دل تتلی بن اُڑا - قسط_نمبر11

سویرا گھر پہنچی تو تنزیلہ ٹی وی دیکھ رہی تھی۔گندے برتن سامنے پڑے تھے۔اسلم علیکم! اپنا بیگ رکھتے ہوئے۔ کھانے کے بعڈ بڑٹن ٹو اٹھا لیٹے ہین چلو یہ اٹھاو اوڑ مجھے ایک گلاس پانی لاڈو۔ تنزلہ نے اسکی بات سنی ان سنی کردی۔ خود ہی اٹھ کر گئی کچن میں پھیلی ہوئی گندگی دیکھ کر"ٹنزیلہ یہ کونسا طڑیقہ ہے۔کچن کی حالٹ ڈیکھی ہے ٹم نے؟
تنزیلہ" افف! شور مت مچاو مجھے ٹی وی دیکھنے دو!
سویرا:کچن سے نکلی برتن اٹھاتے ہوئے "ٹنزیلہ ساڑا ڈن بھاگ بھاگ کڑ ڈیوٹی ڈینی پڑٹی ایک پل کی فڑصٹ نہیں ملٹی ،پر ٹمہیں کیا " واپس کچن میں چلی گئی۔
تنزیلہ"توبہ ہے دماغ خراب کر دیا،اٹھ کر کھڑی ہوئی۔ پارٹی کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔ ریموٹ کاوچ پر پھینک کر کمرے میں چلی گئی۔
_______

زمرد گھر پہنچا تو سب گھر والے چائے پی رہے تھے۔ رجب نے عباس کے ساتھ والی جگہ چھوڑ دی اور سکینہ کے ساتھ بیٹھ گیا۔ سکینہ:شیلو زمرد کے لیے چائے لے آو۔ عباس :زمرد بیٹا آپ کہاں تھے۔
زمرد:ماموں جان ریحان کو ضروی ڈاکومنٹ دینے تھے۔
عباس"اچھا اچھا اور بتاو کام شروع ہوگیا؟
زمرد:جی ماموں کینیڈا کی ایک کمپنی کا پروجیکٹ ملا ہے۔
عباس:بیسٹ آف لک بیٹا۔
ثاقب"بیٹا آتے ہی چھکا مار دیا واہ بڑے لکی ہو!
زمرد"نہیں ثاقب ماموں مما کے ریفرنس سے ملا سے ہے۔
عباس" تبی مل گیا_____اب بہت محنت کرنا تاکہ اپنی ماں کو سرخرو کروا سکو۔
ثاقب: آپی تو مارکیٹنگ کا بزنس نہیں کرتی۔۔۔۔۔ہے نا؟
زمرد: جی جی بس سرجیت مما کے دوست بنے ہوئے ہیں۔ کل جب ہماری ایجینسی کا پرپوزل گیا تو انہوں نے فورا اپروول دے دی۔
عباس اور ثاقب زمرد کو گھورنے لگے۔
زمرد شیلو سے چائے پکڑتے ہوئے۔۔۔۔ماموں میں نے کچھ غلط کہا دیا۔
ثاقب: بیٹا بزنس میں کوئی یاری دوستی نہیں ہوتی۔
زمرد:ماموں آپ بھی کمال کرتے ہیں اپنے بھانجے کی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں؟
ثاقب:مگر فریشر' فریشر' ہی ہوتا ہے۔
زمرد:ماموں دراصل کینیڈا میں یہی کام کرتا آیا ہوں۔
عباس: زمرد تمہیں اپنی ماں کا ہاتھ بٹانا چاہیے تھا۔ زمرد نے خاموشی سے گردن جھکا لی۔
ثاقب: بیٹا دھیان سے تمہیں اتنی آسانی سے ایڈجسٹ نہیں ہونے دیا جائے گا۔
زمرد:مجھے اندازہ ہے ان خطرات کا۔
سکینہ: بیٹا اللہ تمہیں کامیابی و کامرانی عطا فرمائے۔ اور آپ دونوں بھائی کیا عدالت لگا کر بیٹھے گئے ہو۔
شبنم ملازم سے بیگ اٹھوا کر سیڑھیوں کی ریلنگز پکڑ کر اسکے پیچھے پیچھے اترتے ہوئے۔ چلو اسے صاحب کی گاڑی میں رکھ دو واپس آکر بڑا بیگ بھی لے جانا۔ جاکر سکینہ کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ثاقب آپ نے تقریبا سارہ سامان ہی باندھ لیا۔
ثاقب:عباس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے____بھائی جان!
