تحریر کردہ: دعا وقار احمد صدیقی
آج کی نوجوان نسل کسی بھی ملک و قوم کا ایک بڑا اثاثہ ہے قوم کی بہتر
کارکردگی کے لیے نوجوان نسل کا سہارا لیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ معاشرے کی
نوجوان نسل قوم کی ترقی اور بہتری کے لیے اپنا کردار بخوبی ادا کر سکتی ہے۔
لیکن ہمارے نوجوانوں نے اپنی ایک الگ دنیا بسا رکھی ہے یہ وہ دنیا ہے جس کو
مختلف کرداروں کی اداکاری اور موسیقی سے سجایا گیا ہے۔ یہ ٹک ٹاک کی دنیا
ہے جس نے بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنا عادی بنالیا ہے۔ سوشل میڈیا کی رپورٹ
کے مطابق پانچ سو ملین افراد ٹک ٹاک یوزرز بن چکے ہیں۔ٹک ٹاک کی محفلیں شہر
شہر جم رہی ہیں اور یقین نہ کرنے والی بات تو یہ ہے کہ اج کی نوجوان نسل کو
تاریخ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اسلامی تعلیمات سے تو نوجوان نسل پےدرپے دور
ہیں۔نوجوانوں نے اپنا پسندیدہ مشغلہ ٹک ٹاک کی ویڈیوز دیکھنا ، بنانا اور
آپنا قیمتی وقت اس میں ضائع کر لینا بنا لیا ہے۔
ٹک ٹاک آج کے دور کی ایک ایسی ایپ ہے جس نے شیئرز اور لائکس حاصل کرنے کی
دوڑ میں نوجوان نسل کو لگا رکھا ہے۔ ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے والے کا محض صرف
یہی مقصد ہوتا ہے کہ اس کو زیادہ سے زیادہ لائکس ملے اور اس کی ویڈیو زیادہ
سے زیادہ شیئر کی جائے۔ چاہے اب اس دوڑ میں لڑکا لڑکی کو جتنی الٹی سیدھی
حرکتوں کے جوہر دکھانے پڑے ، وہ موسیقی کے نشے کو اپناتے ہوئے اپنی ویڈیو
تیار کرنے میں لگا رہتا ہے۔ تین سے چار منٹ کی ویڈیو یا چار سے چھ منٹ کی
ویڈیو کو ہمارے نوجوان اداکاری کرکے اور موسیقی کے رقص سے بھر کے تیار کرتے
ہیں اور اس کو تفریحی پیغام بناکر آگے وائرل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ البتہ
ہماری نوجوان نسل اس بات سے لاتعلقی اور بے علمی اختیار کر لینا چاہتی ہے
کہ یہ ویڈیوز بے حیائی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ جن ویڈیوز میں لڑکا لڑکی
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پیار محبت اور اظہارِ دل لگی کررہے ہیں وہ محض بےحیائ
کو دعوت دینے اور اس کو عام کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ٹک ٹاک کی مجموعی طور
پر بے شمار ویڈیوز ایسی ہیں جس میں مسلم معاشرے کی لڑکیاں بے تحاشہ بناؤ
سنگھار کرکے مختلف عنوانات پہ ویڈیوز بناتی ہیں۔شاید وہ قرآن مجید کی اس
آیت سے انجان ہے۔
"ارشاد باری تعالی ھے کہ اپنے گھروں میں قرار کی ساتھ رہو غیر مردوں کو
بناؤ سنگھار دکھاتی نہ پھرو، جیسا کہ پہلے جاھلیت میں دکھایا جاتا تھا۔"
(سورت اخزاب )
ٹک ٹوک کی ویڈیوز نے بڑوں کا ادب و لحاظ ، بزرگوں کا احترام ختم کردیا
ہے۔اس بے لگام تفریح نے انتہا کی بے حسی کو جم دیا ہے۔ نوجوانوں کو پڑھائی
سے دلچسپی ہٹا کر ان ویڈیوز کے ذریعے پیسہ کمانے میں لگا دیا ہے۔ یوں
لگتاہے کہ سٹیج ڈراموں کی گھٹیا ترین جگتوں کو دوہرایا جارہا ہے۔ ٹک ٹاک
ایک ایسی ایپ ہے جس میں لائیو کی سہولت بھی موجود ہے لہذا رات بھر محفل
سجانے کے چکر میں رومانوی فحش گفتگو کا سہارا لیا جاتا ہے۔
(حدیث)۔ "میری امت کے کچھ لوگ شراب پیں گے مگر اس کا نام بدل کر ، ان کی
مجلسی راگ باجو اور گانے والی عورتوں سے گرم ھوگی ۔ اللہ انہیں زمین میں
دھنسا دے گا اور ان میں بعض کو بندر اورخنزیر بنا دے گا۔"(ابو داود،ابن
ماجہ ، مسند ابن حیان).
مسلم معاشرے میں رہنے والے نوجوانوں کو ٹک ٹاک اسٹارز کے بارے میں خوب
معلومات ہوتی ہے لیکن ہمارے صحابہ کرام ، علماء کرام کے بارے میں کوئی
معلومات اور ان کے بارے میں جاننے کی کوئ دلچسپی نہیں ہوتی۔حد تو یہ ہے کہ
عبادتوں کی ویڈیوز بھی اپلوڈ کی جاتی ہیں۔ ہر چیز سے انجان ہو کر مقصد صرف
یہ ہوتا ہے کہ ٹک ٹاک پہ ہیٹ ہو جائے اور جو لوگ ٹک ٹاک پہ ہٹ ہو جاتے ہیں
ان کے لیے بڑی بڑی کمپنیز ایک پروگرام منعقد کرتی ہیں پروگرام میں شرکت
کرنے کے لیے پہلے ٹکٹس بک کیے جاتے ہیں ۔رمضان کے بابرکت مہینے میں بہت سے
سرگرمیاں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نہیں کی جا رہی تھیں لیکن ایک نجی
چینل کی جانب سے ٹک ٹاک اسٹارز کے لیے ایک پروگرام رکھا گیا ۔ جس کو
انٹرٹینمنٹ کے طور پر نشر کیا گیا۔
ہماری نوجوان نسل میں ٹک ٹاک کی وجہ سے بگاڑ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ اس
وقتی انٹرٹینمنٹ میں اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں جو ان کے مستقبل کے لیے
ٹھیک نہیں ہے۔ ٹک ٹاک ویڈیوز نوجوان نسل انٹرٹینمنٹ کے طور پر بنا رہے ہیں
وہ ان کی دنیا و آخرت دونوں کو تباہ کر رہی ہیں۔ٹک ٹاک میں ہر دوسری ویڈیو
میں گانا لازمی لگا ہوتا ہے جب کہ اسلام میں گانا سننا حرام ہے۔موسیقی بد
روح کی غذا ھے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"موسیقی دل میں نفاق (منافقت) اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیت کو پیدا
کرتا ہے "۔
(السنن الکبری للبیہقی 21537)
"حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے
جو زنا اور شراب اور آلات موسیقی کو حلال قرار دیں گے۔"
(صحیح بخاری)
اگر نوجوان نسل کو اس کے استعمال سے روکا نہ گیا تو ہمارا معاشرہ ایک بہت
بڑے بگاڑ کی طرف بڑھتا چلا جائے گا جو ہمارے معاشرے کی ترقی کے لیے رکاوٹ
کا باعث بن سکتا ہے۔
|