دل تتلی بن اُڑا - قسط_12

سارہ:ہاتھ میں فائل پکڑے گھر داخل ہوئی تو رابعہ (اسکی ماں) نے فورا سے اسے ٹوک دیا"سرخاب سے مل آئی؟
سارہ چل کر اسکے پاس آئی ہاں اممی مل آئی"
رابعہ نے اٹھ کر اسکے ہاتھ سے فائل چھینی"اب جھوٹ بھی بولنے لگی ہو؟
سارہ"کیا مطلب اممی کیسا جھوٹ؟ فائل واپس لینا چاہی مگر رابعہ نے واپس نہیں کی اور فائل کھولتے ہوئے" تم 3 بجے وہاں سے چلی گئی تھی" سارہ" وہ اممی میں" جب اس نے خلع نامہ دیکھا تو بلک اٹھی "سارہ یہ کیا" اسکا کان پکڑ لیا۔ سارہ پہلے تو کچھ سوچنے لگی پھر اممی وہ ایک لڑکی ہے اسکا شوہر اسے بہت مارتا پیٹتا ہے۔ بس اسکی مدد کے لیے یہ بنوانے گئی تھی۔ رابعہ کو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی یاد آئی تو رونے لگی۔ فائل اسے دیتے ہوئے اسکا ماتھا چومنے لگی۔ مجھے فخر ہے اپنی بیٹی پر جو دوسری عورت کے حق کے لیے کھڑی ہے۔وہ کبھی کسی کو اپنا حق ضبط نہیں کرنے دے گی۔ سارہ نے فائل سینے سے لگائی ہاں اممی،کبھی نہیں۔
____
رضیہ ہاسٹل آتے ہی چھپ چھپ کر کمرے میں چلی گئی۔ الماری سے کپڑے نکال کر ادھر ادھر پھینکنے لگی۔ اتنے میں دارو آئی کھانا رکھا۔ واپس جانے لگی تھی کہ رضیہ نے پیچھے سے آکر بازو اسکے گلے میں ڈال لیے۔ دارو "چھوڑو مجھے"رضیہ :دارو سوری غلطی ہوگئ اپنے دونوں کان پکڑ کر اسکے سامنے کھڑی ہوگئی۔ دارو غلطی کی معافی ہوتی ہے جو تم نے کیا اسکی نہیں۔ رضیہ نے آنکھیں بند کیں دارو تمہیں لگتا ہے تمہاری رجی ایسی ہے۔ دارو "چپ رہی"
رضیہ "ٹھیک ہے جیسا بھی نیلا،پیلا،ہرا،لال ملتا ہے میری شادی کروا دو۔ دارو اسکی طرف دیکھ کر چونکی۔۔۔کیا کہا؟
ہاں تو جب تمہیں مجھ پے اعتبار نہیں اپنے ساتھ کیوں رکھا ہوا۔ دارو نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا اور رونے لگی رضیہ اسے گلے ملی اور ہنسنے لگی "دارو میری دوست کی مہندی ہے"
دارو "اچھا تم ضرور جاو"
رضیہ "میری جینز نہیں مل رہی"
دارو "اسے گھورنے لگی"
رضیہ " کیا ہے دارو "
دارو "اچھا دیتی ہوں "وہ چلی گئی۔ رضیہ جلدی سے بریانی کھانے لگی اور باقی دوبارہ پلیٹ میں پھیلا دی۔
اپنا بیگ پیک نکالا اس میں کشن اور ایک ٹارچ رکھی۔ بیڈ کے نیچے دھکیل دیا۔ پانی پینے لگی۔ دارو آئی اسے پینٹ دیتے ہوئے یہ یورپی پوشاک مجھے بلکل ناپسند ہے۔
رضیہ "جانتی ہوں آج آخری بار"
دارو:کب جانا ہے ؟ رضیہ:9 بجے کے بعد۔

_____
شاداب ڈیرے پر آتے ہی فضلو۔۔۔۔ فضلو
فضلو:جی سر
شاداب:اکبر خان آرہا ہے اسکے آنے سے پہلے اندر والوں کو کلب بھیج دو۔ کہنا پارٹی ہے۔
فضلو: جی سر__!