عباس نے اسکی طرف دیکھا تو اسکی آنکھیں بھیگی ہوئی پائیں تو پوچھا"ثاقب بیٹا یہ کیا" اپنے ہاتھوں سے اسکی پلکیں صاف کیں" نہ کرو میں تجھے ایسے نہیں دیکھ سکتا۔
ثاقب"آج اببا یاد آرے ہیں ماں کو تو دیکھا نہیں کیسی ہوتیں ہیں۔ اسکی زندگی ختم کرکے ہی تو اس دنیا میں آیا تھا۔
شبنم بڑبڑاتے ہوئے"افف ہوگیا ڈرامہ شروع "
سکینہ اٹھکر اسکے پاس گئی ۔ ثاقب میں نے تجھے کبھی دیور نہیں سمجھا چھوٹا بھائی سمجھ کر پالا ہے۔
ثاقب"اسکے پاوں میں بیٹھ گیا "بھابی ماں مجھے معاف کردیں میں آپکو غلط سمجھتا رہا حالانکہ میں خود (شبنم کی طرف دیکھتے ہوئے )غلطی پر تھا۔ عباس نے اسے اوپر بیٹھایا___ثاقب تمہاری جگہ ہمارے دلوں میں ہے پاوں نہیں۔ سکینہ اسکے بائیں جانب بیٹھ کر تجھے کس نے کہہ دیا کہ میں اپنے چھوٹے بھائی سے ناراض ہوں؟
ثاقب: بھابی اصولی طور پر ایسا ہی ہونا چاہے۔
سکینہ"محبت میں نہ اصول اور ضابطے ہوتے نہ روایات۔ بس پر خلوص ہوتی ہے۔ جس میں کبھی دھوکا ہوتا ہے نہ بدلا۔
عباس:ثاقب واپس کب آو گے؟
ثاقب: اٹھ کر کھڑا ہوا بھائی جلدی آؤں گا۔ میرا وعدہ جب آؤں گا سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہوگا۔
عباس سے گلے ملا___تم ایک بار چھ ماہ بعد آئے تھے۔ تمہیں یاد ہے؟
ثاقب:جی بھائی
ثاقب:اس بار تو تقریبا سارا سامان باندھ لیا وجہ؟
ثاقب: عباس سے دور ہٹا سکینہ کے پاس بھابی ماں آپ سے وعدہ ہے واپس ضرور آؤں گا۔
سکینہ نے کندھے سے نیچے آئی ہوئی چادر ٹھیک کرتے ہوئے"جاو اللہ اپنے امان میں رکھے "
رجب اور سرخاب صوفے کے پیچھے منہ پھلا کر کھڑے تھے۔زمرد سے گلے ملتے ہوئے انہیں دیکھا یہ میری گڑیا اور بھالو کو کیا ہوا؟
دونوں بھاگ کر کمرے میں چلے گئے۔
زمرد کے سیل فون کی گھنٹی بجی___ایکسکیوز می فون لے کر باہر کی طرف چل دیا۔
ثاقب میں بچوں کو دیکھ لوں" انکے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔ اسے دیکھ کر شبنم آگ بگولہ ہوگئی۔ بھاڑ میں جاو تم! وہ اوپر چلی گئی۔
عباس"اس بدتمیز ناشکری عورت میں پتہ نہیں کیا دیکھا تھا ثاقب نے۔ سکینہ" معصوم ہے اسکے الٹ پھیر میں آگیا۔ بس اب تو اللہ سے دعا وہ اس عورت کو ہدایت دے۔ عباس :آمین! اسکی طرف دیکھ کر سر ہلانے لگا۔
ثاقب کمرے میں گیا تو سرخاب اور رجب ایک دوسرے سے ٹیک لگا کر بیڈ پر بیٹھے تھے۔ ثاقب سرخاب کی طرف گیا تو اس نے منہ بیڈ کی ٹیک کی طرف موڑ لیا۔دوسری جانب سے رجب کی طرف گیا تو اس نے بھی اسی طرف منہ پھیر لیا۔ ثاقب نے دونوں کا ایک ایک کان پکڑا جلدی سے نیچے آجاو۔دونوں منہ کے پوز بناتے ہوئے۔ آپ سے کٹی ہے چاچو رجب چیخا اور کان چھڑوا لیا۔ سرخاب کا کان چھوڑتے ہوئے۔ اب بتاو کیا چاہے تم دونوں کو۔۔۔۔۔دونوں بولے چاچو چاچو اور صرف چاچو!
