عورتوں کے حقوق کی جب بھی بات ہوتی ہے تو عورت کو ہمیشہ
سے ہی مظلوم تصور کیا جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ارتقا میں واقعی عورت
کومساوی حقوق نہیں دئیے گئے لیکن یہ زمانہ جہالت کی بات ہے۔ جب انسان میں
اتنا شعور نہیں تھا اس وقت عورت کو مساوی حقوق حاصل نہ تھے ،بلکہ عورت کو
حقیر جانا جاتا تھا لیکن اس غلط روایت اسلام نے ہمیشہ کیلئے دفن کرتے ہوئے
عورت کو معاشرہ میں وہ مقام دیا جو کہ کسی بھی معاشرہ کی عورت کو حاصل نہ
تھا ۔ اسلام نے ہر پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے عورت کو مرد کے برابر حقوق
دئیے اور مرد اور کو شریعت کی کی رسی میں باندھ دیا دونوں میں سے جو بھی اس
رسی کو توڑے گا اس کیلئے اسلام نے سزا مقرر کی ہے ۔لیکن آج دورِ حاضر کی
خواتین جن حقوق کی بات کرتی ہیں جس آزایدی کی بات کرتیں ہیں اس کا اسلام سے
دور دور تک کوئی تعلق نہیں ، یہ نعرہ مغرب سے بلند ہوا ہے اور مغرب نے جو
عورت کو ان حقوق سے نوازا ہے کہ حقوق کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی ہے آج کی
عورت کے حقوق دیکھ کر توبہت ہی حیرت ہوتی ہے کہ اگر ایک عورت ایسے حقوق
ایسی آزادی چاہتی ہے تو اس سے اچھی غلامی ہے۔ کیونکہ جن حقوق کی بات مغرب
نے کی ہے اس میں عورت کو تذلیل کیا جا رہا ہے جو کہ بہت زیادہ غلط ہے دُنیا
کا کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا جس کا اثر ہمارے معاشرے پر یہ ہوا
ہے کہ ایک عورت مرد کی عزت کرنا بھول گئی ہے ہر عورت مرد کو کسی خاطر میں
نہیں لاتی آج کی عورت بے لگام گھوڑے کی طرح ہے اس کا جو دل چاہتا ہے وہ
کرتی ہے ۔ماں باپ بہن بھائی سب اس کے کیلئے وہ کرادر ہیں جن کی کوئی خاص
اہمیت نہیں رہ گئی جس کی وجہ یہ ہے کہ آج عورت مغربی کلچر کو اپناتی جا رہی
ہیں جس کا اثرہوا کہ کچھ دن پہلے ایک وقعہ دیکھنے کو ملا جسے دیکھ کر بہت
ہی حیرت سی ہوئی ۔ہوا کچھ یوں کہ میں کہیں سے گزر رہا تھا تو کیا دیکھا کہ
ایک جگہ بہت سارا ہجوم جمع تھا آگے بڑھ کر کیا دیکھا کہ دو خواتین نے ایک
مرد کو گریبان سے پکڑا ہوا ہے اور ایک نوجوان ا ٓدمی کو گندی گندی ماں بہن
کی گالیاں دے رہا ہے جو کہ ان خواتین کا ہی کوئی رشتہ دار تھا ۔لوگوں سے
پوچھنے پر پتہ چلا کہ جس صاحب کا گریبان پکڑا ہے عورتوں نے یہ ان کے گھر
شکایت لے کر آئے کہ ان کے بیٹے کو ان کے بچوں نے مارا ہے ان کو سمجھائیں
لیکن یہ لوگ بچوں کو سمجھانے کے بجائے اس آدمی سے الجھنے لگ گئے جس پر یہ
غصہ میں آگیا کہ ایک تو میرے بچے کے ناک سے خون بہہ رہا ہے دوسرا آپ لوگ
مجھ سے ہی بحث رہے ہو کوئی مرد ہے تو بھیجو اس سے بات کی جائے ۔اس پر
عورتوں نے اس کو آکر گریبان سے پکڑلیا ہے اور چھوڑ نہیں رہی کافی لوگ
چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن وہ لوگ مزید اس آدمی پر بگڑ رہے تھے ۔ اتنی
دیر میں پولیس آگئی اور ان عورتوں نے رو رو کر ظلم کی داستان سنانا شروع
ہوگئی کہ یہ بندہ گھر میں گھس آیا ہے اور اس نے بہت گالیاں دی ہیں اور
