اقبال ایک عظیم مفکر تھے اور ان کا یہ مصرعہ ان کی فکر کی عکاسی کرتا ہے، میں خود ایک بیٹی اور بہن ہوں اس کے علاوہ ہوش سنبھالتے ہی جو پہلا رشتہ دیکھا وہ ماں کا تھا جو کہ اپنی اولاد کے لئے خلوص و محبت کی دیوی ہے۔ عورت کسی بھی روپ میں ہو اگر وہ اپنی نسوانیت کا احساس رکھتی ہے تو وہ واقعی قدرت کے رنگوں کی عکاس ہے، معاشرہ عورت کے لئے تکلیف کا باعث ضرور ہے روز کہیں نہ کہیں اسے استحصال کی زحمت سے گزرنا پڑتا ہے اس کے حقوق بھی مجروح کئے جاتے ہیں لیکن اس کا مقصد ہر گز یہ نہیں کے وہ اپنی نسوانیت کو فراموش کر کے بغاوت کا وہ راستہ اختیار کرے جہاں اس کا عمل بے حیائی یا بد چلنی لگے، حیا فقط عورت کا شعار ہی نہیں یہ مردوں کا بھی وطیرہ ہونی چاہیے، مگر عورت کا زیور اور اس کی نسوانیت کا بھرم اس کی حیا میں ہی ہے۔ میری اپنی مائوں اور بہنوں سے گذارش ہے کہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھائیں یا عملی اقدامات کریں اس میں فقط اس بات کا خیال رکھیں کہ کوئی اپنے مفادات کے حصول کے لئے آپ کی حیا کو تو دائؤ پر نہیں لگا رہا، نہ خود ایسا کریں نہ ہی ایسے لوگوں کا آلہ کار بنیں جو کہ برابری اور حقوق کا جھانسہ دے کر اپنا الو سیدھا کرتے ہیں- یہاں اس بات کا احساس انتہائی ضروری ہے کہ آپ کا اپنے حقوق سے واقف ہونا لازم ہے ، پہلے آگہی حاصل کرنی ضروری ہے جیسا کہ اسلام میں علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر لازم ہے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے بارے میں جانیں مذہب نے جو حقوق و فرائض ہمیں بتائے ہیں ان سے واقفیت حاصل کریں تا کہ آپ بہتر جان سکیں کے کون آپ کی بات کر رہا ہے اور کون اپنی۔ ان مفاد پرست عناصر نے عورتوں کو اس طرح استعمال کیا کہ اب ان کی جائز بات بھی لوگ مزاق میں اڑا دیتے ہیں یا پھر آپ کا اپنا تعلق ان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے طعنہ زن ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے بات کی اصل روح ختم ہو جاتی ہے اور آپ پھر صفائیاں دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اس معاشرے میں عورت کا استحصال ہو رہا ہے لیکن اس میں عورت برابری سے شامل ہے۔ عورت اگر خود عورت کو عزت دینے لگ جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مرد بھی ان کو وہ مقام دیں جس کی وہ مستحق ہے، ہمارے گھریلو جھگڑے اس کی سب سے اہم مثال ہیں۔ بحر کیف اس بحث کا حاصل یہ ہی ہے کہ عورت جب تک اپنی جنس کا دکھ نہ سمجھے اور اپنی نسوانیت کو نہ جانے یہ سب تو ہوتا ہی رہے گا، فیصلہ عورت ہی کو کرنا ہے۔
|