری،3/497،حدیث:5304)
لائنوں اور نقشے وغیرہ کے ذریعے سمجھانا اللہ کریم کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نقشے وغیرہ بناکربھی اپنی باتیں صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو ذہن نشین کرواتے تھے۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک چوکور خط کھینچا اور ایک خط بیچ میں کھینچا اس سے نکلا ہوا اور چند خطوط چھوٹے کھینچے اس خط کی طرف جو بیچ میں تھا اس کی طرف سے جس کے بیچ میں یہ تھا پھر فرمایا:یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے اسے گھیرے ہوئے اور یہ جو باہر نکلا ہوا ہے یہ اس کی امید ہے اور یہ چھوٹے خط آفتیں ہیں تو اگر انسان اس آفت سے بچا تو اس نے ڈس لیا اور اگر اس سے بچا تو اس نے کاٹ لیا۔ (بخاری، 4/224، حدیث:6417)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ہمارے لئے خط کھینچا، پھر فرمایا:یہ اللہ تعالیٰ کی راہ ہے۔پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی دائیں جانب اور اس کی بائیں جانب خطوط کھینچے، پھر فرمایا:یہ راستے ہیں جن کی طرف شیطان بلا رہا ہے۔
(مسند ابو داؤد طیالسی، ص33،حدیث:244)
طلبہ کے لئے دعا کرنا علم اور طالبِ علم سے اخلاص و مَحبّت رکھنے والے استاذ کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے طَلَبہ کی کامیابی کے لئے بارگاہِ الٰہی میں دعا کرتا ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت میں کئی ایسے واقعات ملتے ہیں چنانچہ حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عبّاس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے (سینے) لگایا اور کہا: اے اللہ! اس کو کتاب یعنی قراٰنِ کریم کا علم عطا فرما۔
(بخاری،1/44،حدیث:75)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ان بیان کردہ مثالوں اور احادیث کے علاوہ بھی رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت میں ایک استاذ کے لئے بہت سارے مدنی پھول ہیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تعلیم و تبلیغ کے دوران انتہائی نرمی اور شفقت کا مظاہرہ فرماتے تھے، جس کے سبب ہر ایک پر خوشگوار اثر پڑ تا تھا اور سیکھنے کے بعد اس پر عمل کرنے میں ایک لذّت محسوس کرتا۔ ایک کامیاب استاذ کے لئے ان طریقوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ خود مختلف خوبیوں اور پاکیزہ سیرت و کردار کا حامل ہو تاکہ اس کی شخصیت طالبِ علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکے اور ساتھ ہی وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا رویہ اپنائے،غیراَخلاقی وغلط حرکتوں کے صادر ہونے پر مار پیٹ کرنے،گالیاں دینے، بے وقوف، ناہنجار وغیرہ نازیبا کلمات کہنے کے بجائے نرمی اور محبت سے سمجھائے۔ اُن کے لایعنی اعتراضات پر مذاق اڑانا اور گہرے اعتراضات پر جھنجھلاہٹ کی کیفیت کا طاری ہوجانا،سیرتِ نبوی کے سراسر خلاف ہے۔نیز خود غرضی اور مال و دولت کے حصول کو مقصدِ اصلی بنانے کے بجائے طلبہ کی خیر خواہی اور اچھے مستقبل کو اپنا مطمحِ نظر بنائیں۔ اللہ کریم ہم سب کو مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت اپنانے کی تو فیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
 

Abu Al Hassan Rashid Ali Qadri
About the Author: Abu Al Hassan Rashid Ali Qadri Read More Articles by Abu Al Hassan Rashid Ali Qadri: 2 Articles with 5513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.