مسلمان-ممالک اور فرقوں کی تقسیم-کیا یہ درست ہے


مسلمان-ممالک اور فرقوں کی تقسیم-کیا یہ درست ہے

بعض علماء کہتے ہیں کہ اسلام میں مختلف ممالک کی یا فرقوں کی تقسیم جائز نہیں

ان کے نزدیک سارے اسلامی ممالک کا ایک ہی متفقہ صدر یا وزیراعظم ہونا چاہییے جو خلیفہ کہلائے گا--اور اسی طرح تمام فرقوں کے نام(شیعہ سنی-دیوبندی-بریلوی-اہل حدیث) یہ نام ختم کر کے ہر اک کو صرف مسلمان ہی کہلوانا چاہییے

ان دونوں کاموں سے مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوگا-فرقہ واریت ختم ہوگی --اور ہر طرح کا عروج ہوگا

1--ممالک کی تقسیم کے خلاف دلائل
مسلمانوں کا مختلف ممالک میں بٹ کر رہنا اس تقسیم کی مخالفت کرنے والے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اسلام میں وطنیت یا وطن سے محبت کا تصور بلکل موجود نہیں
وہ اس ضمن میں علامہ اقبال کا یہ شعر پیش کر دیتے ہیں
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرھن اسکا ہے وہ مذھب کا کفن ہے
اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں کسی شاعر یا فلاسفر کا قول ہرگز اتھارٹی نہیں رکھتا- اتھارٹی صرف قرآن وسنت ہے اور ایک حدیث مبارکہ میں وطن سے محبت کرنے کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے

پھر لوگ وطن کی تقسیم کے خلاف یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ کفر کی طاقتوں نے جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور 1924 کے بعد مسلمانوں کو تقریبا 50 ممالک میں تقسیم کر ڈالا-یہ دلیل بھی غلط ہے آگے اسکی وضاحت آرہی ہے
2--ممالک کی تقسیم--حق میں دلائل
اولا
ایک عمومی اصول یاد رکھیں کہ اگر نفرت کی وجہ سے کوئی تقسیم ہوتی ہے تو وہ تقسیم ناجائز ہوگی

مثلا اگر 5 سگے بھائی جو اکٹھے رھ رہے ہوں وہ لڑ کر نفرت سے علیحدہ ہو جائیں
تو یہ ناجائز ہوگا -مگر اگر اپنی اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے کے لیے علیحدہ گھروں میں رہیں اور ویسے آپسمیں پیارومحبت قائم رکھیں تو یہ جائز ہوگا
اس نکتہ نظر پر غور کریں تو علم ہوگا کہ اس وقت کے تمام اسلامی ممالک آپس میں کبھی بھی ایک ملک کی صورت میں اکٹھے نہیں تھے اور نہ ہی آپسمیں لڑ جھگڑ کر علیحدہ ہوئے تھے بلکہ اپنے اپنے علاقوں کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لحاظ سے ہو اور ہر قوم اپنا بوجھ خود اٹھائے اس لحاظ سے بٹے ہوایے ہیں اور اسطرح یہ تقسیم جائز ہی ہے

دوم
مختلف ممالک-مختلف نام یہ رکھنا جائز ہے

جسطرح آدمیوں کی پہچان کے لیے مختلف نام رکھنا درست ہے-- قوموں کی پہچان کے لیے مختلف نام رکھنا جائز ہے

اسی طرح مختلف علاقوں کے مختلف نام بھی رکھنا نہ صرف جائز ہی ہوگا بلکہ ضروری بھی ہوگا

ناموں کا مختلف ہونا تفرقہ یا ناجائز عمل نہیں کہلا سکتا

اسلامی ممالک اپنی اپنی جغرافیائی حدود اور زبان اور کلچر کی بنیاد پر علیحدہ ہوئے ہیں--ہاں ایک اللہ ایک نبی ایک قرآن پر سب متفق ومتحد ہیں

3-فرقوں کی تقسیم کے خلاف دلائل
فرقے نہیں ہونے چاہییں اس کی تقسیم کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ

نمبر 1 قرآن پاک میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو فرقوں میں بٹ جانے سے منع کیا ہے لہذا فرقے بنانا منع ہے--

نمبر2 یہ فرقے ان کے نام بریلوی-دیوبندی-اہل حدیث-اہل قرآن یا دوسرے کوئی امتیازی نام وغیرہ رکھنے ہی نہیں چاہییں-یہ خلاف اسلام فعل ہے
4-فرقوں میں مت بٹو--وضاحت
اللہ تعالی نے یہ حکم دیا تھا کہ مسلمانوں فرقوں میں مت بٹو اسی حکم سے دو باتیں ہمیں پتہ چلتی ہیں

