بادشاہ کا وزیر کون ------ جی حضور

اس اوائل بڑھاپے میں جب اپنی بیتی زندگانی کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ اپنے تو چار دن آرزو اور انتظار میں کٹ گئے، اب زرا یہ دیکھیں کہ ہم سا کوئی اور ناعاقبت اندیش اور تو نہیں، اب جب ہم نے بیتی زندگانی کو پلٹ کر دیکھا تو پیچھے کوئی تھا ہی نہیں اور ہم اپنا سا منہ لے کر اگے دیکھنے لگے کہ یکایک ہمارے اس ننھے سے دماغ میں ہمارے بچپن کا وہ مشہور کھیل بادشاہ ،وزیر چور اور سپاہی آ گیا، اور ہمیں لگ پتہ گیا کہ او پاجی(پنجابی والا) اصل زندگی میں بھی یہ ہی کھیل کھیلنا تھا ، تم بلا وجہ غمِ جاناں اور دردِ دل کے علمبردار بنتے رہے، خیر اپنی سمجھ بوجھ کی حد تک ہم اب بھی اس ہی فلسفے پر قائم و دائم ہیں، مگر واقعی اگر غور کیا جائے تو ہمارا معاشرہ اس ہی کھیل کے گرد گھومتا نظر آئے گا-


بادشاہ : جیسا کہ اس کھیل میں ہوتا تھا کہ بادشاہ پرچی کے زریعے چنا جاتا تھا، ہمارے معاشرے کے بادشاہ بھی دو اقسام کی پرچیوں سے ہی چنے جاتے ہیں ایک پرچی تو وہ ہے جو کے اس معاشرے کے لوگ اپنی رائے کی صورت میں اسے اور اس کی اگلی تمام نسلوں کو دیتے ہیں کہ اب آپ نسل در نسل ہمارے مائی باپ اور ہم آپ کے غلام، مزیدار بات یہ ہے کہ وہ اس بات سے ہر گز واقفیت رکھنے کو خلافِ شان سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ پرچی ان کو دی کیوں ہے، بس دے دی کیوں کہ ان کے نانا نے ہمارے دادا کو چادر تحفے میں دی تھی، الیکشن کے دن پورے گاؤں کو چکن بریانی کھلائی تھی وغیرہ جیسی معصومانہ وجوہات، میں اب اس معصوم کی یہ برائی کیسے کروں کے جو قومی اسمبلی کا ووٹ بلدیاتی کاموں کی وجہ سے دے دیتا ہے اور یہ بھی نہیں پوچھتا بادشاہ سلامت جان کی امان پاؤں تو ایک عرض کروں کہ کام تو اچھا ہے مگر اپنا اصل کام کب کریں گے؟

وزیر : وزیر : بادشاہ کا وزیر کون “ جی حضور “ اب باری آتی ہے جی حضوروں مطب جی حضور کہنے والے وزیروں کی یہ بھی پرچی کہ ذریعے چنے جاتے ہیں، مگر یہ پرچی پہلی پرچی سے یکسر مختلف ہے یہ پرچی کسی بادشاہ کے خاص الخاص درباری یا خدمت گذار کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ یا تو دربار کے رتن ہوتے ہیں یا پھر بادشاہ کی بادشاہت کے ستون الخاص اور ان کا مقصد صرف اور صرف شاہ کی واہ وا کا پرچار کرنا یا بادشاہ کے اعمال الخواص کے لئے راہ ہموار کرنا ہوتا ہے جس میں یہ معصوم لوگ انتہائی قلیل بخشش کے عوض بادشاہ کو تمام سہولیات پہنچانے کے لئے کردار ادا کرتے ہیں، ایک تیسری قسم کی پرچی بھی وزارت کے لئے استعمال ہوتی ہے اور یہ عام طور پہ رنگین اور مختلف رنگوں میں ہوتی ہے اور اسے اپنی مدد آپ کے تحت استعمال کیا جاتا ہے مگر اس پرچی کی بھی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
اپنی اسکول کی زندگی سے لے کر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں یہ جی حضور آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گے اور ان ہی لوگوں کی وجہ سے بادشاہ جو چاہتا ہے کرتا ہے ان کے ذمہ جو بھی کام ہوتے ہیں یہ ان کو ایمانداری سے کرنے کے بجائے فقط اس حصے سے غرض ہوتی ہے جو بادشاہ ان کی اپنے لئے خدمات پر ان کو عطاء کرتا ہے۔

چور سپاہی : اس کھیل کا سب سے مزے دار حصہ چور سپاہی کا پتہ لگانا ہوتا ہے، نہیں جناب چور اور سپاہی کا پتہ لگانا الگ الگ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں اگر آپ نے خلیل جبران کا افسانہ شیطان پڑھ رکھا ہے تو آپ اس بات کو سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے نہیں پڑھا ان کے لئے اس کا خلاصہ کر دیتا ہوں تاکہ ان کو بھی سمجھ میں آ جائے، پادری کنعان کو ایک دن دجلہ کے کنارے ایک انتہائی بھدا سا شخص زخمی حالت میں ملتا ہے پادری اس کی مدد کرنے کوشش کرتا ہے تو وہ اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنا تعارف کرواتا ہے کہ میں شیطان ہوں پادری اس ہی وقت اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے مگر شیطان اس کو اپنے اور اس کے صدیوں کے ساتھ کی کہانی سنا کر یہ بتاتا ہے میں ہوں تو تم ہو اگر میں نہیں تو تم بھی نہیں اور آخر کار اسے اس حد تک قائل کر لیتا ہے کہ پادری باقاعدہ جنونی انداز میں اس کو بچاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے لبوں پر شیطان کی سلامتی کے لئے باقاعدہ دعائیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں، یہاں پر چور اور سپاہی کے درمیان بھی یہ ہی تعلق ہے اس لئے ان میں بھی بالکل چور سپاہی کے کھیل کی طرح تمیز کرنا آسان نہیں-

اب آ جاتے ہیں عملی زندگی میں اس کھیل کی طرف جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ کھیل بناء کسی ایمپائر یا ریفری کے کھیلا جاتا ہے حالانکہ عملی زندگی میں اس کھیل کے نگران ہوتے ہیں مگر وہ کھیل کی اصل روح کو برقرار رکھنے کے لئے سب کو کھل کر کھیلنے دینے کے قائل ہوتے ہیں اور ان کی دیگر مصروفیات بھی ان کی توجہ نہ دینے کا باعث بنتی ہیں اس لئے وہ اپنے کام کو خلائی مخلوق کے ہاتھ میں دے کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں، اب خلائی مخلوق کو جب تک کھیل کی سمجھ آتی ہے تو کھیل ہو جاتا ہے ختم اور پیسہ ہو جاتا ہے ہضم، پھر دوبارہ پرچیاں پھینکی جاتی ہیں اور پھر دوبارہ کھیل شروع ہو جاتا ہے 

SHEERAZ KHAN (F.U.U.A.S.T.)
About the Author: SHEERAZ KHAN (F.U.U.A.S.T.) Read More Articles by SHEERAZ KHAN (F.U.U.A.S.T.): 19 Articles with 23347 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.