میں ہوٹل کے جس کمرے میں مقیم تھا اس کے بالکل سامنے ایک
دفتر تھا۔ جس کا دروازہ سارا دن کھلا ہوتا اور اس میں ایک درمیانہ عمر کی،
سنجیدہ اور باوقار سی عورت کچھ کام کر رہی ہوتی۔ ایک دوسرے کے پاس سے کزرتے
ہم سر کو ہلا کر ایک دوسرے سے علیک سلیک بھی کر لیتے کیونکہ ہم ایک دوسرے
کی زبان نہ جانتے تھے اور نہ سمجھتے تھے۔ اپنے کمرے کے پاس کھڑے ایک آ دھ
دفعہ مجھے یوں لگا جیسے کوئی کتا آہستہ سے بھونک رہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو وہ
عورت گزر رہی تھی۔ کتا کہیں نظر نہیں آیا۔ سمجھ نہیں آیا وہ عورت ایسی آواز
کیوں نکالے گی۔ ایک دن میرے کمرے کا دروازہ کھلا تھا ، ویسے ہی کتے کے
بھونکنے کی آواز آئی تو میں نے دیکھا ایک کتا جس کا سائز کبوتر سے کچھ
چھوٹا اور چڑیا سے قدرے بڑا تھا ۔ دروازے پر کھڑا بھونک رہا تھا۔ اتنے میں
وہ عورت بھاگتی ہوئی آئی ،کتا اٹھایا اور اسے اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال کر
واپس چلی گئی۔
مجھے یاد آیا کہ میں نے جو چند دفعہ کتے کے بھونکنے کی آواز سنی اور یہ
عورت تو نظر آئی مگر کتا نظر نہیں آیا تو وہ عورت اسے جیب میں ڈال کر لاتی
ہو گی، اسی لئے کتے کی آواز تو آتی تھی مگر وہ نظر نہیں آتا تھا۔ اس کتے کے
جسم پر اتنی فر تھی کہ اگر اس فر کو کاٹ لیا جاتا تو شاید وہ چڑیا سے بھی
چھوٹا نظر آتا۔ سفید رنگ کا وہ کتا اس قدر خوبصورت تھا کہ میں بہت دیر تک
قدرت کی صناعی کے بارے غور کرتا رہا۔میں نے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے سائز کے
کتے دیکھے ہیں مگر اس کتے کا سائز کمال چھوٹا تھا اور پھر وہ خوبصورت بھی
بہت تھا۔کتوں کی دنیا میں اتنی قسمیں ہیں کہ انہیں گن کر بتانا شاید ممکن
نہیں۔ لیکن موٹی موٹی سات نسلیں ہیں۔ان میں ایک نسل کھلونا کتوں کی ہے۔ یہ
چھوٹے سائز کے کتے ہوتے ہیں۔چین او ر مغربی ممالک میں لوگ انہیں کھلونوں کی
طرح رکھتے اور ان سے کھیلتے ہیں۔پاکستان میں چھوٹے کتے مجھے کبھی نظر نہیں
آئے لیکن چین میں آپ شام کے وقت کسی رہائشی علاقے کے پارک میں چلیں جائیں
سیر کرنے والے ہر مرد او عورت کے ساتھ ایک چھوٹا سا کتا ہو گا۔ کھلونا نما
کتا۔انسان سے زیادہ وفادار یہ کتا ان کی زندگی کا ایک لازمی جزو بن جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کتے سے پیار اس لئے کرتا ہے کہ اس کی وفاداری بلاشبہ ضرب
ا لمثل ہے۔ کتا پا لیں اور ا س کا خیال کریں، وہ کتا عمر بھر آپ کا وفادار
ٹھہرے گا، آپ کی حفاظت کے لئے جان لڑا دے گا۔آپ کتے کو تین دن کھانا ڈالیں
وہ آپ کو تین سال نہیں بھولے گا۔ مگرانسان بڑی عجیب چیز ہے آپ کسی انسان کو
تین سال کھانا کھلائیں، وہ آپ کو تین دن میں بھول جائے گا۔لیکن انسان اپنے
پالتو کتے کا خیال کرتا ہے کیونکہ اس کے بارے اسے وفاداری کا یقین ہوتا ہے۔
انسان اگر اس سے کام لیتا ہے تو اس کی ضروریات مد نظر رکھتا اور ایک جانور
کو جو کھانے پینے اور رہنے کے لئے درکار ہوتا ہے مہیا کرتا ہے ۔لیکن بڑی
متضاد بات یہ ہے کہ انسان اپنے وفادار ملازم یا جانثار غریب دوستوں کا خیال
نہیں رکھتا۔غریب اور مفلس کارکن جتنامرضی قربانیاں دے دیں وہ کسی گنتی میں
نہیں آتیں۔ خصوصاً ہمارے سیاسی کلچر میں وہ لوگ جنہیں رب العزت نواز دیتا
