دل تتلی بن اُڑا

قسط__14
شبیر: اندر گیا تو ڈری سہمی ہوئی لڑکیاں اسے دیکھ کر ایک دوسرے کے پیچھے چھپنے لگی۔

شبیر:ڈرنے کی ضروت نہیں۔۔۔۔میں یہاں تم لوگوں کی مدد کے لیے آیا ہوں۔ ایک دس،گیارہ سال کی بچی اسکے سامنے آئی۔ ہمیں کسی پر اعتبار نہیں،تم جاو یہاں سے اپنے ننھے ہاتھوں سے اسے دھکا دیا جو اسکے لیے بے ضرر تھا۔ شبیر زمین پر بیٹھا اور بولا " میں تم لوگوں کو اس درندے کے ہاتھوں سمگل نہیں ہونے دوں گا۔ وہ اسکے ساتھ لپٹ کر انکل کیا ہم سب یہاں سے باہر نکل سکتے؟ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے "ہاں بلکل اسکے لیے تم سب کو میری مدد کرنی ہوگی"
ایک نیلی آنکھوں والی لڑکی اٹھی اور اسکا مذاق اڑاتے ہوئے"اوئے بہادر انسان تم تو بے بس اور لاچارون سے مدد طلب کر رہے ہو۔ ہم کیسے امید کریں کہ تم ہماری مدد کر سکتا ہو۔
شبیر "استغفراللہ میری بہن! میں صرف کوشش کرنا چاہتا ہون''اللہ بہتر کار ساز ہے''
مائی سلف :ہما علی "بتاو کیا چاہتے ہو؟ شبیر کہتے ہیں مجھے"مجھے یہاں سے چھپ کر باہر نکلنا" ہما ہنستے ہوئے"مطلب جان بچانا چاہتے ہو؟ اپنے بندھے ہوئے ہاتھ آگے بڑھائے۔
شبیر" ماتھے پر شکن لایا "میرا یہاں سے چھپ کر نکلنا تم لوگوں کو بچانے کے لیے از حد ضروری ہے۔ ایک جھٹکے میں اسکے ہاتھ کھول دیے۔
ہما" شکریہ۔۔۔۔۔تمہارے ذہن میں کچھ ہے؟
شبیر"ایک خاتون بیماری کا ناٹک کرے باقی اسکے بیمار ہونے پر بہت زیادہ چیخیں چلائیں تو دروازہ کھل جائے گا۔ ہما اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے باقی تمام لڑکیوں کی طرف دیکھا انکی آنکھوں میں امید کی کرن چمکتی پائی بولی "پلان تو بہت اچھا ہے مگر۔۔رسی کی وجہ سے پڑی کلائیوں کو ملتے ہوئے" ہمیں کیا ملتا ہے یہ وقت بتائے گا" اسکے ساتھ مل کر لڑکیوں کی رسیان ڈھیلی کرکے باندھنے لگی۔________

عباس"ناشتے کے بعد اٹھا، بیگم مجھے ضروری کام ہے۔ سکینہ نے اٹھ کر اسے کورٹ پہنایا۔ اللہ کی امان میں رہیں! اسے دیکھ کر مسکرایا۔۔۔ہمیشہ خوش رہین!زمرد فورا سے اٹھا "ماموں جان میں بھی آپکے ساتھ چلتا ہوں" عباس نہیں بیٹا"انشاءاللہ کورٹ میں ملاقات ہوگی" زمرد" مگر ماموں جان " عباس" بیٹا دراصل ابھی مجھے ایک ضروری میٹنگ پر جانا ہے۔ اسائنمنٹ کافی لمبی ہے پریزنٹ کرنے میں دو گھنٹے لگ جائیں گے۔ زمرد اٹھ کر گلے ملا" سرخاب کھڑی ہوگئی۔ عباس چلا گیا۔۔۔۔مگر پھر باہر دروازے سے نکلتے نکلتے واپس آیا۔ سرخاب جو اسے دیکھ رہی تھی باہیں پھیلا کر اپنے پاس آنے کا اشارہ دیا۔عباس نے اپنے بازو کے حصار میں لے لیا"میرے آنگن کی چاندنی میری لاڈلی" اسکا ماتھا چوما " سرخاب" بابا اپنا بہت خیال رکھیئے گا" عباس کا ہاتھ چوما اللہ کی مدد سے فاتح بن کر لوٹیں گے"  اسے گلے سے لگاتے ہوئے ہاں انشاءاللہ میری لاڈلی!! وہ چلا گیا باہر دروازے تک پہنچتے پہنچتے دو دفعہ مڑ کر اسے دیکھا۔
