استنبول کی آیا صوفیہ گرینڈ مسجد میں 86 سال بعد نماز
جمعہ ادا کی گئی، ترک صدر رجب طیب اردوان سمیت ہزاروں افرادنے نماز ادا کی،
خطبہ جمعہ اور دعا کے دوران روح پرور مناظر دیکھے گئے جبکہ جمعہ کاترک وزیر
مذہبی امور پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش نے آیا صوفیا میں تلوار ہاتھ میں تھام
کر دیا۔ترکی کے شہر استنبول کی تاریخی جامع مسجد آیا صوفیہ کے منبر و
محرابوں میں 86 سال بعد اذان کی صدائیں بلند ہوئیں تو ملک بھر سے ہزاروں
فرزندان توحید کھنچے چلے آئے۔نماز سے قبل ترک صدر اردوگان نے تلاوت قرآن
پاک کی سعادت حاصل کی جبکہ وزیر مذہبی امور پروفیسر ڈاکٹر علی ایرباش نے
خطبہ جمعہ دیا۔ تلوار کو سیڑھیوں پر ٹیکتے ہوئے وہ منبر پر چڑھے تو دیکھنے
والوں پر جلال طاری ہوگیا۔انہوں نے تلوار تھامے خطبہ دیا جو خلافت عثمانیہ
کے دور کی ایک روایت ہے اور فتح کی علامت سمجھی جاتی ہے۔انہوں نے الٹے ہاتھ
میں تلوار پکڑی جو ایک طرف تو دشمنوں کے دلوں پر ہیبت طاری کرنے اور دوسری
طرف اتحادیوں کو تقویت اور اعتماد دینے کا پیغام دیتی ہے۔اس موقع پر 18
ہزار پولیس اہلکاروں کو سیکورٹی پر مامور کیا گیا جبکہ 800 ڈاکٹرز اور 110
ایمبولینسز طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے تعینات رہے۔ یاد رہے کہ ترک عدالت
نے 11 جولائی کو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے حکمنامے پر دستخط کئے
تھے جس کے بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی
منظوری دی تھی۔نماز جمعہ سے قبل مسجد میں تلاوت قرآن پاک کی گئی اس موقع پر
سیکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے۔نماز جمعہ کی ادائیگی کے
لیے مسجد میں ترک صدر رجب طیب اردوان اورمعروف شخصیات سمیت بڑی تعداد میں
نمازی موجود تھے۔آیا صوفیہ مسجد شریف کبیرہ کے نام سے کھولے گئے ٹوئٹر
اکاؤنٹ کا افتتاح ’’بسم اﷲ‘‘ کے ساتھ کیا گیا جسے ترک صدر رجب طیب اردوان
نے اپنے اکاؤنٹ سے بھی شیئر کیا۔ ترک میڈیا کے مطابق آیا صوفیا مسجد میں
نماز جمعہ کے موقع پر اطراف میں لوگوں کا رش ہونے کی وجہ سے مرد و خواتین
کے لیے مختص کی گئی تمام جگہیں مکمل طور پر بھر گئیں۔میڈیا کے مطابق عوام
کی بڑی تعداد کے باعث مسجد آیا صوفیا کے احاطے میں مزید افراد کے داخلے پر
پابندی لگا دی گئی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے مسجد کے احاطے سے باہر
سڑکوں پر نماز جمعہ ادا کی۔خیال رہے کہ آیا صوفیہ کی عمارت 1500 برس پرانی
ہے جہاں ہر سال 30 لاکھ سیاح آتے ہیں، یہ عمارت چھٹی صدی میں بازنطینی
بادشاہ جسٹنیئن اول کے دور میں بنائی گئی تھی اور تقریباً 1000 سال تک یہ
دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر تھی۔1453 میں سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں
استنبول کی فتح کے وقت سلطان محمد فاتح نے اسے مسجد میں تبدیل کیا تھا لیکن
1934 میں مصطفٰی کمال اتاترک کے دور حکومت میں اسے ایک میوزیم میں تبدیل کر
دیا گیا اور اِس وقت یہ عمارت اقوام متحدہ کے ورلڈ ہیریٹیج فہرست میں بھی
شامل ہے۔ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان نے الیکشن مہم کے دوران آیا
صوفیہ کو ایک مرتبہ مسجد بنانے کا وعدہ کیا تھا اور اس حوالے سے ایک کیس
بھی عدالت میں چل رہا تھا۔ترکی کی کونسل آف اسٹیٹ نے اس کیس کا فیصلہ 2
جولائی کو سنانا تھا لیکن اس دن مختصر سماعت کے بعد فیصلے کو 15 دن کے لیے
مؤخر کر دیا گیا۔تاہم 10 جولائی 2020 کو عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سناتے
ہوئے آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت ختم کر دی اور پھر ترک صدر نے آیا صوفیہ
میوزیم کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کے احکامات پر دستخط کر دیے۔ دریں
اثنا نماز جمعہ کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب
اردوان کا کہنا تھا کہ آیا صوفیہ کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے رجب
طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ 86 سال بعد آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے بعد
ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے، جسے ہم آزاد کروائیں گے۔قارائین
آپکویاددلاتاچلوں آیا صوفیہ ماضی میں چرچ تھی۔ رومی شہنشاہ جسٹینین اول کے
عہد میں سنہ 537ء میں اسے تعمیر کیا گیا تھا۔ نماز کی ادائیگی کیلئے
استنبول کے چپے چپے سے مسلمان آئے جبکہ اگلی صفوں میں جگہ کیلئے نمازی فجر
سے پہلے پہنچ گئے تھے۔ اس موقع پر مسجد سمیت پورے شہر میں سکیورٹی کے سخت
انتظامات کئے گئے تھے۔ ترک حکومت نے پانچ وقت کی نمازوں کے لیے آ ئمہ اور
موذن حضرات کا تقرر کردیا ہے۔ خیال رہے آیا صوفیہ کے سامنے ایک خوبصورت چمن
ہے، اس کے بعد اس کا مرکزی دروازہ ہے، دورازے کے دونوں اطراف وہ پتھر نصب
ہیں جہاں پہرے دار کھڑے ہوتے تھے۔ اندر وسیع ہال ہے جو مربع کی شکل کا ہے۔
بیچ کے گنبد کا قطر ایک سو سات فٹ اور چھت کی اونچائی ایک سو پچاسی فٹ ہے،
پوری عمارت میں ایک سو ستر ستون ہیں، چاروں کونوں پر چھ ڈھالوں پر اﷲ،
محمد، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی نہایت خوشخط لکھ کر لگایا ہوا ہے جبکہ
اوپر چھت کی طرف بڑے بڑے خوبصورت روشندان بنے ہوئے ہیں۔ عمارت میں سنگ مرمر
استعمال کیا گیا ہے، بیشمار تختیاں لگی ہوئی ہیں جن پر عربی خط میں لکھا
اور نقش ونگار کیا گیا ہے۔ آیا صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد481سال
تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی لیکن خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد
مصطفٰی کمال اتاترک نے مسجد بند کر کے اسے عجائب گھر بنا دیا تھا۔ تاہم آٹھ
دہائیوں بعد ترک عدالت نے 2020ء میں آیا صوفیا کی دوبارہ 1935ء سے قبل والی
حیثیت بحال کی۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کمال اتاترک نے 1935ء میں
آیا صوفیہ کی مسجد کو میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا چند روز قبل ترک عدالت
نے آیا صوفیہ میوزیم کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کرنے کا حک دیا۔ ترک خاتون
اول نے بھی آیا صوفیہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کی۔آیا صوفیہ سن 537ع میں
بازنطینی شہنشاہ جسٹنین اول کے دور میں بطور چرچ تعمیر کی گئی تھی۔ترک
حکومت اور استنبول کی مقامی انتظامیہ نے پہلے ہی 24 جولائی کو نماز جمعہ کے
حوالے سے انتظامات شروع کردیے تھے اور لوگ نماز کی ادائیگی کے لیے صبح سے
ہی پہنچنا شروع ہوگئے تھے اور لوگوں نے کئی گھنٹے قبل ہی تلاوت قرآن پاک
شروع کردی تھی۔ چوک میں موجود لوگوں نے نعرہ لگایا 'اﷲ اکبر' اس موقع پر
سیکڑوں لوگوں نے ترکی اور عثمانی پرچم اٹھا رکھے تھے۔نماز کی ادائیگی کے
موقع پر مسجد کے احاطے میں موجود تصاویر کو سفید پردوں سے ڈھانپ دیا گیا
تھا۔عہدے داروں نے بتایا کہ عیسائی فرسکوز، گنبد اور سینٹرل ہال میں بنی
تصاویر کو نماز کے اوقات میں ڈھانپ دیا جائے گا جبکہ باقی اوقات میں نمائش
کے لیے پردوں کو ہٹادیا جائے گا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا کہنا ہے کہ
آیا صوفیہ کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے۔اسرائیلی خبر رساں ادارے
کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اعلان کیا ہے کہ 86 سال بعد آیا
صوفیہ کو مسجد بنانے کے بعد ہماری اگلی منزل مسجد اقصیٰ ہے، جسے ہم آزاد
کروائیں گے۔استبول کی آیا صوفیہ مسجد میں نماز جمعہ کی طویل ترین اذان دی
گئی 86 برس کے بعد نماز کے لیے کھلنے والی مسجد میں موذن نے حَئی علی لصلوۃ
اور حَئی علی الفلاح کئی مرتبہ پڑھا۔ اذان کے دوران بعض نمازیوں کے چہرے
آنسووں سے تر ہوگئے۔
|