صحرا کے بیچ میں 30 اونٹوں کے ساتھ سخت ترین زندگی گزارنے کا فیصلہ اس جرمن خاتون نے کیوں کیا؟ وجہ ایسی کہ جان کر سب حیران رہ جائيں

image
 
دنیا میں ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس ایک بہترین روزگار ہو رہنے کے لیے آرام دہ گھر اور اردگرد ہم زبان اور ہم قوم پیار کرنے والے لوگ ہوں- ایسے ماحول میں زندگی جنت بن جاتی ہے اور ایسی زندگی کا خواب ہر کوئی دیکھتا ہے- مگر اس دنیا میں کچھ ایسے سر پھرے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایک مختلف زںدگی کا خواب دیکھتے ہیں وہ اپنی مرضی سے سانس لینا چاہتے ہیں اور معاشرتی حدود و قیود سے آزادی چاہتے ہیں- ایسے ہی کچھ لوگوں میں جرمنی سے تعلق رکھنے والی اشچی بھی ہیں جن کو کیمل کوئن یا اونٹوں کی ملکہ کہلایا جانا پسند ہے-
 
بیس سال قبل تک اشچی کی زںدگی بھی عام انسانوں کی طرح تھی جو صبح سے شام تک ایک دفتر میں نوکری کرتی تھی نوکری کے بعد اس کا ایک آرام دہ گھر تھا جہاں وہ رہتی تھی- اس کے ارد گرد اس کے جاننے والے اور اس سے پیار کرنے والے لوگ تھے مگر یہ سب اشچی کے سکون کے لیے ناکافی تھا- وہ ایسی زںدگی کی خواہش مند نہ تھیں وہ دنیا کے لوگوں سے ہٹ کر جینا چاہتی تھیں ایسی زںدگی جینا چاہتی تھیں جو ان کو حقیقی خوشی دے سکے -
 
اس وقت انہوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا انہوں نے اپنے ٹریول ایجنٹ سے کہا کہ انہیں کسی ایسے ملک جانا ہے جہاں چمکتا سورج ہو ، بہت سارے اونٹ ہوں اور کوئی جرمن نہ ہو ۔ ٹریول ایجنٹ کے مطابق دنیا بھر میں ان تمام خصوصیات کا حامل علاقہ دبئی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا- اس لیے ٹریول ایجنٹ نے اشچی کے دبئی کے سفر کا انتظام کیا-
 
image
 
اشچی کو یہ جگہ اتنی پسند آئی کہ انہوں نے اپنی باقی زںدگی یہیں گزارنے کا فیصلہ کر لیا اپنی جمع پونجی سے انہوں نے صحرا کے بیچ ایک زمین کا ٹکڑا لے لیا اور وہاں پر اونٹ پالنے شروع کر دیے-
 
اشچی نے اپنی مدد کے لیے وہیں کے لوگوں کو ملازم بھی رکھ لیا اب اشچی تن تنہا صحرا کے بیچ ایک گھر بنا کر رہتی ہے اس کی گزر بسر اونٹوں کو پال کر ہوتی ہے- اشچی کے پاس ایک دو نہیں بلکہ پورے 30 اونٹ ہیں جو ان سے بہت پیار کرتے ہیں اور اشچی بھی ان کے ساتھ بہت خوش رہتی ہیں-
 
اشچی کا یہ کہنا ہے کہ ان کو یہاں رہتے ہوئے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے یہی ان کا خاندان ہے انہوں نے شادی بھی نہیں کی ہے وہ اپنی مرضی کی زںدگی گزارتی ہے- صحرا کے بیچ میں اپنی گاڑی دوڑاتی ہیں اور فطرت کے مطابق زندگی گزارتی ہیں-
 
image
 
اشچی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ امارات کے اس صحرا میں بہت خوش ہیں انہوں نے عربی بھی سیکھ لی ہے مگر اس کے باوجود وہ اندر سے ایک جرمن ہی ہیں اور اپنے ملازمین کے لیے ایک بہت سخت اور ڈسپلن باس ہیں- وہ گزر بسر کے لیے کھیتی باڑی کرتی ہیں اپنی صحت کے حوالے سے اشچی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ آلودگی سے پاک اس فضا میں دنیا کے بہت سارے لوگوں سے زیادہ خوش اور صحت مند ہیں جہاں پر مقابلے کی فضا نہیں ہے اور اندرونی خوشی اور سکون ہے-
 
اشچی کی زندگی ان تمام لوگوں کے لیے ایک مثال ہے جو خوشی کو صرف اور صرف پیسے اور اونچے رتبے کا نام سمجھتے ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: