فرد واحد کی کم ظرفی کو معاشرے پر لاگو کردینا ہمارا قومی
مشغلہ ہے بلا شبہ معاشرے میں کچھ ایسے کم ظرف موجودہیں جو عورت ذات کی حق
تلفی کرتے ہیں ، مگر اجتماعیت پر نظر دوڑائی جائے تو میرا مذہب ، میرا
معاشرہ ، میری ثقافت ، میرے اقدار میری تہذیب ، سب ہی نے مجھے عورت کی عزت
و اکرام کی ترغیب دی ہے ، میرا تعلق اس دھرتی سے ہے جہاں آج بھی خاندانوں
میں پھوپھو ، خالہ ، دادی بڑی بہن اور ایسے کئ رشتوں کا بہت پاس رکھا جاتا
ہے ، شاید کسی مرد رشتے سے بھی زیادہ، آج بھی اگر کسی گلی کے چوراہے پر
نوجوانوں کا ٹولہ تفریحی گفتگو میں مشغول ہو تو عورت ذات کی وہاں سے گزر پر
اپنی آوازیں نیچے کرلیتے ہیں ، میری تہذیب میں اتنی جان آج بھی باقی ہے کے
کوئی عورت بس میں کھڑی ہو تو حد درجہ کوشش کی جاتی ہے کے اسکو بیٹھنے کی
جگہ مل جائے ، آج بھی میرے تعلیمی اداروں میں اکثر معصوم لڑکیاں کلاس کی
مانیٹر کے عہدے پر فائز ہوکر لیڈ کرتی ہیں ، بینک کی کسی لائن میں آج بھی
نوجوان اپنی جگہ کسی خاتون کو دیدیتےہیں تاکے انکا کام پہلے ہوجاۓ ، عورت
مارچ کی دراصل ضرورت مغربی معاشرے کو ہے جہاں عورت کی گھر بازار ہر جگہ
تذلیل کی جاتی ہے ،ہاں کچھ خامیاں ہیں مگر دنیا ہے ہی خامیوں سے بھرپور جگہ,
قلیل لوگوں کے گھٹیا عمل کو کثیر لوگوں کی تربیت پر فوقیت دینا مناسب نہیں
، ہاں ہمارے معاشرے میں تفریحی عوامل کی بہت کمی ہے جس کی وجہ سے مجھے لگتا
ہے دل لگانے اور تفریح کے لئے یہ شور شرابے ہوتے رہتے ہیں ، یقین مانیے یہ
محض شور شرابے اور سستی تفریح کے سوا کچھ نہیں -ذرا نہیں پورا سوچیے
|