فضلو چلایا ڈرائیورز گاڑیاں نکالو۔ سب جلدی آو بھائی نے دعوت دی ہے۔ سب لوگ اٹھ کر باہر بھاگے____شبیر جاکر چھپ گیا۔
جب سب چلے گئے تو کچھ دیر بعد گاڑی کی آواز آئی۔
شاداب اٹھ کر کھڑا ہوا اور ٹہلنے لگا۔ فضلو سر آپکو کبھی اتنا پریشان نہیں دیکھا۔ شاداب: فضلو جو خواب پچیس سال پہلے دیکھا تھا اسکی تعبیر ملنے والی ہے۔
اکبر خان کی گاڑی اندر داخل ہوئی۔ شاداب بیٹھ گیا ہاتھ ملتے ہوئے____وہ نیا لڑکا شبیر وہ کہاں؟ وہ نہیں گیا کیا؟ فضلو"پہلے خوف زدہ ہوا پھر کیا سر سب چلے گئے"
شبیر دروازے سے پیچھے ہٹ گیا۔ فضلو"کمرے میں گیا تو شبیر بستر پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر تم کیوں نہیں گئے۔ شبیر"میں سویا ہوا تھا" فضلو نے چھری نکالی اسکی گردن پر دھر لی اگر سر کو بھنک بھی پڑ گئی تو دونوں مریں گے۔
شبیر"مسکراتے ہوئے تمہیں مجھے بتانا چاہے تھا۔۔۔آو معافی مانگ لیتے شاداب سے۔ فضلو اسکا بازو کھینچتے ہوئے فضلو:معافی نہیں یہاں صرف سزا ملتی ہے۔ اتنے میں اکبر خان گاڑی سے اتر کر آیا شاداب گلے ملا_____ ہماری خوش قسمتی کہ آپ نے ہمیں یاد کیا۔ فضلو کچن میں چلا گیا۔ شبیر دروازے سے رینگتے ہوئے باہر نکلا اور انکے قریب ایک درخت کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔
شاداب"مجھے مدد چاہیے۔
اکبرخان مونچھوں کو تاو دیتے ہوئے"حکم جناب!
شبیر "اکبرخان او نو"
شاداب"سلیمان کے بعد میں کسی پر اعتبار نہیں کر سکتا۔۔۔۔مگر آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ مخلصی کا مظاہرہ کیا ہے۔
خان:بندہ ناچیز حاضر ہے۔
شاداب"کل دونوں کیس تو جیت ہی جاوں مگر اسے بھی جیتنا ہے جس کیلئے کیسوں تک نوبت آئی۔
فضلو نے چائے رکھی تو اسے دیکھتے ہوئے اکبر بولا" ہمارے علاوہ کون ہے یہاں؟
فضلو کی زبان لڑکھڑائی" کوئی نہیں جناب" شبیر جھک کر دوسری طرف ہوگیا۔ اکبر نے پستول نکال کر پیچھے درخت پر دو تین گولیاں چلا دیں۔ شاداب" آرام سے بیٹھیں خان صاحب یہاں کوئی نہیں۔ ٹریننگ ہی ایسی ہے ہماری۔ شاداب نے اسے حیرت سے دیکھا۔اکبر مسکراتے ہوئے میں تو محظ نشانہ چیک کر رہا تھا۔ شاداب نہ چاہتے ہوئے بھی ہنسنے لگا۔فضلو کا منہ خشک ہوگیا۔
شبیر پیچھے ہوتے ہوئے دوبارہ کمرے میں چلا گیا۔ زور سے دیوار میں ہاتھ مارا" او نو میں نے اتنی بڑی بیوقوفی کیسے کر دی۔ اتنے میں فضلو آیا تم یہاں ہی تھے نا؟
شبیر تم دیکھ سکتے ہو! فضلو "ہاں"
____
اکبرخان: میں چلتا ہوں"
شاداب نے اسے ایک پرچی دی"
اکبرخان"گڑیا نہیں ملی مگر آپکو پیاسا نہیں چھوڑ سکتا۔
شاداب"وہ زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی___جلد یا بادیر رپورٹ کے لیے جائے گی۔ میری ایس پی سے بات ہوگئی ہے۔ہمیں اسے ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے۔ دیکھو شاداب اسامہ کی اسسٹنٹ بری بلکل بھی نہیں ہے۔ شاداب نشست چھوڑتے ہوئے" آپ کی پسند کا کیا کہنا "مگر یاد رکھئیے گا جناب۔۔۔۔کچھ بھی کرلو کتے کی دم سیدھی نہین ہوتی۔
جناب ہم ٹھہرے شیروں کے شکاری۔۔۔۔اکبر نے ہاتھ ماتھے کو لگایا اور چلا گیا۔
شبیر اکیلا کمرے میں بیٹھا تھا۔۔۔۔۔کیس جیتنے کا اتنا یقین۔۔۔۔اور کیا جیتنا چاہتا ہے۔ "یہ رجیکے پیچھے پڑ گیا! ہاتھ پر ہاتھ مارا۔۔۔۔ جب رضیہ کا ہاتھ پکڑ اٹھایا تو وہ شبیر کے کندھے کو تھام کر چلنے لگی۔۔۔ وہ منظر سبیر کی نظروں میں گھومنے لگا۔ کچھ دیر بعد حواس واپس آئے تو۔۔۔۔میں کیون اسکے بارے سوچ رہا ہوں۔ میٹرس پر لیٹ گیا۔ نہیں ایسا کیسے ہو سکتا۔ ٹائم دیکھا "8 بج گئے۔ مجھے زمرد کا ساتھ دینا ہوگا یہ نہ ہو کوئی گڑبڑ ہوجائے۔ وہ جھٹکے سے اٹھا جب دروازہ کھولنا چاہا تو باہر سے لاک تھا" او شٹ!
