وہ پاکستانی جنھوں نے لاک ڈاؤن ماحول اور انسانیت کی خدمت کے نام کیا

image
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس سے لوگوں کو انفرادی و اجتماعی سطح پر بے حد نقصان پہنچا ہے لیکن بعض لوگوں کے لیے لاک ڈاؤن کچھ نیا کرنے کا موقع بن کر سامنے آیا ہے۔
 
ایسے افراد نے لاک ڈاؤن کے دوران اپنی روز مرّہ کی زندگی سے ایک وقفہ لیا اور اس وقفے کے دوران ان کی نظر اچانک ایسی چیزوں پر نظر پڑنے لگی جو عموماً پہلے نظر انداز ہو جایا کرتی تھیں۔
 
کسی نے اپنی گلی میں کوڑے کے ڈھیر صاف کر دیے تو کسی کی طرف سے ہسپتالوں اور گھروں میں مریضوں کے لیے کھانا پہنچانے کا کام شروع ہو گیا۔ شاید یہی کچھ مثالیں تھیں جنھوں نے انسانیت اور جذبہ ایثار کو باقی رکھا۔
 
لاک ڈاؤن کے دوران اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں سوچنے والوں نے ثابت کیا کہ کیسے ہر مصیبت میں ایک سبق چھپا ہوتا ہے۔
 
 
’نگہداشت ایسی ہی چیز ہے۔۔۔‘
طوبیٰ صدیقی لکھتی ہیں کہ لاہور میں ان کی والدہ نے لاک ڈاؤن کے چار مہینوں کے دوران اپنے گھر کے سامنے کوڑا کرکٹ پھینکنے کی جگہ کو بالکل بدل کر رکھ دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ ’ایسا ایک انتہائی محنتی مالی کی مدد سے ممکن ہوا۔‘
 
اور یہ تبدیلی دیکھ کر طوبیٰ کی دادی نے کہا ’نگہداشت ایسی ہی چیز ہے۔ چاہے درخت کی کریں، چاہے انسان کی۔‘
 
طوبیٰ کی ٹویٹ کے بعد ٹوئٹر صارفین نے لاک ڈاؤن کے دوران اپنی اسی نوعیت کی مصروفیات شیئر کرنا شروع کر دیں اور ایسے کاموں کے بارے میں بتایا جو انھوں نے وبا کے دوران اپنی اور دوسروں کی مدد کے لیے کیے۔
 
’یہ تمام درخت میں نے لگائے‘
 
 
راحیل جمیل نے بھی طوبیٰ کی پوسٹ کے نیچے اپنی مصروفیت کا ذکر کیا۔
 
وہ ایک سڑک کی تصویر شیئر کرتے ہوئے فخر سے بتاتے ہیں کہ ’اس سڑک پر تمام درخت میں نے لگائے ہیں۔‘
 
ہاں یہ ضروری نہیں کہ آپ بھی وہیں کریں جو دوسرے کر رہے ہیں۔ لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا بھی ایک عمدہ مثال بن سکتی ہے جس کے ذریعے روزگار کمانے میں ضرورت مند افراد کی مدد ہو سکتی ہے۔
 
 
سوشل میڈیا صارف ذوالفقار نے بتایا کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران مستحقین کو ریڑھی اور ٹھیلے بنا بنا کر دے رہے ہیں تاکہ یہ افراد اپنے کاروبار کے ذریعے آمدن کما سکیں۔
 
’ساری سبزی تقسیم کر دی‘
راشد رضوی نامی صارف نے نواب شاہ کے ظفر آرائیں کے بارے میں بتایا جو سبزی منڈی میں کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'انھوں نے اپنی ساری سبزی غریبوں میں مفت تقسیم کر دی۔‘
 
 
خرم ذاکر بتاتے ہیں کہ ’پنجاب پولیس کے اے ایس آئی ایم اے چوہان کو دوران ڈیوٹی یہ ماں جی لاہور مال روڈ پر ملیں۔ انھوں نے اپنا نام مریم بی بی بتایا اور اپنا پتہ اوکاڑہ کا بتایا، جس پر اس تھانیدار نے فیس بک پر ان ماں جی کے ورثا کی تلاش کے لیے پوسٹ لگائی۔
 
’لاک ڈاؤن کی وجہ سے ورثا کا لاہور آنا ممکن نہ تھا جس پر انھوں نے ان ماں جی کو بڑی ذمہ داری سے خود ان کے ورثا کے پاس اوکاڑہ پہنچایا۔‘
 
مفت ماسک
عالمی وبا کے دوران جہاں باقی طریقوں سے مدد کی جا رہی ہے وہاں اپنی اور دوسروں کی صحت کا خیال نہیں بھولنا چاہیے۔
 
اسی لیے عادل تنولی اپنی صلاحیت ماسک بنانے اور اسے مفت تقسیم کرنے کے لیے استعمال کرنے لگے۔
 
 
صحافی سبوخ سید لکھتے ہیں کہ ’مانسہرہ کے ایک نوجوان عادل تنولی پیشے کے لحاظ سے درزی ہیں۔ کورونا سے بچاؤ کے لیے ماسک تیار کر کے مانسہرہ کی عوام میں مفت تقسیم کر رہے ہیں۔‘
 
وہ کہتے ہیں کہ اس وقت حفاظتی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ’ایک طبقہ جہاں عوام کو لوٹ رہا ہے تو دوسری طرف یہ غریب نوجوان مفت میں ماسک بانٹ رہا ہے۔‘
 
image
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: