دراصل کسی بھی تحریک ، انجمن اورادارے کے کاروبار
کا انحصار بظاہر مادی وسائل پر ہوتا ہے، چونکہ یہ دنیا دارالاسباب ہے ، اس
لیے یہاں سبب اختیار کرنا عین منشاء الٰہی ہے ، مدارس دینیہ جہاں پر
مہمانان رسول، طلبہ کرام دینی تعلیم وتربیت حاصل کرتے ہیں، وہاں پرخرچ ضرور
ہوتاہے ،طلبہ چاہے بیرونی ہوں یا مقامی، پہلے توتعمیرہی میں ایک خطیر رقم
خرچ ہوتی ہے،کیونکہ وہ مستقل ایک ضرورت ہے، تعمیر نہ بھی ہو، صرف پھونس کا
چھپرڈالا جائے، یا ٹین کا شیڈ ڈالاجائے، تب بھی خرچ ہے ، درخت کے نیچے بیٹھ
کر پڑھنے پڑھانے کا اب دور رہانہیں ہے ،دوسرا صرفہ اساتذہ وملازمین کی
تنخواہوں کے سلسلہ میں ہوتاہے ، اس میں بھی طلبہ کا بیرونی ہونا ضروری نہیں
ہے ، بلکہ جس قدر بھی طلبہ ہوں گے، ان کو پڑھانے کے لیے اساتذہ کی ضرورت
پڑے گی،اور اساتذہ کو یاجوپڑھنے پڑھانے سے دلچسپی رکھتے ہیں، ان کو اپنے
بچوں کے خرچ کے لیے تنخواہ کی اور پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے بالجملہ
مدارس کو چلانے کے لیے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، اس سے کسی کو انکار
نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مدارس دینیہ کے اخراجات کو اگر حساب میں لایا جاۓ تو
عقل دنگ رہ جاتی ہے۔طلبہ کا علاج معالجہ،قیام طعام،گیس،بجلی،پانی اور
یوٹیلٹی بلوں کا اگر حساب لگایا جاۓ تو ایک خطیررقم بنتی ہے۔بالخصوص بڑے
جامعات کے اخراجات تو بہت زیادہ ہیں۔جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری
ٹاٶن میں ماہانہ تقریباً ایک کروڑ سے زاٸد رقم طلبہ میں وظاٸف کی مد میں
تقسیم ہوتی ہے۔طلبہ کے کھانے پینے اور بلوں کا اندازہ کرنا تو حساب سے باہر
ہے۔
مدارس کا یہ مالیاتی نظام جب لبرل اور سیکولر طبقہ دیکھتا ہے تو برداشت
نہیں کر پاتا اور مدارس پر بے جااعتراضات کی بوچھاڑ کردیتا ہے۔ان تمام
تراعتراضات میں ایک اعتراض یہ ہیکہ کہ مدارس کے پاس اتنا مال کہاں سے آتا
ہے۔جبکہ حقیقت یہ ہیکہ کہ مدارس کا باقاعدہ کوٸ مستقل ذریعہ روزگار نہیں
ہوتا۔بلکہ مسلمان ان مدارس کے تمام تر اخراجات کواپنے تعاون سے پورا کرتے
ہیں۔ زکوة، صدقات،عشر،چرمہاۓ قربانی وغیرہ مدارس کا کل متاع ہوتا ہے۔اگرچہ
آۓ روز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دینی مدارس کے خلاف منفی پروپیگنڈے کرتا
ہے۔مدارس اور اہل مدارس کے کردار کو مجروح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔لیکن اس
سب کچھ کے باوجود اللہ کے ایسے بندے بھی ہیں جو اللہ کےدیے ہوۓ مال کو اس
کے راستے میں دل کھول کےخرچ کرتے ہیں۔کل ہی ایک ساتھی نے بتایا کہ آزاد
کشمیر کے ایک صاحب ہیں جو تقریباً 80 مدارس کے ساتھ مالی تعاون کرتے
ہیں۔مزے کی بات یہ کہ وہ کوٸ مولانا صاحب یا کسی مذہبی جماعت کے کارکن نہیں
بلکہ تحریک انصاف کے رکن ہیں۔یقیناً ان کا جذبہ قابل ستاٸش ہے۔جو تمام تر
منفی پروپیگنڈوں کے باوجود بلا خوف لومة لاٸم بحیثیت مسلمان اپنا فریضہ ادا
کررہے ہیں۔یقیناً وہ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ اسلام اور پاکستان کے
حقیقی محافظ یہی چٹاٸ پر بیٹھنے والے مدارس دینیہ کے طلبہ کرام ہیں۔یقیناً
اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو دنیا و آخرت میں سرخرو فرماتے ہیں۔
ان مخلصین سے حاصل ہونے والی رقم کو ارباب مدارس بھی یقیناً صحیح مصرف پہ
خرچ کرتے ہیں۔اس سے انکار نہیں کہ کچھ جگہیں ایسی بھی ہونگی جہاں بےاحتیاطی
ہوتی ہوگی۔لیکن مجموعی اعتبارسے اس معاملے میں بہت احتیاط برتی جاتی ہے۔ہم
نے بنوری ٹاٶن میں حضرت استاد محترم ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر صاحب کو اس قدر
محتاط دیکھا کہ اگر کوٸ رقم لے کر آتا ہے تو اس کو ہاتھ بھی نہیں لگاتےبلکہ
محاسب نگران کو بلاتے ہیں اور وہی وصول کرتے ہیں۔ تمام مدارس میں اسی انداز
میں مالیاتی نظام چل رہا ہے۔اور ان شاء اللہ اسی نظام کے تحت مدارس دینیہ
چلتے رہیں گے۔لبرلز کے تمام پروپیگنڈے ناکام ہونگے اور مدارس قیامت تک چلتے
رہیں۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
|