_____
سویرا" ڈیوٹی کے بعد واپس آرہی تھی۔ اچانک کسی نے اسے آواز دی۔
وہ رکی "قاسم ٹم"
قاسم" اسے آگے بڑھا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے۔آج چائے پئے بغیر نہیں جاون گا۔
سویرا"اپنی ڑاہ لو میڑے پیچھے مٹ آنا"
قاسم"گلاسیز شرٹ کے تیسرے بٹن میں اٹکاتے ہوئے" میں بلایا گیا ہوں تو بنا چائے کے نہیں جاون گا" سویرا" تیز تیز چلتے ہوئے" ٹنزیلہ کی بچی!
جب اپارٹمنٹ تک پہنچی تو سامنے ٹیپو اور تنزیلہ کھڑے تھے۔
تنزیلہ:ویلکم قاسم بھائی۔ ٹیپو آگے بڑھ کر اس سے لپٹ گیا"انکل آپ کا بہت سارا تھینکس!
قاسم" اندر جا کر بیٹھ گیا۔ تنزیلہ اور ٹیپو سے گپ شپ کرنے لگا۔ سویرا چائے لائی تو ٹیپواور تنزیلہ اندر چلے گئے۔ سویرا چائے رکھتے ہوئے" آپ چائے پی کڑ چلے جائیں۔ وہ چائے پکڑا کر جانے لگی تو قاسم نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔ سویرا اسے گھوری تو فورا سے کپ رکھا اسکا ہاتھ چھوڑتے ہوئے" سویرا آپ کو پہلی بار دیکھا تو اسکے بعد کچھ اور دیکھنے کی حسرت نہیں رہی" سویرا نے چہرہ پھیر لیا۔ مجھے نہیں پتہ کے کسی لڑکی کو پرپوز کیسے کرتے ہیں مگر میرا دل کہتا ہے "آپ میرے لیے بنی ہیں" سویرا" اسے دیکھ کر دوبارہ آنکھیں پھیر لیں " قاسم صاحب" یہ آپکی سوچ ہے میڑی نہیں"
اندر بھاگ گئی۔۔۔۔قاسم مسکراتے ہوئے۔۔۔آپکی بھی ایسی ہی ہوگی۔۔۔!
سویرا بیڈ کی ٹیک پکڑ کر مسکرانے لگی۔۔۔۔۔ تنزیلہ: ارے واہ دوسری ملاقات میں ہی۔۔۔۔عشق انتہا کو پہنچ گیا۔سویرا شرماتے ہوئے" ٹنزیلہ ایسا کچھ نہین۔۔۔تنزیلہ" ایسا ہی ہے اگر نہین ہے تو میری دعا ہے ایسا ہو جائے۔ سویرا اٹھ کر شیشے کے سامنے چلی گئی اج ایسا محسوس ہو ڑہا ہے گویا کہ دل میں دبی خواہش کو کسی نے لفظ دے دیے ہوں۔
تنزیلہ"ہائے میری بہن تو گئی کام سے۔
______
زمرد کمرے میں آیا تو اپنا پرس باہر پڑا پایا دیکھا آئی ڈی کارڈ بیڈ پر پڑا تھا ۔ اس نے کارڈ اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا تو کھڑکی کا پردہ ہل رہا تھا۔ وہ بھاگ کر گیا کھڑکی کھلی پائی مگر کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے پردے کے پاس آکر سانس کھینچی۔۔۔۔کھڑا ہو کر سوچنے لگا۔یہ پرفیوم، یہ تو میں نے خریدہ مگر کس کے لیے۔ بٹوا واپس رکھا دراز سے جابی نکالی اور جیب میں ڈال لی۔ کمرے کا دروازہ بند کیا کمبل اٹھا کر کھڑکی سے نکل گیا۔
------
رجی اپنی بائیسائیکل پر وہیں پہنچی۔"افف اتنا اندھیرا کیسے ڈھونڈوں ٹارچ آن کی اور اسکے ہیڈ پر انگلیاں رکھ لیں۔ روشی دھیمی پڑ گئی انگلیوں کے درمیان شہد سی روشنی نظر آنے لگی۔کچھ تگ و دو کے بعد ڈھونڈ لیا "ہاں یہی ہے___ مل گیا" ایک قریبی جھاڑی زور زور سے ہلنے لگی۔ رضیہ ایک لمحے کو خوف زدہ ہوگئی۔ دوقدم پیچھے ہٹی اسکے ہاتھوں سے ٹارچ گر گئی اور گرتے ہی بند ہوگئی۔ رضیہ کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔ زمیں پر بیٹھ کر ٹارچ ٹٹولنے لگے۔۔۔۔ہاں مل گئی جونہی آن کی دائیں جانب سے خوبصورت بھوری بلی اسکے سامنے سے گزر کر بائین جانب کود گئ۔ لمبی سانس بھری۔۔۔۔۔افف پیاری مانو!!
