|
|
کئی سال کے عروج کے بعد اب میڈیا انڈسٹری کو زوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے- یہی
وجہ ہے کہ اکثر میڈیا ہاؤسز نہ صرف اپنے ملازمیں کی تنخواہوں میں کٹوتی کر رہے
ہیں بلکہ بعض اداروں میں تو ملازمین کو برطرف بھی کیا گیا ہے- گرتی ہوئی صنعت
کے نتائج کا سامنا کرنے والے لوگوں میں سے ایک سفیر احمد بھی ہیں۔ |
|
سفیر احمد ایک چینل کے لیے کیمرہ مین کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دیا
کرتے تھے لیکن اںڈسٹری کے بدترین حالات نے انہیں ایسے مقام پر لا کھڑا
کیا کہ گھر چلانے کے لیے ان کے پاس رکشہ ڈرائیور بننے کے علاوہ کوئی
چارہ نہ رہا- |
|
سفیر احمد نے اپنی دکھ بھری داستان یوٹیوب کی ویڈیو کے ذریعے شئیر کی-
ویڈیو میں وہ بتاتے ہیں کہ کیمرہ مین کے فرائض انجام دینے کے دوران جن
بڑے ہوٹلوں میں کبھی چائے پیا کرتا تھا اور پریس کانفرنس کور کیا کرتا
تھا اب میں ان کے پاس سے اپنا رکشہ چلاتے ہوئے گزرتا ہوں- |
|
|
|
اس کے علاوہ سفیر احمد کا کہنا تھا کہ اب روزانہ سڑک پر مجھے دوسرے
ڈرائیورز اور ٹریفک پولیس کے تکلیف دہ جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے-
سفیر احمد 4 سال قبل اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور رکشہ
ڈرائیوری سے جو کمائی حاصل ہوتی ہے وہ ان کے اہل خانہ کے گزر بسر کے
لیے ناکافی ہے- |
|
سفیر احمد کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا اور تقریباً 4 سال تک
آمدن کا کوئی ذریعہ نہ ہونے کے بعد مجبوراً ان کے سامنے کمائی کے لیے
رکشہ چلانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں تھا- |
|
یقیناً رکشہ ڈرائیور ہونا کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ایک میڈیا پرسن
ہونے کے بعد رکشہ ڈرائیور بننا کوئی آسان بات نہیں ہے- |
|
سفیر احمد کا کہنا تھا کہ “ میں نے ملازمت کی بہت کوشش کی لیکن ہر جگہ
میری درخواست مسترد ہوئی- چونکہ میری مہارتیں میڈیا انڈسٹری کے حوالے
سے تھیں تو اکثر جگہوں پر یہ کہہ دیا جاتا تھا یہ ملازمت آپ کے قابل
نہیں ہے- |
|
|
|
“ ان مشکل حالات کے دوران ان کے بچوں کو اسکول اور ٹیوشن سے بھی نکال
دیا گیا کیونکہ وہ ان کی فیس نہیں ادا کر پا رہے تھے- اکثر رات کو رکشے
میں ہی بیٹھا رہتا تھا کہ بچے سو جائیں گے تو گھر میں داخل ہوں گا
کیونکہ بچوں کے مایوس چہروں کا سامنا کرنا مشکل ہوتا تھا“- |
|
تاہم حالیہ ایک خبر کے مطابق اے آر وائی چینل کی جانب سے سفیر احمد کو
نوکری کی پیشکش کی گئی ہے- امید ہے کہ اب سفیر احمد کی زندگی پہلے کی
طرح آسان ہوجائے گی- |