ثاقب: سر کھجاتے ہوئے سرپرائز ہے مگر تم لوگ تو ناراض ہو تو کیسے بتاوں گا۔
دونوں لپک کر ثاقب کے گلے لگ گئے۔ جلدی بتائیں چاچو__! اگلی دفعہ پورے ایک مہینے کی چھٹیاں اپلائی کردیں مل کر گھومیں پھریں گے چترال کا ٹرپ پکا۔
سرخاب سچ چاچو!؟
رجب" وہ چاچو مجھے ڈرون کیمرہ چاہے۔
ثاقب"اوئے جاسوس مجھے بھی اپنے ساتھ جوتے لگوانے ہیں" تینوں ہنستے اور باتیں کرتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئے۔
زمرد لان میں کھڑا فون سن رہا تھا۔ ہاں شبیر مجھے سمجھ آگئی۔
شبیر "ٹھیک ہے اگر تمہیں کچھ مدد چاہیے ہو تو بتا دینا۔
زمرد" کوئی اور خبر پتہ چلی تو فورا سے بتا دینا"
شبیر"وہ آج رحیم یار خان چلا گیا___فون کان سے اٹھایا ادھر ادھر نظر گمائی۔ اٹھتے ہوئے دھوائیں پر ہاتھ مارا اور سانس لی۔
زمرد"میں تمہیں سن سکتا ہوں " شبیر کوئی لڑکی اسمگل کی تھی مگر وہ راستے میں ہی گم ہو گئی۔
زمرد کے ذہن میں فورا سے گڑیا کا خیال آیا "کہیں وہ لڑکی تو نہیں "
شبیر"کیا کہا" زمرد نے ثاقب اور عباس کو باہر آتے دیکھا تو بولا "کچھ نہیں ،اچھا میں فون رکھتا ہوں"
شبیر "ٹھیک ہے پھیر مگر دھیان سے 12 بجے سے پہلے پہلے بلڈنگ سے نکل آنا اگر پھنس گئے تو بلڈنگ کے بائیں جانب ایک بوڑھی اماں کا گھر ہے۔ وہ راستہ سب سے سیو ہے۔ تم سن رہے ہو؟ زمرد "ہاں سمجھ گیا! شبیر "اماں نے ایک عدد جرمن شیفرڈ رکھا ہے۔ اسے مٹھائی بہت پسند ہے۔
زمرد"مجھے پولیس تو چھوڑ دے گی پر وہ نہیں" شبیر"بیوقوفی مت کرنا____اگر کیس جیتنا ہے" زمرد"یہ حقیقی زندگی ہے کوئی فلم نہیں" شبیر " نیند کی گولی کا پاوڈر بنا کر برفی جیب میں رکھنا تمہارا کام آسانی سے ہوجائے گا۔
زمرد"شکریہ اللہ حافظ" ثاقب "ابھی سے بڑے بزنس مین بن گئے ہوئے" زمرد اسکی طرف چل پڑا"نہیں ماموں بس ضروری کال تھی"شبیر نے فون اپنے بازو کے ساتھ لگی پٹی میں بغل کے نیچے لگا لیا۔ارد گرد کا جائزہ لیا اور ماچس کی تیلی دانتوں سے دبا کر سلگتے ہوئے ڈھیر پر پھونک کے ذریعے پھینک دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دھواں آگ کے شعلوں میں بدل گیا آگ کے شعلے آسمان کو چھونے لگے۔
فضلو " ہاں تم لوگ کام کردو پھر آکر اپنی مزدوری لے جانا۔ پتہ شام کو بھیج دوں گا۔
شبیر اسکے پاس گیا" استاد جی کوئی کام ہے کیا" فضلو"آگ تو اچھی جلاتے ہو پر ابھی کچے ہو!
