آخری باب

میں جو لکھ رہی ہوں آج یہ میری زندگی کا حاصل ہے۔
انسان اس دنیا میں جب سے ہے تب سے بُہت سے لوگ اُسکی زندگی سے باندھ دیے گئے ہیں۔کُچھ رشتے دوستی کے ہوتے ہیں اور کچھ محبت اور خلوص کے ہوتے ہیں۔ کُچھ رشتے وقت کے ساتھ ساتھ اتنے مضبوط ہو جاتے ہیں کے وہ دوستی اور پیار کے جذبے سے سرشار ہو جاتے ہیں اور اُن رشتوں کے بغیر آپ ادھورا محسوس کرتے ہیں لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے کہ گردشِ ایام اُن رشتوں کو یک طرفہ ختم کردیتے ہیں۔ ایک طرفہ تعلق کو ختم کرنا ہمیشہ سے ہمارے معاشرے میں تکلیف کا باعث بنا ہے اور اس کے بعد دل اور ذہن میں ایک لفظ گھومتا ہےجو کہ درد ہے،افسردگی ہے اور پھر بے چینی ،ناکامی اور مسلسل تکلیف انسان کا مقدر بن جاتی ہے۔ نہ جانے کیوں آج عرصے بعد یہ احساس دِل میں آیا کہ جب اندھیرا گھُپ اور تعلق ختم ہو جاۓ تو بجاۓ اس کے کہ انسان روۓ، پیٹے اور واویلا کرے۔ اسے روشنی ایجاد کر لینی چاہیے۔ مگر اس روشنی کو جلانے کے لیے خوابوں کا تیل لگتا ہے ، ہمت اور جرأت کی بازی لگتی ہے ، جذبات کا خوں ہوتا ہے اور بے تحاشا خون بہتا ہے ۔ پر میرا ماننا ہے کہ چاہے لاکھ جتن کرلو، لاکھ منتیں کرلو، کروڑ آنسو بہا لو ،زندگی برباد ہو جانے کے دعوے کرلو، کلیجہ پھاڑ کر بھی اپنا درد بیان کرلو پر یقین کریں چھوڑنے والے چھوڑ ہی جاتے ہیں اور پلٹ کر کبھی نہ آنے کی قسم کھا کر اپنی زندگی میں ایسے مگن ہو جاتے ہیں جیسے آپکا تعلق صرف اور صرف لفظوں کی حد تک تھا آپ سے کئے گئے وعدوں کو صرف ایک بھول کا نام دیا جاتا ہے، ساری عمر اسی ایک تعلق کے ساتھ رہنے کو نا صرف نا سمجی کا نام دیا جاتا ہے بلکہ عقل پر پردہ پڑنا بھی کہ دیا جاتا ہے۔ آپکو اس تکلیف کی نظر کر دیا جاتا ہے جو ساری عمر دل میں چبھتی رہتی ہے۔اُس شخص کے ہر جگہ آنلائن ہوتے ہوئے بھی سارا سارا دن اُس کے ایک میسیج کا انتظار کرنا بُہت تکلیف دہ ہوتا ہے، کسی دُکھ کو کسی غم کو ایک اپنے کے ساتھ بانٹنے کو ترسنے کی چاہ اور اُس اپنے کا زندہ ہوئے بھی میسر نہ آنے کی اذیت الگ ہے۔ دل کی مجبوری کہہ لیں اسے یا دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت ہوتے ہوئے بھی کُچھ بھی نا سمجھنا۔۔یہ ایسے حالات ہیں جو بے بسی کی انتہا پر جا کر روز تھوڑا تھوڑا ہمیں اندر سے توڑتے رہتے ہیں۔ ہم صرف ایک انسان کے دور جانے کی وجہ سے زندگی سے نالاں ہو کر اپنا آپ برباد کر دیتے ہیں۔
اسکا ایک حل ہے ایک واحد حل کہ آپ دل سے کسی کو اتنی جلدی نکال نہیں سکتے نہ ہی خود پر ہوئے ستم کو بھول سکتے ہیں بس اتنا کریں کہ خود کو بدل دیں۔، اپنا خود کا غم تو انسان کی آنکھیں کھول دیتا ہے پر کبھی کسی انسان نے اللہ کے دوسرے بندے کا دُکھ اپنی جگہ رکھ کر محسوس نہیں کیا۔ سسک سسک کر مرنے والے کو راہ میں چھوڑ کر اپنی ذندگی کے مسائل دیکھنے سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں پر کبھی سوچا ہے اُس بندے نے خُدا کے سامنے آپکا نام لیے لیا تو کیا ہوگا؟ محبت کی آڑ میں نام نہ بھی لیا جائے تو کیا اللہ تحجت میں جائے نماز پر گرنے والے آنسوؤں کو نظر انداز کر دے گا؟ بلکل نہیں! کُچھ دن، کُچھ مہینے یا کُچھ سالوں بعد ہی سہی پر اللہ سنے گا ضرور۔ یا تو آپکو اُس شخص سے ہمیشہ کے لیے دور کر دیگا یا پھر آپکو پتھر سے بھی زیادہ مضبوط کر دیگا۔ میں یہاں ایک بات کہوں گی ،ہو سکتا ہے کہ جانے والے کی اپنی مجبوریاں ہوں، صرف اپنے دل ٹوٹنے پر یا توقعات پوری نہ ہونے پر کسی کو بُرا سمجھنے کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے پر کائنات اور اللہ کے نظام کو پرکھا جائے تو سمجھ آتی ہے رشتے نبھانے کے کُچھ اصول ہوتے ہیں، کُچھ حق ہوتے ہیں، کوئی مان ہوتے ہیں، کوئی پچھتاوے ہوتے ہیں، سزا اور جزا کا نظام اللہ نے مرتب کیا ہے پر اللہ نے انسان کو دکھاوے اور خلوص کی پہچان دی ہے۔ انسان خود کے لیے سب کرتا ہے حالات سے لڑتا ہے تو اللہ نے دل میں یہ بھی سمجھ رکھی ہے دنیا میں کن رشتوں کو نبھانا ہے اور کن کو بے آسرا چھوڑ دینا ہے کیوں کہ کُچھ رشتے آپ سے صرف خلوص اور چاہت کے ہی طلبگار ہوتے ہیں۔ بُرا کوئی بھی نہیں ہوتا ، سب چاہتے ہیں خوش رہا جائے بس ہم انسان جو ایک دوسرے سے توقعات لگاتے ہیں وہ پوری نہ ہونے پر تکلیف دیتی ہیں اور اس میں قصور ہمارا ہی ہوتا ہے۔ سب وقت لیگا، وقت لگے گا خود کو سنبھالنے میں۔ یقین کریں خود کو اللہ کے سپرد کر دیں، خود کی خوشیوں کی قدر کریں ، سوچیں اُس اِنسان کے زِندگی میں آنے سے پہلے آپ کیسے تھے؟ جو چیزیں تب آپکو خوش رکھتی تھیں ان چیزوں میں دل لگائیں، اُن دوستوں ساتھ بیٹھیں جنکی آپ جان ہوا کرتے تھے، اُن لوگوں کو وقت دے کر دیکھیں جو آپکی قدر کرتے ہیں ،جو آپکو خوش دیکھ کر جیتے ہیں۔ وہ اِنسان بنیں جو آزاد تھا جو زندہ دل شخص آپ کسی کے آنے سے پہلے تھے ورنہ زمانہ آپکو نوچ کر کھا جائے گا۔ دل سے ڈر کو نکالیں ،اپنا آپ مضبوط بنائیں خود کے لئے جیئیں ۔ عزت سبکو دیں پر کسی سے اُمید لگانا چھوڑ دیں۔ پورا یقین ہے ایک دن آپ خود کو پا لیں گے اور کبھی پلٹ کر بھی وہ شخص آپکو تکلیف نہیں دے سکے گا۔ صبر کریں اور بُہت کریں ۔ جانے والے کو اُسکی اچھائیوں کی دعا دیں اور اگر اُس سے کوئی غلطی ہوگئی تو کھلے دل سے معاف کردیں اچھے وقت اور اچھی یادوں کی بنا پر ہمیشہ دوسروں کے سامنے بھی تعلق کی قدر کریں۔ چُپ رہیں گلہ کرنا چھوڑ دیں کیوں کہ کسی کی بھی محبت کی شدت صرف اپنے تجربات کی بنیاد پر نہیں پرکھی جا سکتی ۔ میرا یقین ہے کہ کسی کے ساتھ اگر آپ اس حد تک مخلص ہیں اور وہ انسان آپ سے دور ہو گیا ہے تو آپ کسی کو نہیں کھوتے بلکہ وہ شخص زندگی میں ایک خیر خواہ سے دور ہو گیا ہے۔میں کہتی ہوں کہ چاہے محبت یا خلوص سے جُڑا کوئی بھی رشتہِ ہو اُس میں جتنی بھی شدت ہو اُس میں تھوڑی گنجائش ضرور ہونی چاہیے کہ اگر وہ روٹھ جائے تو منا لیا جائے اور اگر دور ہو جائے تو صبر کے ساتھ اُس محبت کو، اُس رشتہِ کو، اُس عزت کو ہمیشہ دِل میں بسا لیا جائے کیونکہ خاموش محبت بھی رب کی ایک خاص عطا ہے۔

 

Aqsa Aziz
About the Author: Aqsa Aziz Read More Articles by Aqsa Aziz: 3 Articles with 3596 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.