چی گویرا کو جب فوج نے گرفتار کیا تو سب جانتے تھے کہ اس
کی مخبری ایک بھیڑ چرانے والے نے کی تھی۔ کسی نے اس چرواہے سے پوچھا کہ تو
نے اس کی مخبری کیوں کی حالانکہ وہ تمہارے حق کیلئے لڑ رہا تھا۔تو چرواہے
نے جواب دیا کہ باغیوں کی گولیوں کی وجہ سے میری بھیڑیں ڈر جاتی تھیں۔ اس
قوم کی بے حسی کی حالت تو اپنی جگہ جو صرف اپنے تھوڑے سے فائدے کی وجہ ایسے
شخص کی قربانی دے سکتی ہے جو ان کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہو ، جھنگ کی عوام
بے حسی میں اس سے بھی دو قدم آگے ہے۔موجودہ حالات میں جھنگ کے نوجوانوں
سمیت ہر طبقے کیلئے جد و جہد لازمی ہو چکی ہے۔ اور کیوں نہ ہو! ہم کس
سیاستدان پر یقین کریں! ان کے ہاتھ ہمارے حال اور ماضی کے خون سے رنگے ہوئے
ہیں۔ جس قوم کو بنیادی وسائل میسر ہوں اس کی ترقی، خوشحالی اور استحکام
یقینی ہو جاتے ہیں۔اور جھنگ صرف اسی وجہ سے پسماندہ ہے کہ اس پر مسلط ہونے
والے سیاستدانوں نے نہ تو کبھی عوام کیلئے بنیادی وسائل مہیا کرنے میں
کردار ادا کیا بلکہ ترقی میں رکاوٹ بن کر کھڑے رہے۔ جھنگ میں اس وقت سب سے
بڑا ایشو جھنگ یونیورسٹی کا قیام ہے۔جس طرح جھنگ کے سیاسی حلقوں کی جانب سے
جھنگ یونیورسٹی کے قیام کو متنازعہ بنا دیا گیا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا
ہے کہ یہ سارا وڈیرہ طبقہ کبھی بھی جھنگ کے مستقبل کو باشعور دیکھنا نہیں
چاہتا۔پراپیگنڈوں اور سازشوں کی صورتحال کو گھمبیر ہوتے دیکھا تو وی سی
جھنگ یونیورسٹی شاہد منیر نے ملاقات کی دعوت دی۔اس ملاقات میں جھنگ ڈویژن
بناؤ تحریک کے اہم عہدیدار وں شیر بہادر نول، عمران خان ، فکس اٹ جھنگ سے
عمران علی اور ایم پی اے مولانا معاویہ اعظم کے سیکرٹری برائے تعلیم رانا
کاشف و دیگر بھیشریک ہوئے۔ وہاں بغیر کسی سوال کے ہی وائس چانسلر نے ان
تمام سوالات کے جوابات دینے شروع کئے جنہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی
حلقوں میں ہنگامہ بپا کیا ہوا تھا۔لیکن میں اس سے پہلے کی روداد قارئین کو
مختصر سی پیش کرتا چلوں تاکہ حقائق تک پہنچنے میں آسانی ہو۔ جھنگ یونیورسٹی
کیلئے 2015 میں شہری حلقے سے ن لیگی ایم پی اے راشدہ شیخ یعقوب نے کاوشیں
کیں اور اس کے بعد ان کی طرف سے بہت سے بیانات جاری ہوئے۔ جن میں سے سب سے
پہلا بیان یہ تھا کہ جھنگ میں یونیورسٹی کے قیام کیلئے منظوری لے لی گئی ہے!
اس کے بعد 2016 میں یکے بعد دیگرے بیانات جاری ہوئے کہ جھنگ یونیورسٹی
کیلئے چار ارب روپے کا بجٹ مختص کروا لیا گیا ہے جس کی پہلی قسط ایک ارب
روپے مل گئی ہے۔ گوجرہ روڑ پر سرکاری اراضی میں 2286 کنال رقبہ یونیورسٹی
کے نام منتقل ہو چکا ہے۔رقبہ کی منتقلی کی تصدیق جون 2018 میں وزیر اعلیٰ
شہباز شریف نے اپنے ایک اخباری بیان میں کی تھی! لیکن اس وقت ایم پی اے
راشدہ شیخ یعقوب نا اہل ہو چکی تھیں اور ان کی جگہ مسرور نواز جھنگوی ایم
پی اے منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت تک جھنگ یونیورسٹی کا منصوبہ کھٹائی کا شکار
ہو چکا تھا! اس کی اہم وجوہات میں سے پہلی تو یہ تھی کہ ایم این اے اور ایم
پی اے اس منصوبے پر اپنا حق جتا رہے تھے اور تختی کیلئے لڑ رہے تھے! سیاسی
سطح کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی ان کی کوئی اپوزیشن نہ تھی۔ لیکن 2018
میں ہی جھنگ ڈویژن بناؤ تحریک کے نوجوانوں نے یونیورسٹی کے قیام کیلئے شہر
کے وسط میں دھرنا دیا! یہ دھرنا بارہ گھنٹے سے زائد چلتا رہا! ۔ اس کے بعد
مذاکرات ہوئے اور جلد ازجلد جھنگ یونیورسٹی کے قیام اور کلاسز کے اجراء
کیلئے یقین دہانی کروائی گئی۔ حکومتی سطح پر شاہد منیر صاحب کو وائس چانسلر
تعینات کیا گیا اور سنڈیکیٹ کمیٹی بنائی گئی۔ جولائی 2018 کے انتخابات میں
موجودہ حکومت کے منتخب ہونے کے بعد غزالی ڈگری کالج جھنگ کے ایک بلاک میں
پانچ پروگرامز بی بی اے، بی ایڈ ، بی ایس سوشیالوجی، بی ایس ریاضی اور بی
