|
|
کینسر آج کے دور میں بھی ایک خطرناک بیماری تصور کی جاتی ہے جس میں موت کی شرح
کے زیادہ ہونے کے سبب اس کو خوفناک بیماری سمجھا جاتا ہے- اور جب بھی کسی فرد
میں اس موذی بیماری کی تشخیص ہوتی ہے اس کا پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ وہ ہمت
ہار دیتا ہے اور اس کے مشکل علاج کے سبب اور اس کے اثرات کے باعث لوگ بہت تکلیف
کا سامنا کرتے ہیں اور جو اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے بعد شفایاب ہو جاتے ہیں
وہ پہلے سے زیادہ بہادر ہو جاتے ہیں- |
|
ایسی ہی ایک عزم و حوصلہ کی مثال نائرہ ملک ہیں جو کہ پیشے کے اعتبار سے نیوز
اینکر کے طور پر گزشتہ پانچ سال سے مختلف چینلز کے لیے کام کر رہی تھیں ۔ سات
مہینے قبل انہیں اپنی چھاتی میں معمولی تکلیف اور گلٹی محسوس ہوئی جب انہوں نے
اس کا چیک اپ کروایا تو ان پر یہ روح فرسا انکشاف ہوا کہ انہیں سیکنڈ اسٹیج کا
بریسٹ کینسر ہے- |
|
ان کا اس حوالے سے یہ کہنا تھا کہ اس سے دس سال قبل بھی جب وہ فرسٹ
ائير کی طالبہ تھیں کینسر کی بیماری سے گزر چکی تھیں مگر اب دوبارہ سے
جب وہ کینسر کا شکار ہوئيں تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اس بیماری
کا مقابلہ کریں گی اور اس حوالے سے اپنی ماں کو بھی پریشان نہیں کریں
گی ۔ |
|
|
|
مگر سیکنڈ کیمو تھراپی کے بعد جب وہ سخت ترین تکلیف سے گزر رہی تھیں تو
ان کی والدہ کو اس بات کا ادراک ہوا کہ نائرہ کسی مشکل سے گزر رہی ہیں
تب نائرہ ملک نے اپنی والدہ کو اپنی بیماری کے بارے میں بتایا- اپنی
بیماری کے حوالے سے نائرہ کا یہ کہنا تھا کہ اس بیماری نے ان کے بہت
سارے قریبی لوگوں کو دور کر دیا اور بہت سے پرائے لوگوں کو اپنا بنا
دیا- |
|
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کے لیے سب سے مشکل وقت وہ تھا جب کہ دوسری
کیموتھراپی کے نتیجے میں ان کے بال گر گئے تھے اور ان کے سر پر بال نہ
رہے اس بات نے ان کو بہت تکلیف دی اور وہ غسل خانے میں ہی بیٹھ کر ایک
گھنٹے تک روتی رہیں- مگر اس کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب کوئی
بھی مشکل آئے گی وہ اس کا سامنا کریں گی- |
|
عزم و ہمت کی مثال کیموتھراپی کے مرحلوں سے گزر چکی ہیں ابھی ان کا
علاج جاری ہے مگر ڈاکٹروں کے مطابق وہ نہ صرف کینسر کی بیماری کے خطرات
سے نکل چکی ہیں بلکہ باقی دنیا کے لیے ایک مثال بن چکی ہیں- اور دنیا
کے باقی لوگوں کو بطور ایک موٹیویشنل اسپیکر کے طور پر اس بیماری کے
خلاف لڑنے کے لیے لیکچر دیتی ہیں- |
|
|
|
نائرہ ملک کا اس موقع پر یہ بھی کہنا ہے کہ انسان اپنی بیماری سے کمزور
نہیں پڑتا ہے بلکہ لوگوں کے رویۓ اس کو کمزور کر دیتے ہیں- مگر اس
بیماری نے ان کو اتنا مضبوط کر دیا ہے کہ اب وہ کسی سے بھی نفرت نہیں
کرتی ہیں اور ان کا اللہ پر یقین بہت مضبوط ہو گیا ہے اور اپنے مستقبل
کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پلاننگ کرنا چھوڑ دیا ہے اور اب
ان کا مکمل یقین اللہ کی ذات پر ہے جو کہ سب سے بڑا پلانر ہے- |