چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور گزرتے وقت کے
ساتھ ساتھ اہم عالمی و علاقائی امور میں چین کا اثر ورسوخ بھی بڑھتا جا رہا
ہے۔قابل زکر بات یہ ہے کہ چین نے ایک ترقی پزیر ملک کی حیثیت سے گزشتہ
چالیس برسوں کے دوران ترقی کی منازل تیزی سے طے کی ہیں۔اس سے قبل اقتصادی
سماجی ترقی جو صرف مغربی ممالک تک محدود ہو کر رہ گئی تھی اب چین اور ایشیا
کے دیگر ممالک کی دسترس میں بھی ہے۔
اگر موجودہ عالمگیر وبائی صورتحال کا ہی جائزہ لیا جائے تو چین نے کووڈ۔19
کو شکست دیتے ہوئے دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک پر بھی سبقت حاصل کی ہے،
بلکہ کئی اعتبار سے وبا کے خلاف جنگ میں ترقی یافتہ مغربی ممالک چین کے
محتاج نظر آتے ہیں۔ بہترین قیادت ،مضبوط اور بروقت فیصلہ سازی ، مالیات کی
دستیابی ،افرادی قوت میں خودکفالت ،تکنیکی جدت اور باشعور عوام یہ وہ کلیدی
عوامل رہے جس کے بل بوتے پر چین نے ایک قلیل مدت میں وبا پر موئثر قابو
پاتے ہوئے ملک میں اقتصادی سماجی سرگرمیاں بتدیج بحال کی ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس چینی قیادت آپ کو بیان بازی یا دعووں میں
کبھی الجھی نہیں دکھائی دے گی ناہی میڈیا میں انہیں اپنی تشہیر کی کوئی فکر
ہوتی ہے ،ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر ذمہ دار ادارے کے متعلقہ افراد جنہیں ہم"
ترجمان" کہتے ہیں وہ ہی میڈیا کو آگاہ کرتے ہیں۔قیادت کا کام صرف اپنے
عملی اقدامات سے عوام کی فلاح کو آگے بڑھانا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو چین
کے اعلیٰ فیصلہ ساز میڈیا ٹاک شوز میں نظر نہیں آئیں گے اور ناہی اُن کے
زاتی بیانات روزانہ اخبارات کی شہ سرخیاں بنتے ہیں۔میڈیا میں صرف اُن کاکام
نظر آتا ہے کہ اجلاس کے دوران کن عملی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے یا پھر
حکومت کی جانب سے کیا پالیسی سامنے آئی ہے وغیرہ۔
ٹھوس عملی اقدامات کی ہی اگر بات کی جائے تو چینی قیادت کی جانب سے یہ ہدف
طے کیا گیا تھا کہ سال 2020 ملک سے غربت کے مکمل خاتمے اور ایک معتدل
خوشحال معاشرے کے قیام کا سال ہو گا لیکن جوں ہی یہ سال شروع ہوا پوری دنیا
کو وبا نے آن گھیرا اور چین تو وہ پہلا ملک تھا جو وسیع پیمانے پر وبا سے
متاثر ہوا تھا۔ اس صورتحال میں دنیا یہ توقع کر رہی تھی کہ چین اپنی پالیسی
میں تبدیلی لائے گا اور ذمینی حقائق بھی ایسے ہیں کہ غربت کے خاتمے کا ہدف
شائد ناممکن ہو گا لیکن چینی قیادت نے واضح کر دیا کہ انسداد غربت کے مشن
کو ہر حال میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے گا اور سال 2020 ہی ملک سے غربت
کے مکمل خاتمے کا سال ہو گا۔اب چونکہ چین میں اعلیٰ قیادت جب کوئی فیصلہ کر
لے تو باقی مقامی حکومتوں اور بنیادی نچلی سطح پر کام کرنے والے اہلکاروں
کا اولین مقصد ہدف کی تکمیل بن جاتا ہے چاہے دن رات ہی کیوں نہ ایک کرنا
پڑے اور انکار ،کام چوری یا فرائض سے غفلت برتنے کی تو گنجائش ہی نہیں ہے۔
غربت کے خاتمے کا زکر آیا ہے تو ہمیں کچھ حقائق سے آگاہی درکار ہو گی۔اس