ایس انگلش لٹریچر کی کلاسز کاآغاز کیا گیا۔ اس سارے عمل میں وائس چانسلر
شاہد منیر اور ایم پی اے معاویہ اعظم بے حد متحرک نظر آئے۔ اب ہم وہ باتیں
آپ کے سامنے لاتے ہیں جو ہمیں ملاقات کے دوران وی سی صاحب نے بتائیں۔سب سے
پہلے انہوں نے یونیورسٹی کی تعمیر کے بارے میں کہا کہ نئے سرے سے تعمیر
کیلئے ہم نے ورکس اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ذمہ یونیورسٹی کی تعمیر کیلئے
سفارشات کیں اور یونیورسٹی میں عملے کی تعیناتی کس طرح سے ہو اس بارے میں
سنڈیکیٹ میٹنگ میں فیصلے کئے گئے۔ سنڈیکیٹ کمیٹی کے قیام سے یہ بات طے ہو
گئی کہ یونیورسٹی پر کسی کی اجارہ داری قائم نہیں ہو سکتی اور سیاسی مداخلت
سے بچ سکتی ہے۔ لیکن بجٹ نہ ہونے کی وجہ سے نقشوں کے پاس ہونے اور اراضی
یونیورسٹی کے نام ہونے کے باوجود تعمیر کا آغاز نہیں ہو سکا۔ اسی اثناء میں
پنجاب حکومت نے ایک قانون پاس کیا کہ جس کسی ضلع میں بھی یونیورسٹی کے
کیمپس موجود ہوں انہیں اسی ضلع کی یونیورسٹی میں ضم کر دیا جائے۔ اس بارے
میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا مؤقف ہے کہ دور سے کسی بھی کیمپس کے مسائل اور
وسائل کو دیکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس قانون کے مطابق جھنگ میں موجود یو وی
اے ایس کیمپس اور لاہور کالج فار وومن کیمپس کا الحاق ازخود یونیورسٹی آف
جھنگ کے ساتھ ہوچکا ہے۔ وی سی شاہد منیر کے مطابق اس الحاق سے جھنگ کی
بیٹیوں کی جداگانہ تعلیمی حیثیت بالکل ختم نہیں ہوگی، وہ بالکل ماضی کی طرح
علیحدہ تعلیم حاصل کرتی رہیں گی۔صرف ایڈمنسٹریشن یونیورسٹی آف جھنگ کی
ہوگی۔یونیورسٹی آف جھنگ کی کلاسز کا آغاز دو بجے کے بعد ہوگا! اور فیسیں
وہی مارننگ کلاسز والی رکھی جائیں گی۔یہ استعمال تب تک ہوگا جب تک
یونیورسٹی کی اپنی بلڈنگ نہیں بن جاتی۔وومن یونیورسٹی کو کیمپس کی ڈگری
ملنے کی بجائے باقاعدہ یونیورسٹی کی ڈگری ملے گی۔اس کا سب سے بڑا فائدہ
جھنگ کے بچوں کو ہو گا کہ جہاں پہلے پانچ پروگرامز جاری ہیں وہاں سولہ
پروگرامز کی کلاسز کا اجراء ہو سکے گا۔ جو سرگرمیاں کیمپسز میں نہیں ہو
سکتیں یونیورسٹی میں ہو سکیں گی ، اسطرح جھنگ یونیورسٹی کی طرف بین
الصوبائی توجہ باآسانی حاصل ہوسکے گی۔اس کے علاوہ جتنی زمین ایک یونیورسٹی
کیلئے چاہئے ہوتی ہے وہ بنی بنائی عمارتوں کی صورت میں چنیوٹ روڈ پر جی سی
ٹی کالج، وومن کالج اور ویٹرنری یونیورسٹی کیمپس کی صورت میں موجود ہے جبکہ
اس کے درمیان اور سامنے دانش سکول کیلئے جو مختص کی گئی تھی وہاں پر بھی
یونیورسٹی کے مزید کالجز بنا کر زیادہ سے زیادہ پروگرامز کیلئے منصوبے شروع
کئے جا سکیں گے۔ جبکہ نئی بلڈنگ بنانے کیلئے نہ تو حکومت کے پاس بجٹ ہے اور
نہ ہی تعمیر کا آغازاتنی جلدی ہو سکتا ہے۔اگر ہم وائس چانسلر کی ان باتوں
کو زیر غور لائیں تو جھنگ کے بچوں کے مستقبل کیلئے گوجرہ روڈ کی نسبت چنیوٹ
روڈ پر جھنگ یونیورسٹی کے قیام کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ لیکن اسے متنازعہ
بنانے کیلئے کچھ ایسے سیاسی لوگ پراپیگنڈہ کر رہے ہیں جن کا نہ تو کوئی ووٹ
بنک ہے اور نہ ہی جھنگ کی تعمیر و ترقی میں کوئی حصہ۔ لیکن یہاں سوال وائس
چانسلر کے اس اقدام پر بھی اٹھتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی رہائش گاہوں پر جا
کر انہیں منانے کی کوشش کر رہے ہیں! یہ عمل ان کے مؤقف کو مضبوط کر رہا
ہے۔اس وقت جھنگ کی تمام منتخب سیاسی قیادت، کیمپس کی انتظامیہ جس میں
یونیورسٹی منتقل ہوگی اور جھنگ کی عوام حکومتی فیصلے پر راضی ہے!عوا م کو
چاہئے چی گویرا کے چرواہے بننے کی بجائے باشعور بنیں! تاکہ ہمارے بچے پڑھ
سکیں، ہمارا مستقبل روشن ہو سکے۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے!
اس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے
قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف
|