اول --حکم دیا گیا ہے کہ مسلمانو فرقوں میں مت بٹو

دوم--مسلمانوں نے لازمی فرقوں میں بٹ ہی جانا تھا کیونکہ اللہ حکم یا نصیحت اسی کام کی کرتا ہے جو مسلمانوں نے کرنی ہوتی ہے

5-فرقوں کا آغاز کب ہوا
خلافت راشدہ کے بعد مسلمان جو پہلے ایک ہاتھ پر متحد ہوتے تھے وہ ٹکڑوں میں بٹ گئے یعنی مختلف فرقوں میں بٹ گئے

چوتھے خلیفہ راشد کے بعد سے خلافت کی جگہ بادشاہت کا آغاز ہوا-- اور جب صرف بیٹا ہونے پر یزید کو حکمران مقرر کیا گیا تو مزید خرابیوں کا آغاز شروع ہوا

پس مختلف فرقوں یا علاقوں میں بٹ کر رہنے کا آغاز اندر سے ہی ہوا-- مسلمانوں میں مذھب سے دوری ہوئی شروع ہوئی بادشاہت آ گئی دنیاداری آگئی

اسکے بعد پھر مزید علاقائی تقسیم اور فرقے بنتے گئے

اگرچہ دوسروں نے بھی مسلمانوں کو آپسمیں لڑانے میں اہم کردار ادا کیا مگر اول کردار بہرحال اندرونی اسباب کا ہی تھا
6-فرقوں کے نام رکھنا جائز ہے
اب جب کہ مسلمانوں پہلی صدی میں ہی فرقوں میں بٹ گئے تھے تو پہلے جو دو گروھ بنے ان میں فرق کرنے کے لیے انکے مختلف نام رکھے گئے--

پھر اسکے بعد کچھ عرصہ بعد مزید فرقے بنتے گئے اب ظاہر ہے جب مختلف طبقات بنیں گے تو ان کے امتیازی نام بھی رکھنا مجبوری بن جائے گا--اور جسطرح کسی اشخاص کے قوموں کے اور ممالک کے مختلف نام رکھنا جائز ہیں اسی طرح فرقوں کے نام بھی رکھنا جائز فعل ہی تھا-- نام رکھنا ہرگز فرقہ واریت نہیں کہلا سکتا فرقہ واریت تو لڑائی جھگڑا کرنے کا نفرتیں پھیلانے کا کام ہے

7-فرقے ہمیشہ رہیں گے
مسلمانوں میں خلافت کے بعد بادشاہت آئے گی--ان میں فرقے بنے گے یہ سب باتیں احادیث میں درج ہیں

احادیث میں مسلمانوں کے 73 فرقوں میں بٹ جانے کا ذکر ہے جسمیں ایک کو جنتی اور 72 کو ناری کہا گیا ہے

احادیث میں سب فرقوں کے بٹنے کا تو ذکر ہے مگر پھر ان فرقوں میں اکٹھے ہونے کا کہیں ذکر نہیں
پس فرقوں میں بٹنا بھی لازم تھا
8-مسلمانوں کا اتحاد
اب جب سارے کے سارے ممالک مل کر ایک ملک بن جائیں سب فرقے مل کر یکجان ہوجائیں ایسا اتحاد تو احادیث سے ثابت ہی نہیں ہے -اور مسلمانوں نے ہمیشہ فرقوں میں ہی بٹے رہنا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مسلمانوں میں اتحاد کیسے پیدا ہو تو اسکا جواب یہ ہے کہ
احادیث مبارکہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ دینی لحاظ سے ہر زمانے میں مسلمانوں میں ایک حق کا گروہ لازمی رہے گا یہ اللہ جانتا ہے وہ گروہ کونسا ہے

اسکے برعکس ہم سیاسی اتحاد کی بات کریں تو سیاسی اتحاد مسلمانوں کا ہوسکتا ہے -- سیاسی طور پر کوئی بھی لیڈر سب مسلم ممالک کو یا اکثر مسلم ممالک کو اکٹھا کر سکتا ہے اور یہ ممکن ہے

 

Dr.Maqbool Ahmad Siddiqi
About the Author: Dr.Maqbool Ahmad Siddiqi Read More Articles by Dr.Maqbool Ahmad Siddiqi: 8 Articles with 6444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.