بچ کے رہنا رے بابا

یہ کوئی چھ سال پرانی بات ہوگی جب ایک یورپین خاتون نے ہمیں فیس بک پر فرینڈ ریکوسٹ بھیجی،چونکہ اس زمانے میں فیک آئی ڈیز کا بڑا چرچا ہواکرتا تھا اس لئے کچھ روز تک ہمیں انہیں فیس بک پر اپنا دوست نہیں بنا سکے تاہم اس خاتون کی جانب سے بار بار اصرار پر آخر کار ہم نے انہیں اپنا فیس بک کا دوست بنا ہی لیا۔ابھی ہماری دوستی کو چند ہی روز گزرے تھے کہ ایک دن اس خاتون کی جانب سے میسج باکس میں ایک پیغام موصول ہوا کہ میں آپ سے کچھ باتیں شیئر کرنا چاہتی ہوں جس کے لئے آپ کو مجھے اپنے ای میل سے میل کرنا ہوگی،اس پیغام کے ساتھ مذکورہ خاتون نے اپنا ای میل ایڈریس بھی بھیجا تھا،ہم نے انسانیت اور دوست ہونے کے ناطے ان سے اپنے ای میل کے ذریعے رابطہ کیا۔یہاں ہمارا انہیں ای میل کرنا تھا کہ دوسری جانب سے اس خاتون نے اپنی لمبی چوٹی کہانی ہمیں ای میل کردی ۔کہانی کیا تھی ذرا ملاحظہ فرمائیں۔’’جی میرا نام ماریہ(فرضی نام)ہے،میں فلاں ملک سے تعلق رکھتی ہوں ،یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ ہمارے ملک میں ایک عرصہ سے خانہ جنگی ہے، جس کے نتیجے میں جہاں کئی ہزار لوگ اپنی جان سے گئے وہاں میرے گھر والے بھی اب اس دنیامیں نہیں رہے ۔میں نے آپ کی فیس بک پروفائل دیکھی اس لئے سوچا آپ کے ساتھ اپنی ذاتی باتیں شیئر کرلوں،ڈیئر میرا اس دنیامیں کوئی نہیں،میرے والدین میرے لئے کافی کچھ چھوڑ گئے ہیں جوکہ ایک بینک اکاؤنٹ میں پڑے ہیں آپ مہربانی کرکے اپنا بینک ڈیٹا مجھے بھیج دیں تاکہ میں وہ تمام رقم آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل کرسکوں جس کے بعدمیں آپ کے ملک آجا ؤں گی ،اور پھر ہم شادی کرلیں گے اس لئے آپ جلد سے جلد اپنی تفصیلات بھیج دیں۔شکریہ ۔۔‘‘مذکورہ ای میل خاتو ن کی جانب سے موصول ہونے اور پڑھنے کے بعد ہم سمجھ گئے کہ لالے کہانی میں لوچا ہے اس لئے کچھ روز تک ہم اس خاتون کو کوئی جواب نہ دے سکے۔یہاں ہماری خاموشی تھی تو دوسری طرف سے اس خاتون کے دھڑا دھڑ پیغامات ،صبح پیغام،شام کو پیغام۔۔ہم تو اس کے پیغاما ت سے اُکتا گئے تھے لیکن کرتے کیا ،ہم نے بھی خاموشی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اور چپ چاپ اس کے پیغامات دیکھ کر ڈیلیٹ کردیتے۔ہماری خاموشی کو دیکھتے ہوئے موصوفہ کے صبرکا پیمانہ لبریز ہونے لگا اور پھر پیغامات سے سلسلہ کال پر آشروع ہوا۔چونکہ ہم نے بھی بات نہ کرنے کی کچھ ایسی قسم کھارکھی تھی کہ مردہ بول اُٹھے مگرنہ بولیں۔خیر یہ سلسلہ بھی چند روز تک چلنے کے بعد تھم گیا۔اور ہماری اﷲ اﷲ کرکے اس نوسرباز خاتون سے جان چھوٹی۔احباب آپ لوگ بھی سوچ رہے ہونگے کہ اتنی لمبی چوٹی تمہید باندھنے کی بھلا آج کیوں ضرورت پیش آئی تو اس کی وجہ ایک واقعہ ہے جو مسلسل ہمارے ایک قریبی دوست کی بہن کے ساتھ دوسر ی مرتبہ پیش آیا۔