شبیر" تم بھی ایک دن یہاں کچے ہی تھے مگر اہل بصیرت پہچان ہی جاتے ہیں" دیوار پر لٹکتی ہوئی گن اتاری اور گولیوں سے بھری میگزین نکال کر واپس لوڈ کردی"بڑی شاندار ہے" فضلو" چل میرے ساتھ "وہ اسے کاٹھ کباڑ والے کمرے میں لے گیا لکڑی کے دو تین تختے اٹھائے ایک مربع شکل کی چار فٹ کی تختی کھینچ کر سائیڈ پر کردی اور نیچے کود گیا"آجاو بیسمنٹ میں" شبیر اندر اتر گیا دیکھا بڑا سا کمرہ اندر سے نت نئے ہتھیاروں سے لیس ہر چھوٹے سے چھوٹا بڑے سے بڑا ہتھیار موجود تھا "شاندار کہاں سے لیے؟ فضلو"نے گن پکڑ کر شبیر کی کن پٹی پر دھر لی "کس نے بھیجا ہے؟ شبیر نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور جھٹکے سے اسکا بازو مڑوڑ کر پستول زمین پر پٹخ دی"ہوش میں ہو تم"
فضلو ڈر گیا "مجھے لگا تم ٹٹولنے کی کوشش کر رہے ہو"
شبیر:آگے بڑھا اور دائیں ہاتھ سے پستول اٹھانے لگا تو اسکی نظر ایک کان میں پہننے والی بالی پر پڑی،شہادت کی انگلی سے وہ بالی اٹھائی بالی چھپا کر پستول دوسرے ہاتھ سے اسے پیش کر دیا۔فضلو"کامیاب رہے تم؛اب چلیں؟ شبیر نے اپنی جینز سے دایاں ہاتھ نکالا "چلیں پھر"
------
رضیہ مختلف اخباروں کے اشتہارات پڑھ رہی تھی اور ہاتھ میں پکڑی پینسل سے سے مارک کررہی تھی۔ اسے ثناء کا آنسو بار بار یاد آرہا تھا۔ میں نے اسکے ساتھ غلط کیا کیا؟ نہیں اس نے مجھ پر جوس پھینکا۔۔۔۔۔پھر بھی مجھے ایسا نہیں کرنا چاہے تھا۔ وہ رو کیوں رہی تھی؟ اٹھ کر کھڑی ہوئی "سوری کہنے میں کیا حرج ہے" اسکے فون کی بیل بجی آگے بڑھ کر فون پک کیا "سر تسکین، فون اٹھا کر جی سر" تسکین"رجی تم نے صدیق قتل کیس پر ایک رپورٹ بنانے کا کہا تھا" رجی مٹھی بھیچتے ہوئے "سر آپ مجھے نکال چکے ہیں" تسکین "نہیں میں تمہیں اسامہ کا آفس دینا چاہتا ہوں" رجی"مطلب سرپرائز" تسکین" ہاں بلکل" رجی" کل جمعہ کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا اور 9 بجے سے پہلے رپورٹ آپ تک پہنچ جائے گی" تسکین"ویلڈن رجی"
رضیہ فون بند کر کے "گڑیا والا معاملہ واضع نہیں---شاداب کے علاوہ کون مار سکتا ثبوت کہاں سے مل سکتے۔ اور شاداب صدیق کا دشمن کیوں بنا یہ دو مدعے اگر سلجھ جائیں تو رپورٹ میرا مستقبل بنا دے گی" صرف اسکول کا مسئلہ ہوتا تو وہ اسے قتل کبھی نہ کرتا۔ وہ باہر نکلی روم نمبر ایٹ کا دروازہ نوک کیا "یس " اندر جا کر ثناء کو دیکھ کر مسکرائی ۔ ثناء "آو رجی" وہ اپنے بیڈ پر بیٹھی تصویر دیکھ رہی تھی۔ رضیہ اسکے پاس گئی"ثناء میں نے تمہارے ساتھ غلط کیا ، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہے تھا" اسکے ہاتھ سے تصویر پکڑ کر دیکھنے لگی۔ ثناء " شروع شروع میں جان بوجھ کر تمہاری شکایتیں لگا لگا کر تمہیں بہت تنگ کیا مگر پھر جب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تو تب تک تم مجھ سے نفرت کرنے لگی تھی۔ رضیہ " ثناء یہ کون ہیں" ثناء "میرے والدین" رضیہ "پھر انکے ساتھ کیوں نہیں رہتی؟ ثناء "میری جنت مجھ سے روٹھ گئی۔ رضیہ:کیا ہوا؟ ثناء:ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں وہ دونوں مجھے اکیلا چھوڑ گئے" رضیہ تصویر حیرانی بنی اسکی باتیں سن رہی تھی۔ ٹشو سے آنکھ کا زیریں حصہ صاف کرتے ہوئے بولی "میری ماں کراچی سے تھیں انہوں نے ایک حبشی سے شادی کر لی (یعنی کے میرے والد ) اسلیے ننھیال والے ہم سے نہیں ملتے اور
ددھیال میں کوئی ہے ہی نہیں " شکستگی اسکے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔ رضیہ نے اپنے دائیں ہاتھ سے اسکا ہاتھ پکڑا اور اوپر بایاں ہاتھ رکھ کر بولی۔۔۔۔۔اللہ تمہیں صبر دے۔ اٹھ کر کھڑی ہوئی ثناء اس دنیا میں ہر کوئی غم کے پہاڑ لیے پھرتا ہے۔بس فرق صرف اتنا ہے جس سے لاوا پھوٹ جائے وہ نظروں میں آجاتا ہے۔ ثناء اسکے جانے کے بعد اسکی بات پر سوچنے لگی۔
____
شبنم: کافی کا کپ لیے ونڈو میں کھڑی تھی۔لگتا ہے ثاقب کو شک ہوگیا اس بار اسکا راویہ بہت بدل گیا تھا۔ مسکراتے ہوئے چلو کچھ بھی ہو میرے جال سے زندگی بھر نہیں نکل سکتا۔۔۔۔۔بیوقوف" واپس آئی۔ گلدان میں پھول دیکھ کر"ارے کوئی سرپرائز دینا ہوگا بال کندھے سے پیچھے ہٹائے۔ پھولوں میں موجود خط نکالا ارے مجنوں مجھے تو ڈرا ہی دیا تھا۔ سر ہلاکر کپ ٹیبل پر رکھا خود بیٹھ گئی۔ اوپر سے کاغذ پھاڑا "لیگل ڈاکومنٹ____ڈایورس___ نہیں کبھی نہیں ثاقب تم" چھوٹی سی چٹھی طلاق نامے کے ساتھ چسپاں تھی۔ جلدی سے شبنم پڑھنے لگی" شبنم میں نے ساری دنیا سے زیادہ تمہیں محبت اور عزت دی۔جب لوگ تمہارے کردار پر انگلیاں اٹھا رہےتھے تب تمہیں اپنایا، باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا۔ مگر افسوس تم نے مجھے ہی دھوکا دیا۔ تمہاری تمام کالز اور ایس ایم ایس کی ڈیٹیل دراز میں پڑی ہیں۔ میرے گھر سے نکل جاو۔ تم اس قابل ہو تو نہیں مگر پھر بھی پیر کو میرا وکیل حق مہر کی رقم تمہارے اکاونٹ میں ٹرانسفر کروادے گا۔
تمام کاغذات پھینک دیے تکیہ پیٹنے لگی_______

اٹھ کر کھڑی ہوئی ثاقب میرے پاس کچھ نہیں کھونے کو مگر تمہارے پاس بھی کچھ نہیں بچے گا۔
فون پر نمبر ڈائل کیا۔۔۔بیل بجنے لگی آنسو صاف کیے۔ ہیلو "ہاں شاداب کیسے ہو؟ بولو جان! روبینہ کا نمبر شام تک میسج کردوں گی۔ شاداب"دل خوش کردیا" شبنم" کل صرف دو گارڈ ہونگے انکو میں چائے پلادوں گی" شاداب" پھر بھی پچھلی بار کی طرح پلان فیل نہیں ہونا چاہے۔ شبنم "سکینہ بھی میرے ہاتھوں کی بنی چائے بہت شوق سے پیتی ہے" مونچھون پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شاداب "تو پھر؟
شبنم " اگر چاہو تو آنکھیں پھاڑتے ہوئے تمہاری دلربا روبینہ کی جان تمہارے قبضہ میں ہوگی" شاداب"خوش کردوں گا تمہیں" شبنم "نہیں بنکاک کا ٹکٹ چاہے! شاداب "او ہو____میں شام تک واپس آجاوں گا۔ پھر بتاتا ہوں۔
شبنم:ٹکٹ چاہے مجھے!
شاداب: اچھا چلو ٹھیک ہے کل رات 8 بجے ایئرپورٹ پہنچ جانا" آگے پھر دوبئی میں میرا دوست سب دیکھ لے گا۔
-----
زمرد تالاب میں ٹانگیں لٹکا کر بیٹھا تھا۔ سارہ آئی گارڈ نے دروازہ کھولا۔ پرس دائیں مین لٹکا رکھا تھا تیزی سے اندر آئی۔ اچانک پول پر نظر پڑی ٹھہر گئی ادھر ادھر دیکھا۔ جلدی زمرد کے پاس گئی۔ ہیلو ہنڈسم بوائے___کیسے ہو؟
زمرد اسے دیکھ کر چونکا پھر اپنی ٹانگوں سے فولڈڈ پینٹ ٹھیک کرتے ہوئے۔ "ہائے سارہ۔۔۔۔آئی ایم گڈ! آپ بتاو؟
اسکے ساتھ بیٹھ گئی۔ زمرد نے ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے" کوئی کام ہے؟
سارہ: تھوڑی شرمندہ ہوئی" نہیں چھوڑو میں چلتی ہوں"
زمرد"سارہ اگر کچھ ہے تو بتا دیں ورنہ دل پر بوجھ ہی رہے گا" اٹھ کر پاس پڑی کرسیوں کی طرف چل پڑا۔ سارا اسکے پیچھے پیچھے لمبی سانس بھرتے ہوئے" علی مجھے شاید آپ سے یہ بات کرنی بھی چاہے کہ نہیں"
زمرد " ضرور کہو آپ سرخاب کی دوست ہیں "
سارہ بہت ہی سخت لہجے میں : علی آپ سرخاب کی محبت میں خود کو پاگل مت کریں۔
زمرد:مسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔ پاگل____ایسا کس نے کہا؟ ہاتھ میں پکڑا ہوا سفید کنکر پول کی طرف پھینک دیا۔
سارہ:چہر دوسری طرف موڑا اور دانت بھیچ کر سانس کھینچی۔۔۔۔۔وہ شرمندہ ہے تمہاری طرف بڑھ کر اس نے بہت بڑی غلطی کی_____لیکن اسکا مستقبل صرف اور صرف زمرد ہے ناکہ تم!
زمرد:اپنے سفید دانت اسے دیکھاتے ہوئے اچھا تو پھر____؟
سارہ: پھر یہ کہ تم ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہو_____
زمرد اٹھ کر کھڑا ہوا؛آپکا کا انداز گفتگو کھٹک رہا ہے۔ سرخاب شرعی طور پر میری بیوی ہے۔
سارہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، بیوی ۔۔۔۔حیرانی سے اسکی طرف متوجہ ہوئی کیا مطلب؟
زمرد:بچپن سے آج تک سرخاب کے علاوہ کوئی چہرہ نہیں دیکھا یا شاید دیکھائی نہیں دیتا۔
سارہ:علی سرخاب تمہارے نکاح میں مگر وہ تو______؟
زمرد: میرے اور سرخاب کے درمیان غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے۔ جو صرف اور صرف تم دور کر سکتی ہو۔میں زمرد ہی ہوں مگر میں نے اپنے دوست علی کو مسلمان ہونے کی وجہ سے مار دینے پر اپنا نام علی رکھا۔
سارہ: کرسی پر بیٹھ گئی۔
زمرد:یہاں آنے سے چند مہینے پہلے سرخاب نے فیس بک اکاونٹ بنایا مجھے پتہ چلا تو____اس سے بات کرنے لگا ہم چند دنوں میں بہت کلوز ہوگئے۔ پھر ایک دن میں نے اسے پرپوز کردیا جس پر سرخاب بہت خوش ہوئی مگر اگلے دن اسنے مجھے بلاک کردیا۔
سارہ کو یاد آیا جب اس نے خود علی کو اسکے اکاونٹ سے بلاک کیا تھا۔
زمرد اسکے پاس آیا۔سارہ میں چاہتا تھا جس طرح میں اس سے محبت کرتا ہوں ایسے ہی وہ بھی مجھ سے محبت کرے میں اسکا اپنا انتخاب بنو۔۔۔۔یہ نہ ہو کہ وہ صرف نکاح کی وجہ سے مجھے قبول کرے۔
سارہ:کبھی اس سے بات کی کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ اسکے قریب آگئی۔
زمرد:پتہ نہیں مگر آج بھی اسکی آنکھوں سے لگتا ہے میں اس کیلئے ساری دنیا سے اہم ہوں دوسرے ہی پل جب وہ بولتی ہے تو پرایا کردیتی ہے۔