پھر آگے بڑھ کر بوتل پکڑی ڈھکن کھولا بیچوں بیچ بھاگنے لگی تقریبا باہر پہنچ کر دھاگہ ٹہنی سے باندھا۔ ڈھکن بوتل پر لگایا اور بیگ میں رکھ لی۔ اپنی سائیکل کو اچھے سے چیک کیا پھر دھاگے کو آگ لگا دی جو گولی کی رفتار سے بڑھنے لگی رضیہ نے مقررہ پلان کے مطابق سائیکل مین روڈ پر کھڑی کی اور صدیق کے اسکول کی طرف نکل پڑی۔ جھاڑیوں سے پٹاخون کی آوازیں سن کر دونوں گارڈ اس طرف متوجہ ہوگئے۔ وہ آگے بڑھتے تو ٹھا کی آواز آتی ذرا رکتے کچھ دیر بعد پھر ایسے ہی ہوتا۔ایک بولا " لگتا ہے کوئی بچہ ہے آو دیکھتے ہیں۔رضیہ نے موقع پاتے ہی اپنے بیگ سے کشن نکالنا اور شیشے کی کرچیون سے بھری دیورا پر رکھ کر دیورا پھلانگی۔ بیگ سے نقشہ نکالا ٹارچ سے روشنی کرتے ہوئے " میں اسوقت یہاں ہوں اور یہ رہا آفس تک کا رستہ۔
_____
زمرد جب گلی میں آیا تو اس نے ادھر ادھر دیکھا کرسی خالی۔۔۔۔چلو راستہ صاف ہے کمبل دیوار پر رکھا دیوار پھلانگی جلدی سے آفس کی طرف بھاگا۔ مگر وہاں ٹارچ کی روشنی دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ رضیہ نے لوہے کی میخ سے جو آگے سے مڑی ہوئی تھی۔ کچھ تگ و دو کے بعد دروازہ کھول لیا۔ زمرد اسے دیکھتا رہا پھر اس کے پیچھے پیچھے اندر گیا۔ داخل ہوتے ہی رضیہ نے اس پر حملہ کر دیا۔ مگر وہ بیٹھ گیا۔ رضیہ"تم___میرا پیچھا کر رہے تھے؟
زمرد" تم یہاں کیوں آئی ہو؟
رضیہ"تمہیں کیوں بتاوں۔۔۔۔ویسے بھی تمہاری طرح کم از کم چوری کرنے نہیں آئی" زمرد فائل کیبنٹ کی طرف بڑھا تو رضیہ نے اسکی گردن میں دوپٹہ ڈال لیا۔
زمرد"دیکھو ہمیں اپنا کام کرنا چاہے"
رضیہ:کس نے بھیجا تمہیں دوپٹے کو بل دینے لگی۔
زمرد نے دونوں ہاتھ کھڑے کر دیے"بتاتا ہوں"
رضیہ دوپٹہ ڈھیلا کرتے ہوئے " مارشل آرٹ ایکسپرٹ ہوں کوئی چلاکی نہیں چلے گئی"
زمرد نے جھک کر اپنے سر سے اسے ہٹ کیا اور اسکے بازو پیچھے کو اینٹھتے ہوئے۔ استاد ہوں مارشل آرٹ کا۔۔۔۔۔تم لڑکی ہو اسلیئے پہلے وار کو غلطی سمجھ کر جانے دیا۔ دھکا دے کر مٹی سے اٹے میز پر بٹھا دیا۔ گردن پکڑ کر دبائی کیا کرنے آئی ہو رضیہ کھانسی اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ ڈھیلا کرتے ہوئے "بتاتی ہو" زمرد نے جونہی گرفت کمزور کی رضیہ نے اپنا گھٹنا فولڈ کر کے اسے ہٹ کرنا چاہا۔ مگر زمرد دوسری طرف ہوگیا اسکی گردن پھر بھی نہ چھوڑی" بولو یہاں کیوں آئی ہو"رضیہ کو اپنی بے بسی کا اندازہ ہوگیا تو بولی" دیکھو ہمیں بیٹھ کر بات کرنی چاہے"
زمرد"میں کیوں تم پر اعتبار کروں"
رضیہ "میں صدیق کی لائف پر سٹوری لکھ رہی ہوں"زمرد نے اسکا گلا چھوڑ دیا پوچھا"کیوں؟
