قدرت ایک خاموش رھنما ھے جو ھمیں بدلتے موسموں، ڈھلتے
پھرتے سائوں، سرسبز و شاداب وادیوں، نرم ھواؤں میں اپنے ذوق کی جھلک
دکھلاتی ھے قدرت کے اس جہاں میں ھم ذی شعور وجود ھیں اس خاموش رھنما کی درس
گاہ میں اس بچھے دسترخوان پر زندگی کے کئی اسباق ھیں۔ قدرت کے بدلتے موسم
اسکے بدلتے مزاج ھیں جو ھمیں بدلاؤ کو برداشت کرنے کا سبق دیتے ھیں اور
قدامت پرستی کا لبادہ اوڑھے رکھنے کو اسکی فطرت کے الٹ چلنے کا بدلاتے ھیں
ڈھلتے پھرتے سائے زندگی کی بے ثباتی کا آئینہ ھیں جو ھمیں اس مادی دنیا سے
اوپر اٹھ کر ساتھی انسانوں کو عزیز رکھنے کا درس دیتے ھیں جو کسی مسافر
خانے سے زیادہ کچھ بھی نہیں سرسبز و شاداب وادیاں قدرت کے ذوق جمالیات کی
ترجمان ھیں جو ھمارے ظاھر و باطن کو سجھنے سنورنے کا ڈھنگ سکھاتے ھیں نرم
ھوائیں اسکی رحمت کا بتاتی ھیں جو چاروں سمت برس رھی ھے اور ھم انسان کھڑے
اسکا مشاھدہ کر رھے ھیں یہ دیکھ لینے کے بعد ھم عبدالرحیم کی تصویر دکھائی
دیتے ھیں قدرت کے اس ذوق سے روگردانی گویا انسانی تنزلی ھے انسان اشرف
المخلوقات ھے اسکی یہ قدر اسکے علم کی وجہ سے ھے علم کی روشنی پھوٹنے سے
جہالت کا اندھیرا ختم ھوتا ھے ۔ قدرت نے اپنے علم کی ایک شکل یا ذوق ان
مظاھر فطرت کی صورت میں ھمیں بخشی ھے جس کو قبول کرنے میں ھماری حیات کی
بقاء ھے اس سے منہ موڑنا جہالت و حشت کو گلے لگانے کے مترادف ھے اس نہ
دکھائی دینے والے ذوق کو دیکھ کر اس میں اپنے آپ کو رنگ لینا اپنے دامن کو
نفرت، کینہ، بغض جیسی آلائشوں سے پاک رکھنا ھے۔ اس کے نتیجہ میں ایسا
معاشرہ جنم لیتا ھے جہاں انسانوں کی شکل میں فرشتے رھتے ھیں جن کی زبان
محبت،تعاون کی زبان ھے ۔ اس قدرتی ذوق کا زندگی کے چلن میں شامل ھو جانا
گویا کائنات کے رنگوں، سازوں کا دروازہ کھل جانا ھے جس کے بعد کائنات حسن
کا پیکردکھائی دیتی ھے وجودسے باھر کائنات کی سرگوشیاں سنائی دیتی ھیں
عبادت شروع ھو جاتی ھے نرم اور معصوم رویے پرورش پاتے ھیں نرم مزاجی اور
رویوں میں شائستگی سے معاشرتی سوچ مثبت رھتی ھے
|