سارہ:اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر زمرد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ انشاءاللہ____وہ مسکرایا اور چلا گیا۔ سارہ نے آنکھ سے گرتا آنسو صاف کیا زمرد سو بار سرخاب کا ہو۔ مگر علی صرف اور صرف سارہ کا ہے۔
زمرد تیزی کے ساتھ اندر چلا گیا سکینہ اسے کمرے میں داخل ہونے تک دیکھتی رہی۔ پھر سارہ آگئی سکینہ نوکر سے اندر پڑے گملوں کی صفائی کروا رہی تھی۔
اسلام علیکم آنٹی! سکینہ:وعلیکم سلام جیتی رہو بیٹی! سارہ: آنٹی سرخاب کہاں ہے؟ سکینہ:اپنے کمرے میں ہوگی۔ سارہ اسکے کمرے کی طرف چلی گئی ناب گمائی چپکے سے دروازہ کھولا تو سرخاب بیٹھی کچھ سوچ رہی تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی____بڑے حجابوں میں بیٹھی ہو۔ اٹھ کر گرم جوشی کے ساتھ سارہ سے ملی" ہاتھ میں پکڑا جائے نماز دیکھ کر لگتا ہے_____اسے اللہ سے مانگنے لگی ہو؟ سرخاب "مانگتے تو وہ ہیں جو ملا نہ ہو" سارہ پریشان ہوگئی"تمہیں پتہ چل گیا؟ سرخاب چل کر کھڑکی کے پاس گئی" ہاں میرا نصیب وہی ہے جو مجھے مل گیا" سارہ: کے ہوش ہی اڑگئے"نہیں سرخاب "
سرخاب"اسکی طرف مڑی اسکے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے"تمہیں یاد ہے تم نے جب علی کو پہلی بار دیکھا تھا تو بلاک کرنے کے بعد کہا تھا "سرخاب علی مجھے بخش دو" جاو بخش دیا۔ سارہ نے چہرہ دوسری طرف پھیرا اور پسینہ صاف کیا" کیسی باتیں کررہی ہو؟ وہ صرف مذاق تھا۔ سرخاب" تم اسکے ساتھ اچھی لگ رہی تھی" سارہ پانی پانی ہوگئ" تمہیں پتہ ہے علی کیا چاہتا ہے؟
سرخاب" سر نفی میں ہلاتے ہوئے مسکرائی"
سارہ نے آنکھیں پھیرتے ہوئے تمہاری اور زمرد کی طلاق"
سرخاب نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا پھر جائے نماز بچھا لیا۔ سارہ اسے گلے ملی کل آوں گی "اللہ حافظ " سرخاب نے اثبات میں سر ہلادیا۔
رجب انکی تمام باتیں سن چکا تھا_____اسکے کمرے سے نکلنے سے پہلے ہی پیچھے بھاگ کر دیوار کے پیچھے چھپ گیا۔
---
رجی بازار گئی وہاں سے پٹاخوں کا ڈبہ خریدہ____پرس سے پیسے نکال کر دکاندار کو دیے اور چل پڑی۔ ایک بلڈنگ کے پاس پہنچ کر کھڑی ہوگئ۔ جہاں پر کنسٹرکشن کا نام ادھورا پڑ تھا۔ ادھر ادھر دیکھا اور اندر چلی گئی۔سیڑھیاں چڑھ کر اوپر ایک کمرے میں جا کر لکڑی کے تختے پر بیٹھ،پرس اتار کر اس پر رکھا اور اٹھ کر باہر کی طرف جانکی۔ واپس آکر بیٹھی اور پرس سے اونی دھاگا نکالا ڈبے سے پٹاخے نکالنے لگی اور باری باری عمودا ہر پٹاخے کے سرے سے دھاگہ 10 سے 15 سینٹی میٹر لمبا باندھنے لگی۔پھر ایک باریک لوہے کی تار سے پٹاخوں کی پچھلی جانب بل دے کر اوپر ایلفی گرانے لگی۔ نیچے لٹکتے دھاگوں کے تمام سرے متوازی ایک لمبے دھاگے کی مدد سے دوسرے سے جوڑ دیے۔گاڑی کی آواز سن کر چونک گئی جاکر دیکھا تو "انسپکٹر داود" نیچے چلی گئی۔ اتنے میں وہ اندر آگیا۔ اسلام علیکم! رجی:سر ہلا کر___تو آپ میرا پیچھا کر رہے ہیں" انسپکٹر "نہیں ایک سوال کا جواب چاہے"
رجی" آپ بتائیں میں اسامہ کیس کے سلسلے میں خود حاضر ہوجایا کروں گی۔
انسپکٹر " نہیں____ہے تو اسکی کڑی مگر اسوقت آپ کی جان کو خطرہ ہے۔