ہوا کچھ یوں کہ چند ماہ قبل ہماری دوست کی بہن کاجو گلبہار میں رہائش پذیر ہیں کسی کام سے پشاورصدر جانا ہوا ،واپسی پر انہوں نے گھر تک ایک رکشہ کرائے پر لیا،ابھی رکشہ تھوڑی ہی دور چلتاہے کہ رکشہ ڈرائیورکو ایک کال آتی ہے،کا ل موصو ل ہوتے ہی اس کی ہچکی بندھ جاتی ہے،ہمارے دوست کی بہن یعنی ہماری باجی رکشہ ڈرائیور کی بندھی ہچکی کی وجہ جاننے کی کوشش کرتی ہیں پھر کیا رکشہ ڈرائیور زاروقطار رونے لگ جاتاہے،اور کہتا ہے کہ میری زوجہ جو گزشتہ ایک عرصہ سے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا تھیں کا آج ابھی انتقال ہوچکا ہے مگر میرے پاس جو پیسے تھے وہ سب کے سب اس کے علاج معالجے میں خرچ ہوگئے ،اب میں کیسے اس کی تدفین وغیرہ کرونگا،بڑے بزرگ کہہ گزرے ہیں کہ ایک عورت ہی گھریلو حالات سے بخوبی واقف ہوتی ہے اس لئے ہماری باجی نے جھٹ سے رکشہ ڈرائیور کو پانچ ہزار کا نوٹ ہاتھ میں یہ کہتے ہوئے تھما دیا کہ بھائی تسلی رکھیں اﷲ باقی خیر کرے آپ یہ پیسے لیں اور اپنی بیوی کی تدفین کریں۔باجی گھر پہنچی اور رکشہ والا اے جا وہ جا۔۔اس بات کو چند ماہ گزرے ہی تھے کہ باجی ایک بار پھر پشاور صدر جاتی ہیں جہاں انہیں واپسی پر ایک دوسرا رکشہ والا ٹھیک اسی طرح مگر اب کی بار والدہ کے انتقال کی خبر سے پیسے ہتھیانے کی ایک ناکام سی کوشش کرتا ہے مگر اب کی بار باجی سمجھ گئی تھیں کہ یہ تو نوسربازوں کا ٹولہ ہے جو ہر سادہ لوح خاتون سے ایسے ڈرامے رچا کر دو چار سو نہیں بلکہ چار پانچ ہزا ر ہتھیانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس لئے باجی نہیں اب کی بار اس رکشہ ڈرائیور کی کہانی پر کوئی دھیان نہیں دیا اور چپ چاپ اپنے گھر آکر اسے رخصت کیا،اس واقعے کی شام کو دوست نے فون کرکے سارا ماجرا سنایا کہ دو چار ماہ میں یہ دوسرا واقعہ ہے اس لئے ہم نے سوچا کیوں نا دوست احبا ب کو بھی ایسے نوسربازوں کی چالوں سے بچایا جائے اس لئے قلم اٹھایا اور لکھ ڈالا وہ سب کچھ جو ہتھکنڈے یہ لوگ استعمال کرتے ہیں۔تاکہ آئندہ کوبھی ان کی باتوں میں آکر انہیں ہزاروں روپے مفت میں دینے سے بازرہے۔کیا یار ہم اتنا گر چکے ہیں کہ اب اپنے پیاروں کو اﷲ تعالیٰ کا پیارا بنا کر عام عوام اور خصوصاً خواتین سے پیسے بٹورنے لگے ہیں۔ایسے ہتھکنڈے تو بچے سکول سے چھٹی لینے کے لئے استعمال کرتے ہیں کہ کل میری نانی دادی خالہ پھوپھی انتقال کرگئی تھیں مگر یہاں تو اپنے پیاروں کی وفات سے کمائی کا اچھا خاصا ذریعہ بننے لگا ہے۔من حیث القوم تو ہم قریباً دیگر بیماریوں اور برائیوں میں سر سے پاؤں تک مبتلا ہیں مگر اتنے بھی گر جائیں گے کہ اپنے پیاروں کے مرنے کا ڈھونگ رچا کر باقاعدہ کمائی کریں ۔اﷲ معاف کرے۔۔یہ تو اس خالق کائنات کی رحمانیت اور اس کے آخری نبی حضور پُرنور ﷺ کی دعا ؤں کا نتیجہ ہے ورنہ آئے روز جانوروں کی نئی نئی نسلیں ہم میں سے دیکھنے کوملتیں۔اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ویسی ہدایت دے جیسی ہدایت صحابہ کرام ؓ ،اولیائے کرامؒ کو عطا ہوئی تھی ۔آمین۔۔ وگرنہ ہمار ے اعمال تو اﷲ تعالیٰ کی رضا والے ہرگز ہرگز نہیں۔اس لئے آپ تمام احباب سے گزارش ہے کہ ایسے نوسربازوں سے بچ کے رہنا رے بابا۔

 

Waqar Ahmed
About the Author: Waqar Ahmed Read More Articles by Waqar Ahmed: 65 Articles with 46286 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.