راولپنڈی میں قتل کی لرزہ خیز واردات میں چار بچوں اور
خواتین کو فائرنگ کر کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا، یہ ہے ھمارے معاشرے کا
سماجی شعور اور پس منظر، دل خون کے آنسو روئے یا جگر پر وار ھو، ذرا غور
کریں بعثت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل مکہ کا معاشرہ کیسا تھا، ایک
سیرت نگار لکھتے ہیں کہ اگر ایک قبیلے کی گائے دوسرے کی فصل میں داخل ھوتی
تو اس پر جھگڑا شروع ھوتا ، چالیس سال تک لڑائی چلتی رہتی، عورتوں اور بچوں
کے ساتھ ناروا سلوک ہوتا، جہالت کی انتہا تھی کہ عرب کے لق ودق صحرا کو
گھیرے ہوئے تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی جدوجہد ھی جہالت کے
خلاف تھی اور اسی تعلیم، اخلاق اور سماجی رویے نے جہالت کو نور میں بدل دیا،
ھم ذرا غور کریں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا ھمزہ رضی اللہ تعالیٰ،
سے کتنی محبت تھی، کیا والہانہ تعلق تھا مگر دشمنوں نے کیسے انہیں قتل کیا،
جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ، بے حرمتی بھی کی گئی، مگر دریا دلی دیکھیں کہ
انسانیت کو معافی کا کیسے درس دیا، عام معافی کا اعلان کیا اور ابوسفیان کے
گھر کو جائے پناہ قرار دیا، اس رویے اور عمل سے کیا ایک فیصد بھی ھم سیکھ
سکے ھیں، کیا ھم غور کریں گے کہ ھم انسان ہونے کی کوئی خوبی رکھتے ہیں؟بدلے
کی آگ ھو یا حسد، بغض اور کینہ کی روش ھم اسی جہالت کے دور میں کھڑے ہیں،
کسی کا کوئی قتل ھوا قصاص اور دیت کا قانون موجود ہے، پھر کیا آپ ایمان کی
اصل حقیقت سے واقف نہیں؟ اصل ایمان ھی تو ایمان بالغیب ھے، آپ کو یہ تو
معلوم نہیں کہ حشر بپا ھونا ھے، میزان کا عمل ھوگا، پھر بھی بدلے کی آگ کو
کیا چیز بڑھکاتی ھے، اور وہ تو صرف جہالت، حسد، بغض اور کینہ ھی ھے، یہ تین
سال قبل حج کے خطبے سے قبل کی رات تھی، میں نے سنا کہ وہ آرہے ہیں، دوڑ کر
اپنے پرانے گھر میں والدہ کی چارپائی پر سفید چادر ڈالی، وہ تشریف لائے،
میں نے ٹھوڑی پاؤں پر رکھی چہرے پر نظر ڈالی اور جسارت کر کے سوال پوچھ لیا،
وہ سوال دراصل ایک عام فکر مند مسلمان کا ھے، میں نے پوچھا آج امت مسلمہ کی
یہ حالت کیوں ھے؟ جواب آیا، حسد، بغض اور کینہ، پیشانی دیکھی اس میں بھی
تین بل پڑے ہیں، میرے والدین بھی کھڑے سن رہے تھے، دودھ پیش کیا اور کافی
راستہ ساتھ چلتا گیا، آج تک چل رہا ہوں، مسلمان ممالک کا تجزیہ کیا تو
دیکھا حسد ھے، بغض ہے، کینہ ھے، کوئی فرقہ کی بنیاد پر، کوئی طاقت کے بل
بوتے پر، اور کوئی ذاتی حیثیت میں، ھر شخص اسی حسد کی وجہ سے سب کو جلا
دیتا ہے اور خود بھی جلتے جلتے مر جاتا ہے اور نیکیاں اور خوشیاں بھی جل
جاتی ہیں کسی کے حصّے میں کچھ نہیں آتا، بغض نے سماج، سیاست، تجارت، شہرت
اور عزت کو پامال کر رکھا ہے، یہ سب جہالت اور بے جا آنا کا کمال ہے کہ اس
نے انسان کو انسانیت سے گرا دیا ہے، راولپنڈی کے اسی علاقے میں گزشتہ تیس
سال سے میں یہی خبریں سن رہا ہوں، کئی سیاست دان آئے، علماء کرام اور مشائخ
عظام گزرے یہ جہالت کوئی ختم کیوں نہیں کر سکا؟ کیوں اس سماج سے بے شعور
لوگوں کو نکالنے کی کوشش نہیں کی گئی، وہ چار بچوں، خواتین کا کیا قصور تھا،
جنسی زیادتی اور قتل کا نشانہ بننے والے بچوں کا کیا قصور ہے، غیرت کے نام
پر قتل کیوں نہیں بند ھوتے، تیزاب چھڑکنے اور زندگی بھر معذور کرنے کی روش
کب ختم ھو گی، انصاف کیسے اور کب سب کے لیے آسان ھو گا، لوگ کب تک، وکیلوں
کی فیسیں بھرتے رہیں گے یا پولیس کو رشوت دیتے رہیں گے، جاگیں اس سماجی
رویے کے خلاف آواز اٹھائیں، بے قصور قتل ھوتے اور ھوس، حسد اور بغض کا شکار
ھوتے رہیں گے، بے شک خیر و شر کی جنگ ابد تک ھے، مگر اپنے رہنما دین اور
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور عمل سے کچھ تو سیکھ لیں، کوئی تو
معافی کا مطلب سمجھا دے، یہ راولپنڈی ھی نہیں ملک کے اکثر حصوں کا رحجان ھے
اسے بدلنا ھو گا۔ نہیں تو یہ آگ سب کو جلا کر راکھ کر دے گی۔
|