رجی"کیا مطلب میں سمجھی نہیں " اس نے آنکھیں پھیر لیں۔ داود دو قدم آگے بڑھا اور اپنے محافظ کو باہر جانے کا اشارہ کیا۔ مس رجی کل آپ کا پرس اسامہ کی گلی سے ملنا،آپ کا کل رات گھر سے غائب رہنا____دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ رضیہ:یکدم کنفوژ ہوگئی۔ پھر ہمت باندھ کر " میرا پرس کل رکشا میں بیٹھتے ہوئے گرا تھا" شکریہ آپ نے ایمانداری سے واپس کر دیا۔ رہی گھر سے باہر رہنے کی بات تو میں کل زرینہ آنٹی کے پاس تھی۔ اپنے پرس سے کاغذ پینسل نکال کر دیوار پر رکھ کر پتہ لکھا اور انسپکٹر کے ہاتھ میں تھما دیا۔
انسپکٹر: ھمھم___اپنے ہاتھ پر چھڑی مارتے____ایک اور سوال بھی ہے۔ سیڑھیاں چڑھنے لگا جبکہ پانچویں سیڑھی پر جاکر بیٹھ گیا۔ رضیہ نے شکر الحمداللہ کہا پھر بولی"کون کونسا سوال۔ اتر کر نیچے آیااور اپنی جیب سے ایک گھڑی نکالی۔ رضیہ نے گھڑی کو دیکھتے ہی کچھ کہنا چاہا مگر اس سے پہلے وہ کچھ کہتی انسپکٹر بولا :کل شاداب کے ڈیرے پر ہونے والی قتل و غارت کے ثبوت اکھٹے کیے تو یہ گھڑی بھی ملی۔ رضیہ پہلے تو ہچکچائی پھر انسپکٹر اگر تم نے میری کلائی پر ایسی گھڑی دیکھ ہی لی تھی تو ضروری نہیں یہ گھڑی میری ہی ہو۔ انسپکٹر :چیخنے چلانے سے سچ جھوٹ نہیں بن سکتا۔۔۔۔۔فرانزک رپورٹ کیلئے اگر یہ گھڑی بھی چلی جائے تو کیا ہوسکتا ہے۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں۔
رضیہ"جاو لیب اپنا وقت ضائع مت کرو"
انسپکٹر" ٹھیک ہے مس رجی میں حقیقت جاننا چاہتا تھا تاکہ آپکی مدد کر سکوں۔۔۔افسوس آپ لوگ ہماری وردی کی عمومی شہرت سے ڈرتے ہیں۔ اللہ نگہبان!
رضیہ" انسپکٹر میرے پاس بہت کچھ ہے کہنے کو " وہ پیچھے مڑا "جی میں سن رہا ہوں" رضیہ"میرا خیال ہے یہ جگہ مناسب نہیں" انسپکٹر " آج کا ڈننر میری طرف سے" رضیہ"سوری آج ایک ضروری کمیٹمنٹ نہ ہوتی تو ضرور۔
انسپکٹر" اٹس اوکے" مناسب وقت نکال کر بتا دیجئے گا" معذرت چاہتا ہوں " گھڑی اسے پکڑتے ہوئے آپکی امانت۔
رضیہ نے گھڑی پکڑی " شکریہ "
اگر آپ چاہیں تو لفٹ لے سکتی ہیں ۔ رضیہ" بہت شکریہ میں خود چلی جاوں گی۔
انسپکٹر کے جانے کے بعد ایک کمرے سے اپنی بائیسائیکل نکالی اور اوپر چلی گئی۔ واپس ہاسٹل آتے ہوئے شاداب کے ڈیرے کی طرف چلی گئی۔ تھوڑی دور ایک پولیس والا کھڑا تھا۔ایک پیکٹ گراتے ہوئے اسکے پاس سے گزر گئی۔ اسنے آواز لگائی لڑکی لڑکی جو اسنے جان بوجھ کر سنی ان سنی کردی۔ جب وہ دوسری طرف مڑی تو اسکی توقع کے برعکس دوسرا گارڈ تھا ہی نہیں۔ وہ جلدی سے سامنے جنگل نما جھاڑیوں میں گھس کر کافی آگے چلی۔ سائیکل سے اتری اپنے پرس سے تار نکالی (جس پر پٹاخے لگے تھے)دو درختوں سے باندھ دی۔ ایک چھوٹی سی بوتل کا ڈھکن کھولا جس سے اونی دھاگے کا سرا نظر آ رہا تھا۔ اسے سونگھ کر سر ہلایا ۔ پھر وہ دھاگہ دوسرے دھاگوں پر متوازی لگے دھاگے کے درمیان باندھ کر پٹرول سے بھری بوتل کا ڈھکن بند کردیا۔ جو لٹکنے لگی۔ دوسرے راستے سے واپس چلی گئی۔سورج تقریبا غروب ہوچکا تھا۔

Saima Munir
About the Author: Saima Munir Read More Articles by Saima Munir: 14 Articles with 12375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.