رضیہ اپنا گلا ملتے ہوئے" صدیق بہت اچھا انسان تھا معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتا تھا۔ تعلیم عام کرنا چاہتا تھا، غریبوں کی بھلائی اسکی زندگی کا مقصد تھا۔مگر اسکے قتل کا الزام اسکے بیسٹ فرینڈ پر لگا۔نا یقین کرنے والی حقیقت انکی دشمنی کی وجہ روپیہ پیسہ ایسی کوئی چیز نہیں تھی۔ مگر پھر بھی آج تک وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ رضیہ کو لگا کہ وہ زمردکو قائل کر چکی ہے اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔ زمرد ماتھے پر ہاتھ ملتے ہوئے"مجھے اسٹوری مت سناو!
رضیہ " تم اسوقت صدیق کے آفس میں ہو" زمرد"تم یہاں کیوں آئی ہو؟ اس پر چیخا۔ رضیہ ڈر گئی"وحشی ہوتم! میں صدیق کی پوری زندگی کا احاطہ کر چکی ہوں مگر شاداب اور صدیق صاحب کی دشمنی کی اصل وجہ ڈھونڈنے اسکے آفس تک آئی ہوں۔ زمرد"ڈھونڈو جو چاہیے مگر یاد رہے مجھے دکھائے بغیر یہاں سے سوئی بھی نہیں اٹھانی"
رضیہ خوف سے پیچھے ہٹی" سمجھ گئی! زمرد پیچھے ہٹا اور فائلیں ٹٹولنے لگا۔ رضیہ "وحشی" منہ میں بڑبڑائی،دراز کی طرف ہاتھ کرتے ہوئے بولی" پیسے ادھر ہوتے ہیں" زمرد نے اسکی طرف دیکھا" اچھا مشورہ ہے شکریہ!
رضیہ کافی دیر ادھر ادھر ڈھونڈنے کے بعد اپنے گرد و پیش پر نظر ڈالی۔اسکی نظر چور الماری پر پڑی بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے زمرد کی طرف دیکھا جو فائلوں کو ٹٹولنے میں مگن تھا۔ رضیہ نے الماری کے پاس جا کر بیگ سے میخ نکالی اور لاک کھولنے لگی۔ زمرد نے اپنی جیب سے چابی نکالی اور اسکی طرف دیکھ کر مسکرایا" رضیہ کی ایک نظر زمرد پر تھی جونہی لاک کھلا اس نے اچھے سے تسلی کرنے کے بعد الماری کھولی اور ٹٹولنےلگی۔ ایک نیلے رنگ کی ڈائری ملی۔ فورا سے آدھ کھلی الماری سے اندر آنے والی روشنی میں کرتے ہوئے پڑھنے لگی" مجھے نکاح کے بعد پتہ چلا شاداب روبینہ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔کاش! وہ مجھے پہلے بتا دیتا کاش! کاش میری بیوی میری عزت۔۔۔۔ اپنی بیوی کو بہت چاہتا ہوں _____
زمرد اسے دیکھ رہا تھا جلدی سے اسکی طرف بڑھا تو ہاتھ میں موجود فائل سے ڈاکومنٹ گرگئے۔رضیہ نے فورا سے ڈائری بند کی اور اپنی جینز میں چھپا لی شرٹ ٹھیک کرتے ہوئے پیچھے ہٹی۔اتنے میں زمرد نے الماری پوری کھول دی کچھ ملا؟ رضیہ پسینے سے شرابور تھی ماتھا صاف کرتے ہوئے"نہیں " زمرد اسے گھورتے ہوئے"مجھے جھوٹ سخت ناپسند ہے" رضیہ دو قدم پیچھے ہٹی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے "اپنے خالی ہاتھ اسے دیکھائے" زمرد الماری کو ٹٹولنے لگا۔رضیہ نے سینے پر ہاتھ رکھا لمبی سانس بھری۔ پیچھے ہٹتے ہوئے وہ ایک ٹیبل سے ٹکرا گئی۔ اس پر میوزک پلئیر پڑا تھا۔پھونک ماری اور اسکے اوپر لگےمختلف بٹن دبانے لگی جب لال بٹن دبایا تو میوزک آن ہوگیا۔ " عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ ، تجھے یاد کیا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