ہے انسانوں سے رویے بدل لیتے ہیں۔اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے ووٹرز سے
اوراپنے سیاسی غریب کارکنوں سے وفاداری تو بہت دور کی بات ، انہیں اپنا
ماضی بھی بھول جاتا ہے۔
تمام مہذب معاشروں میں غیر مشروط وفاداری کتوں کی خاصیت ہوتی ہے جب کہ وہاں
کے انسان باہمی مفادات کے تحت معاہدے کرتے ہیں۔سوچتا ہوں ہمارا سیاسی کلچر
کس قدر فرسودہ اور گھٹیا ہے کہ یہاں انسانوں سے اشرافیہ کا رویہ جانوروں سے
بھی بد تر ہے۔اس کلچر میں سیاسی ورکر کو اپنے مفاد کی بات کرنے کی اجازت ہی
نہیں اور اگر وہ ہمت کرکے کچھ بات کر لے تو اسے ٹرخانے کے علاوہ سیاستدانوں
کے پاس کوئی دوسرا علاج نہیں ہوتا۔ کوئی احتجاج کرے تواسے بعض اوقات عتاب
کا سامنا کرنا پڑتاہے۔حالات ایسے پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ سیاسی ورکر غیر
مشروط وفاداری پر مجبور ہوتا ہے صرف اس آس پر کہ شاید اس کے لیڈر کو کبھی
خیال یاشرم آجائے اور اس کے معاشی حالات بہتر ہو جائیں ۔ مگر آج تک الیکشن
کے بعد کسی سیاسی لیڈر کو اپنے سیاسی ورکرز کا خیال نہیں آیا۔ سیاسی ورکر
مفلس تھے ، مفلس ہیں اور حالات بتا رہے ہیں کہ مفلس ہی رہیں گے۔
سیاست نے البتہ ایک نیا طبقہ ضرور متعارف کرایا ہے ۔بونے اور کھلونا کتے
جیسے سائز کے چھوٹے لوگ جنہیں حوالے کی بیساکھیاں اپنے قد اونچا دکھانے کو
درکار ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کا معاشرے میں اپناکوئی خاص
مقام نہیں ہوتا۔جنہیں دولت اور شہرت کی حرص ہوتی ہے۔ انہیں تھوڑی بہت دولت
کسی طرح مل جاتی ہے اور اس میں مزید اضافے کے لئے یہ سیاست دانوں کے تلوے
چاٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ۔یہ فقط اقتدار کے وفادار ہوتے ہیں۔یہ صبح کو
گھر سے نکلتے اور اپنے جاننے والے کسی حکمران سیاسی لیڈرکے دروازے پر کھڑے
ہو جاتے ہیں۔لیڈر سارا دن جہاں جہاں جاتا ہے یہ اس سے چپکے رہتے ہیں۔ اس کے
کہنے پر اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ تصویر بنوا
کر لوگوں میں دوستی کا تاثر دیتے اور پھر اس تعلق کو بیچتے ہیں۔ کسی کو اس
لیڈر سے کوئی جائز یا ناجائز کام کروانا ہو، یہ رابطے کا کام کرتے اور سودے
بازی کر تے ہیں۔ لیڈر انہیں حقیقی وفادار جان کر کھلونے کی طرح کھیلتا ہے
مگر یہ اقتدار کے وفادار ہوتے ہیں کسی شخص کے نہیں۔ یہ طبقہ یہی کاروبار
کرتا اور سیاست دانوں کو ہر طرح سے کرپٹ کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
ہر وہ جگہ جہاں اہل اقتدار ہیں وہاں یہ موجود ہوتے ہیں۔اسلام آباد تو ان
لوگوں کا ہی شہر ہے۔ وہاں ہزاروں ایسے بونے لوگ ہیں جو بیساکھیوں کے ساتھ
بڑے قد آور نظر آتے ہیں۔ جن کا اس جوڑ توڑ کے علاوہ کوئی کاروبار نہیں۔ مگر
لمبی لمبی گاڑیوں میں موجود یہ لوگ جو شروع میں سیاستدانوں کے پالتو کھلونا
کتے کی طرح ہوتے ہیں، چند سودے کرانے کے بعد عوام میں اپنا تاثر جرمن شیفرڈ
جیسا دیتے ہیں ۔کوئی سیاستدان کتنا ایماندار ہو انہیں گمراہ کرنا آتا ہے۔
اس ارض پاک کے سب سے بڑے دشمن یہی لوگ ہیں۔ یہ اس ملک کا قاتل مافیہ ہے۔FBR
اور دوسرے ادارے کبھی ان کی طرف متوجہ ہوجائیں تو ملک کے تمام مسائل بہتر
ہو سکتے ہیں۔
|