ہماری عزت پر بھی ہاتھ ڈالا ہے جب اس بندے سے پوچھا تو اس نے بتانا کہ ان
کے بچے محلہ میں لڑائی کرتے ہیں ہر ایک سے مار پیٹ کرتے ہیں اسی طرح ان کے
بچوں نے اس کے بچے کے ساتھ کیا اس کے ناک سے خون بہہ رہا تھا میں شکایت لے
کر آیا لیکن ان لوگوں نے بجائے بچوں کو سمجھانے کے یہ ڈرامہ رچا دیا ۔لیکن
پولیس نے اس آدمی کی ایک نہیں سنی تھانے چلنے کو کہا جب اس نے تھوڑی مذمت
کی تو پھر یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ پولیس والوں نے کیا کیا اور اسے تھانے
لے گئے ۔محلے کی کچھ عورتیں باتیں کرنے لگی کہ یہ ایسا ہی کرتی ہیں ان
عورتوں میں شرم حیا ختم ہو گئی ہے محلے کا شریف آدمی ہے جس کی کبھی کوئی
شکایت نہیں آئی یہ سب میڈیا کے اثرات کی وجہ سے ہے ور عورت کی آزادی کا جو
نعرہ بلند ہو رہا ہے اس کی وجہ سے عورتیں بے لگام ہو گئی ہیں یہ تو ایک
واقعہ ہے پتہ نہیں کتنے ہی مرد ہوں گے جو اس طرح کی عورتوں کا شکار ہونگے ۔
ان سب واقعات کے باوجود عورتوں کو حقوق دلانے کہ ایسے ایسے قانون بن چکے
ہیں جس میں عورت جب چاہے جس مرد کو چاہیے جو مرضی الزام لگا دے ۔لیکن مرد
کے کیلئے کوئی ایسان قانون نہیں عورت کی شکایت کر سکے اگر عورتوں کی آزادی
کا یہی عالم رہا تو آنے والے وقتوں میں بادشاہی ایک عورت کی ہوگی وہ جب
مرضی جس کوبھی چاہیئے گی جو مرضی کر سکے گی ،جس کی مثال میرا جسم میری مرضی
اور بہت ساری باتیں ہیں جو کہ 2020میں ہونے والے عورت مارچ میں سامنے آئی ۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے ۔اس میں عورتوں کے اسلام کے مطابق ہی آزادی دی
جائے نہ کہ پاکستان میں ایک عورت کو مغربی سوچ کے مطابق آزادی دی جائے ہر
عورت کو علم حاصل کرنے کی آزادی سیاسی آزادی اقتصادی آزادی تو لازمی ہونی
چاہیئے ،لیکن اس طرح کی آزادی ہرگز نہیں ہونی چاہیئے کہ وہ اس کو دی گئی
آزادی سے ناجائز فائدہ اٹھائیں ۔پاکستان کا اپنا کلچر ہے اس خطہ کی عورت
میں شرم حیا مرد کا احترام پایا جاتا تھا لیکن مغرب کے فضول اور گھٹیا قسم
کے کھوکھلے نعروں نے پاکستانی عورت کی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے آج کی عورت
مرد کو نیچا دیکھا کر خوش ہوتی ہے ۔جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ کچھ لبرل خواتین
نے ہمارے پاکستانی معاشرہ کی عورتوں کی سوچ بدل کر رکھ دی ہے کہ ایک عورت
کو مرد کے مساو حقوق حاصل ہونے چاہیے ،لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ یہ حقوق
اسلام نے ان عوتوں کو چودہ سو سال پہلے ہی دے دیئے تھے ۔ عورت کو معاشرے
میں وہ مقام دیا جو اس سے پہلے ایک عورت کو حاصل نہ تھا ۔اسلام نے عورت مرد
دونوں کیلئے ایک حد مقرر کر دی کہ اس حد میں رہ کر عورت ہر وہ کام کر سکتی
ہے جس کی اسلام اجازت دیتا ہے لیکن مغرب کے کھوکھلے نعروں نے پاکستانی عورت
کا مقام و وقار اس قدر گرا دیا ہے کہ وہ اسلامی حدوں کر پار کر کے میرا جسم
میری مرضی جیسے نعرے لگا کر ااسلام کی طرف سے طے کردہ تمام حدوں کو پار کر
چکی ہیں،عورت اپنی آزادی کی جنگ ضرور لڑے لیکن اسلامی حدوں کو عبور نہ کرے
|