"اقبال" بند کر کے چلتے ہوئے کافی باذوق انسان تھے مرحوم صدیق صاحب" زمرد"الحمداللہ"
رضیہ دروازے سے نکلنے لگی تھی۔ مڑ کر حیرانی اسے دیکھا زمرد:ایک کاغذ کو فولڈ کرتے ہوئے تم بھاگ رہی ہو؟ رضیہ" میں____ نہیں تو" لڑکی ہوں بہت دیر ہوگئی ہے"
زمرد"کوئی ہوشیاری نہیں چلے گی" رضیہ "کیا مطلب؟ زمرد "الماری سے تم نے کچھ اٹھایا ہے۔کیا بتانا پسند کریں گی؟
رضیہ"بدحواسی میں "تم بہت شکی ہو!
زمرد:ایک کتاب کی جگہ کے علاوہ تمام جگہ گرد موجود ہے۔ اوپر سے تمہارا خالی ہاتھ لوٹنا میرے شبے کو تقویت دے رہے۔
رضیہ:او تو یہ بات ہے؟ بیوقوف میں نے پوری الماری ادھر سے ادھر تک پلٹ دی ہے۔
زمرد"نہیں اس پورشن میں صرف ایک_____اتنے میں پولیس موبائل کا الرٹ ہارن بجنے لگا او نو۔
زمرد نے لائٹ آف کردی اور دروازہ کھولا باہر تارے چمک رہے تھے۔ رضیہ اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ لگتا ہے کسی نے ہمیں اندر آتے ہوئے دیکھ لیا۔ رضیہ اور زمرد جھک جھک کر چلنے لگے۔ دیوار کے پاس جا کر زمرد جھکا میرے کندھوں پر کھڑی ہوکر باہر کا جائزہ لو۔ رضیہ پہلے تو سوچنے لگی پھر اسکی پشت پر چڑھی تو ایک پولیس والے کی نظر اس پر پڑ گئی۔ پکارا"کون ہوتم؟ رضیہ بوکھلاہٹ میں نیچے کود گئی۔ مجھے اس نے دیکھ لیا" زمرد "افف! بلڈنگ کے پیچھے کی طرف بھاگا چلو جلدی وہ اسکے پیچھے پیچھے بھاگنے لگی____ابھی بلڈنگ کے پیچھے پہنچے ہی تھے کے گیٹ کھلنے کی آواز آئی۔زمرد نے اپنی جیب سے کچھ نکال کر دیکھا اور دیوار پر چڑھ گیا۔ آو رجی! رضیہ اوپر چڑھ کر تمہیں میرا نام کیسے پتہ؟ زمرد"آہستہ آہستہ ٹونی ٹونی___رضیہ کی طرف دیکھا تم وہی ہو جو میرے پاس اپنی رپورٹ بھول گئی تھی۔
____
اسلم کتے کو زہر دے دیا تھا۔ اسلم"جی استاد کب کا مر چکا" چھوٹے دیوار کود دروازہ کھول۔
____
رضیہ"مطلب وہ مجھے مل جائے گی"
زمرد"ہاں___ضرور وہ تمہاری محنت ہے"
"یہ کیسا کتا ہے جو اٹھ نہیں رہا۔ رضیہ"یہ بہت مکار ہوتے ہیں اپنے دشمن کو چکما دے کر حملہ کرتے ہیں۔ زمرد نیچے کودنے ہی والا تھا کہ کوئی سامنے سے دیوار پر چڑھا اور نیچے چھلانگ لگا دی۔ زمرد یہ دیکھ کر "او نو! ادھر ادھر دیکھا پھر "کودنا مت ورنہ ماریں جائیں گے" رضیہ" تم انہیں جانتے ہو؟ زمرد دیوار پر ہاتھوں سے لٹکتے ہوئے۔ آو بتاتا ہوں۔ رضیہ لٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے ہاتھوں کی گرفت کھو بیٹھی زمرد نے ایک ہاتھ سے اسے سنبھالا "سنبھل کر"اس نے زمرد کے کندھے کا سہارا لیا اور دیوار پر ہاتھ جما لیے۔زمرد ہاتھوں کے بل دیوار پر لٹکتے ہوئے شاخوں کی طرف بڑھنے لگا۔ درخت دیوار سے دور تھا مگر اسکی باریک پتوں سے بھری شاخیں دیوار کو چھو رہی تھیں ۔ رضیہ "میں نہیں کر پا رہی۔ زمرد"ہمت کرو ہوجائے"رضیہ ڈرتے ڈرتے آگے بڑھنے لگی ابھی شاخوں تک پہنچی ہی تھی کہ ایک لڑکا دیوار پر چڑھ بیٹھا۔ وہ وہیں رک گئی۔ایک اور چڑھ گیا۔۔۔۔تیسرا بولا تیل تو پکڑو! "لاو مجھے دو" اسلم"آجا چھوٹے تو بھی آجا۔ ایک نے اتر کر تیل پکڑا باقی بھی اندر کود گئے۔ "بھاگنا ادھر سے ہی ہے ہم سب بکھر کر جائیں گے۔سمجھ گئے نا۔ چلو چلو___!
زمرد اوپر چڑھا "اللہ کا شکر ہے" رضیہ"میں نہیں کر پاوں گئ____واپس کودنے لگی تھی کہ زمرد نے اسکاہاتھ تھام کر دیوار پر چڑھا لیا تو____مسکرانے لگی "تمہارا شکریہ! تم نے اپنے دوستوں کو دھوکہ دیا ہے؟
زمرد"نے شش ۔۔۔۔ہونٹوں پر انگلی رکھی "خاموش! اپنے ہاتھوں سے دستانے اتارتے ہوئے مسکرانے لگا" ہمیں نکلنا ہوگا" وہ دونوں وہاں سے نکلے باہر پولیس موبائلز کے ہارن بج رہے تھے۔ کچھ دور پہنچے تھے کہ دو پولیس والے رکو کون ہو تم لوگ۔ رضیہ بھاگتے ہوئے" بھاگو" رضیہ"تم پیدل ہو کیا ؟ زمرد "نہیں۔مگر گاڑی کافی دور ہے۔ رضیہ" چلو میں تمہیں لفٹ دیتی ہوں۔ موڑ مڑتے ہی بائیسائیکل پکڑی بیٹھو۔ زمرد بیٹھتے ہوئے "تمہاری بیوقوفی کی وجہ سے وہ ہمارا پیچھا کرنے لگے" رضیہ " اگر آج پھر ایک لڑکے کے ساتھ ہونے کا ثبوت دارو تک پہنچ گیا تو رجی کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ وہ دیکھو سامنے ناکا ہے "افف میں کیسے جاوں گی" زمرد"کوئی اور رستہ نہیں ہے کیا؟ رضیہ "دوسری طرف بھی پولیس ہے" زمرد"سڑک کی طرف لے جاو"رضیہ "مجبوری ہے۔ سڑک پر پہنچ کر لگتا ہے برا پھنس گئی۔
زمرد جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ رضیہ نے بائیسائیکل ایک دکان کے سامنے کھڑی کی اور جا کر" ہیلو اگر مالک آگیا تو برے پھنسو گے۔ زمرد نے گیٹ کھولا بولا"آو اب میں لفٹ دیتا ہوں" مطلب تمہاری گاڑی ؟ بیٹھنے کے علاوہ رضیہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔
زمرد گاڑی چلاتے ہوئے بتاو کہاں جانا ہے؟ رضیہ :نہیں انہیں پتہ چل جائے گا۔ زمرد: اگر ہم واپس گئے تو انہیں یقین ہوجائے گا۔ اس نے شرٹ اتار کر سیٹ کے نیچے پھینک دی نیچے ایک اور شرٹ پہن رکھی تھی۔ رضیہ "ویری گڈ! مگر میرے بال___دیکھا جائے گا۔ سکارف لیتے ہوئے۔ اب۔۔۔۔ چوتھی گلی میں لے جانا۔ ہوسٹل کی بلڈنگ کے سامنے رکنا۔ زمرد نے گاڑی روکی تو رضیہ نے اتر کر " نام نہیں بتاو گے؟ زمرد نے اسے دیکھا پھر سامنے نظر ڈالی۔رضیہ گیٹ میں جھک کر اسے دیکھ رہی تھی۔اپنا وزیٹنگ کارڈ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے۔ اللہ حافظ! رضیہ" ہاں یہ مجھے پتہ تھا۔۔۔۔۔اسے دیکھ کر مسکرائی اور آنکھیں بند کر کے کھولیں۔ تھینکس مسٹر علی!