بات کو پوری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ چین نے سن 1978 میں اصلاحات اور کھلے پن
کی شروعات کے بعد سے انسداد غربت میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں اور
حیرت انگیز طور پر اب تک 80 کروڑ سے زائد لوگوں کو سطح غربت سے نکالا گیا
ہے جبکہ مجموعی طور پر ملک کی 95 فیصد آبادی غربت سے نجات پا چکی ہے۔چینی
قیادت نے انسداد غربت میں دیہی آبادی کو فوقیت دی اور دیہی باشندے وہ
اولین شہری قرار پائے جنہوں نے ملک میں اقتصادی اصلاحات سے فائدہ
اٹھایا۔کسانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی کہ وہ اپنی زرعی پیداوار بڑھائیں ،
فصلوں اور زرعی مصنوعات کی قیمت خرید میں اضافہ کیا گیا اور جدید مشینری کی
فراہمی سے زرعی شعبے میں انقلاب لایا گیا۔
غربت سے دوچار علاقوں میں بنیادی انفراسڑکچر کو جدید خطوط پر استوار کیا
گیا ۔ چین کی غربت کے خلاف جنگ میں ایک نعرہ انتہائی مقبول ہوا کہ "اگر آپ
دولتمند بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے سڑکیں تعمیر کریں "۔ اسی منصوبہ بندی
کے تحت ملک بھر میں شاہراہوں کا ایک جال بچھایا گیا اور پسماندہ علاقوں کو
ترقی یافتہ شہروں سے جوڑ دیا گیا ۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ گاوں
دیہات کی سطح پر ہر گھر کی سٹرک تک رسائی ممکن ہو گئی۔ دیہی سیاحت کا فروغ
بھی چین میں غربت کے خاتمے کا اہم نکتہ رہا۔دیہی علاقوں میں تعمیر و ترقی
سے انہیں سیاحتی مقامات میں تبدیل کیا گیا ، مقامی لوگوں کو روزگار کے
مواقع میسر آئے۔اس طرح تقریباً ایک کروڑ دیہی باشندوں نے غربت سے نجات
حاصل کی اور خوشحالی کا سفر شروع کیا۔
چین کی دور اندیش قیادت نے غربت کے خاتمے کے سفر میں تعلیم ،صحت اور خوراک
کی فراہمی کو بھی نمایاں ترجیح دی۔تعلیمی شعبے میں اصلاحات کی گئیں ، صحت
عامہ کے شعبے کو بہتر کیا گیا تاکہ تعلیم یافتہ اور صحت مند معاشرے کی
بنیاد پر آگے بڑھا جاسکے۔ان کوششوں کے ثمرات انتہائی حوصلہ افزا رہے اور
1982 میں 65فیصد شرح خواندگی والا ملک آج 97فیصد شرح خواندگی کا حامل ملک
بن چکا ہے جبکہ صحت کے شعبے میں چین کی 100 فیصد آبادی یعنی سارے عوام کو
طبی انشورنس کی سہولت حاصل ہے۔اس وقت چین انسداد غربت کی ایک اور اہم
تخلیقی سرگرمی ای کامرس کو دیہی علاقوں میں فروغ دے رہا ہے۔جدید انفارمیشن
و ٹیلی مواصلات ٹیکنالوجی کی بدولت دیہی باشندے مختلف اشیاء بشمول زرعی
مصنوعات آن لائن فروخت کر رہے ہیں اور انہیں چینی حکومت کی بھرپور حمایت
حاصل ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق ماسوائے چین دیگر ترقی پزیر ممالک میں انسداد غربت کی
شرح انتہائی سست روی کا شکار ہے جبکہ آبادی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا
ہے۔پاکستان سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک چین کے تجربات سے سیکھتے ہوئے غربت
کے خاتمے کا ہدف بخوبی پورا کر سکتے ہیں بشرطیکہ اعلیٰ قیادت نیک نیتی اور
مخلصانہ طور پر فرنٹ لائن پر آکر عملی اقدامات کرے اور صرف بیان بازی یا
میڈیا پر تشہیر کی حد تک ہی محدود نہ رہے۔۔
|