_____
ایس ایچ او تین لوگوں کو مارتے ہوئے پولیس موبائل میں بیٹھا رہا تھا کہ ایس پی کی گاڑی آگئی۔اترا سب لوگ سیلوٹ کرنے لگے۔ اپنی چھڑی ان پر تانتے ہوئے "یہ کون ؟ ایس ایچ او" اسکول کی بلڈنگ میں گھسے ہوئے تھے۔لگتا ہے کسی خاص مشن پر آئے ہیں انکے پاس تقریبا 5 لیٹر تیل ہے۔ اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا چھوڑ دو اور بھول جاو کوئی آیا تھا ادھر" ایس ایچ او" سر مگر" ایس پی" اپنے کام سے کام رکھو___ سمجھے! اسکے جانے کے بعد ایس ایچ او نے پاس پڑے پتھر کو ٹھوکر لگائی۔
_____
زمرد گھر کے قریب پہنچ کر گاڑی پیچھے کھڑی کی اور چل کر گھر پہنچا۔۔۔۔۔باہر سے فون ملایا صابر چچا گیٹ کھولیں۔ صابر:چھوٹے صاحب گاڑی؟ زمرد"وہ پیچھے کھڑی ہے! اسے اندر لاو اور بھول جانا آج جو کچھ ہوا۔ صابر" جی چھوٹے صاحب
صابر گاڑی اندر کر کے باہر نکلا ادھر ادھر نظر ڈالی جب تسلی ہوگئی تو گیٹ بند کرنے لگا۔
شبنم اپنے فون کو دیکھتے ہوئے۔۔۔۔چلو راستے کا ایک اور کانٹا ہٹ گیا۔
____

شیلو ناشتہ لگا رہی تھی۔ عباس فرسٹ فلور سے چلاتے ہوئے"صابر صابر صابر۔۔۔۔"
شیلو نے پلیٹ رکھتے ہوئے "اللہ خیر کر صاحب آج اوپر کیا کرنے گئے تھے" آگے بڑھی اور بولی "صاحب جی صابر سے میں نے ناشتے کیلئے کچھ ضروری سامان منگوایا ۔ سکینہ کمرے سے نکلی اور عباس کے غصے کو ٹھنڈا کرنے لگی"عباس کیا ہوا ہے آج سے پہلے آپ نے کبھی ایسے نہیں کیا۔۔۔۔۔بھول گئے یہ صبح کا وقت ہے۔ عباس کبھی ماتھے تو کبھی چہرے پر ہاتھ ملنے لگا۔
اتنے میں سارہ آگئی۔
اسلام علیکم!
عباس اسے دیکھ کر تھوڑا ٹھنڈا تو گیا مگر بنا کچھ کہے باہر نکل گیا۔
سکینہ: وعلیکم سلام! بیٹا آو بیٹھو!
سارہ"آٹنی سرخاب نے بلایا ہے"
سکینہ" اچھا۔۔چلو مل لو ویسے وہ تو ابھی اٹھی ہی نہیں۔
سارہ" اسکی بات سنی ان سنی کی اور سرخاب کے کمرے میں داخل ہوگئی۔
سکینہ" اسکی طرف دیکھتی رہی جب تک وہ کمرے نہ داخل ہوئی۔
شیلو"یقینا صابر سے کوئی خطا ہوئی ہے۔بیگم صاحبہ آپ کیا سوچ رہی ہیں؟
سکینہ"اس لڑکی کی آنکھیں اور زبان دو مختلف کہانیاں سنا رہی ہیں۔
شیلو: بیگم صاحبہ کیا مطلب؟
سکینہ:یہ جھوٹ بول رہی ہے کیونکہ سرخاب ابھی اٹھی ہے۔۔۔۔کیونکہ میں خود اسے اٹھا کر ائی ہوں۔ سکینہ سر نفی میں ہلا کر کچن میں چلی گئی۔ شیلو اسکے تعقب میں۔۔۔
رجب بال ہوا میں اچھال کر کیچ کرتے ہوئے سرخاب کے روم کی طرف چلا گیا۔
_____


 

Saima Munir
About the Author: Saima Munir Read More Articles by Saima Munir: 14 Articles with 12382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.