وہ گاڑی لے کر ابھی نکلا ہی تھا کے اسکے پیچھے ہی ایک رکشا آکر رکا
۔۔۔۔۔! />رضیہ جلدی جلدی اتری اپنا پرس پکڑ کر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔۔۔ تو سفیدی سے دھکا ہوا ماربل سے بنا گھر آنکھون کو راحت دے رہا تھا۔ سامنے بالکونی میں کھڑے لڑکا اور لڑکی ہر گرد وپیش سے بے خبر باتوں میں مصروف تھے۔ رضیہ نے آگے بڑھ کر بیل بجائی ۔۔۔۔اندر سے آواز آئی ہاں بی بی کیا مسئلہ ہے۔ رضیہ" عباس صاحب سے کہیں رجی ہے  سویرا نے ضروری پیغام بھیجا ہے۔ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ گارڈ کرسی کے اوپر  چڑھ کر جاسکتی ہو وہ ابھی اپ کے آگے آگے گھر سے نکلے ہیں۔
رضیہ: اچھا تو ایک گلاس پانی ہی پلا دیں۔۔۔۔۔ایسے بولی کے گارڈ اسکی درخواست پر انکار نہیں کر سکا۔ گیٹ کھول کر آو ادھر کھڑی ہو جاو "میں پانی لاتا ہوں" وہ کچھ دیر کھڑی رہی پھر پیچھے کی طرف چل دی۔ وہاں ایک کرسی پڑی تھی جس پر بیٹھ گئی سامنے سے ایک خاتون اپنی طرف آتی پائی۔ اسے دیکھ کر حیران ہو گئی۔" اممی "اسے غور سے دیکھتے ہی رضیہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔۔۔۔وہ ماضی کے خیالون میں ڈوب گئی
!
وہ باہر سے بھاگتی ہوئی آئی اممی اممی آپ مجھ سے کتنا پیار کرتیں ہیں۔ اپنی دونوں باہون میں لے کر"اتنا جتنے آسمان پر تارے ہیں اس سے تھوڑا کم جتنا میری بیٹی مجھ سے کرتی ہے۔ اسکے گھنگریالے بالوں کے اوپر ہاتھ پھیرا اور ماتھے کا بوسہ لیا۔ میری پیاری رجی!!! اتنے میں صباء انکی چھت سے بھاگتے ہوئے اتری اسکی سانس پھولی ہوئی تھی وہ باہر کی طرف بھاگ گئی! شکیلہ نے اس سے پوچھنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکی۔ وہ بھاگ کر چھت پر گئی۔ تو وہاں کچھ نہیں تھا"پتہ نہیں اس نے کیا دیکھ لیا۔ بڑبڑائے ہوئے ابھی اتر رہی تھی اتنے میں اسکا شوہر آگیا"بدکار عورت وہ اسے گھسیٹے ہوئے اندر لے گیا مار دھاڑ اور چیخوں کی آوازیں سن کر دروازے کے باہر روتی بلکتی رضیہ بہوش ہوگئی!
ابا ابا۔۔۔اممی کو مت مار۔۔۔۔۔
اسکی آنکھوں میں آنسو تھے سامنے آتی شیلو کو دیکھ کر صاف کیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے چھوڑ کے کیوں آگئی" تیری رجی رل گئی ماں۔ شیلو اسکے قریب آئی"وہی معصومیت "آنکھون میں ویسے ہی سوال"اسے چھونا چاہا رضیہ پیچھے ہٹ گئی!
شیلو"کون ہو تم؟
رضیہ"میں ایک جرنلسٹ ہوں عباس صاحب سے ضروری کام تھا۔ اپنا کارڈ آگے بڑھایا۔۔۔۔ان سے کہیے گا۔جتنی جلدی ہوسکے وہ مجھ سے رابطہ کریں۔رضیہ باہر کی طرف بھاگ گئی۔۔۔گارڈ پانی لاتے ہوئے باجی او باجی پانی تو پی لو۔وہ باہر نکل گئی۔گھر کی دیوار کے ساتھ لگی گھاس پر بیٹھ کر خوب روئی۔آنسو صاف کرتے ہوئے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

2nd
ایک لڑکی نے دروزے سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہوکر رونا شروع کر دیا۔ شبیر اور ہما دروازہ پیٹنے لگے۔ شبیر نے زور زور سے دروازہ پیٹا ایسا لگا گویا کہ ابھی گرا کہ ابھی گرا۔ باہر کھڑا گارڈ ڈر گیا اس نے فضلو کو کال کی"فضلو یہاں کچھ ہوا ہے " فضلو"کیا ہوا ہے؟ گارڈ"وہ لڑکیاں باہر والے دروازے کے پاس آکر اسے توڑنے کی کوشش کر رہیں۔ فضلو "بھاگتے ہوئے کیا بکواس کر رہے ہو۔ جب وہاں پہنچا تو چیخوں کی آواز سن کر خوف زدہ ہو گیا۔ کھولو دروازہ اپنا پستول نکالتے ہوئے اگر کوئی حملہ کرے تو اسے مار دینا۔ جونہی دروازہ کھلا سبھی لڑکیاں ان دونوں کے گرد جمع ہو گئیں "خدا کا واسطہ اسے دوا لادو وہ مر رہی ہے۔ ایک لمحے کے لیے وہ دونوں لڑکیوں کے جھرمٹ میں پھنس چکے تھے فضلو تین چار کو دھکا دیا اور باہر نکل گیا اردگرد نظر ڈالی کچھ نظر نہ آیا۔تکاسی ڈاڑھی کو انگلیوں سے چڑھایا۔۔۔ ایسے کیوں لگا جیسے کوئی یہاں سے بھاگا ہے۔ اوئے فیصل گنتی پوری کر۔ رونے والی لڑکی سمیت تمام لڑکیاں بھاگ کر اندر چلی گئیں۔ فضلو یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ گارڈ  باہر آیا"پوری ہے گنتی! وہ چلے گئے۔
شبیر باہر نکلنے لگا تو اسے دیکھ کر فضلو "کدھر کی تیاری ہے؟ شبیر اپنی بڑھی ہوئی شیو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے"حمام کی طرف جانا ہے" فضلو"اچھا اچھا۔۔۔میں تمہیں ڈھونڈ رہا تھا نظر نہیں آئے کافی دیر سے۔۔۔۔!!
شبیر "یہیں تھا میں تو" وہ باہر نکلا تو فضلو دو لڑکوں کو بلا کر اوئے اسکا پیچھا کرو!!
_________
شبیر: کال ملاتے ہوئے پیچھے دیکھ کر ایک سائیڈ کو مڑ گیا۔ بھاگنے لگا۔۔۔۔!! بیل بجی۔۔۔پھر بجی رضیہ چلتے چلتے رک گئی فون اٹھا کر کون؟ آواز آئی "شبیر "
رضیہ "آنسو صاف کرتے ہوئے " میں کچھ دیر تک آپ سے رابطہ کرتی ہوں۔ شبیر" تم تین سو لوگوں کی جان بچا سکتی ہو!! رضیہ کچھ کہہ بغیر کال کاٹ دی!
شبیر" گلیوں میں گھس کر غائب ہو گیا۔ وہ دونوں لڑکے" ارے یار وہ تو چھلاوا نکلا اب کیا کریں " دوسرا بولا"چپ کر ہم فضلو سے کہیں گے وہ حمام میں ہی چلا گیا۔ پہلا" جان پیاری ہے کہ نہیں " دوسرا" اگر سچ بول دیا تو بھی نہیں چھوڑیں گے۔
آو واپس چلتے ہیں
 ______
ڈور بیل بجی:سرخاب لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ شیلو بھاگتے ہوئے اسکا دوپٹہ چادر سے نیچے لٹک رہا۔ سرخاب "شیلو ماسی دوپٹہ اٹھائیں ۔ دوپٹہ سمٹتے ہوئے۔" دارو تم "اسے دیکھتے ہی چیخی!! گلے ملی اور خوشی کا اظہار کیا۔ دارو" بت کی طرح اسکے سامنے کھڑی تھی۔ شیلو" تمہیں کیا ہوا ہے؟ بازوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے  ہوئے" دارو" مجرم ہوں تمہاری رجی کی۔۔۔اسکی عدالت میں نہیں کھڑی ہوسکتی اسلیے تمہاری عدالت میں آئی ہوں۔ شیلو"کیا کیا تم نے رجی کے ساتھ۔۔۔اسکا گریباں پکڑ لیا۔ دارو رونے لگی۔ دونوں ہاتھ اٹھا کر نفی میں ہلانے لگی۔ کچھ نہیں اسے بیٹی بنا کر پالا پوسا۔۔۔ پڑھایا لکھایا۔ شور سن کر سرخاب باہر آگئی۔شیلو" جھنجلا کر میری رجی زندہ ہے۔۔۔۔خوشی سے بانچھین تو کھل گئی مگر برابر آنسوؤں کی جھڑی بھی قائم تھی۔ دارو اسے سب کچھ بتاتی ہے کیسے صابر نے اسے دھوکا دیا تم سے کہا رجی مر گئی۔اسکا خیال تھا کہیں اسکی وجہ سے تم تنزیلہ اور سویرا کا خیال نہین رکھو گی۔ اور مجھ کہتا رہا رجی کو بڑا ہونے دو کیوں کہ شیلو کا سابقہ شورہر اسکے تعقب میں ہے۔مگر جب رجی بڑی ہوگئی تو تمہیں کھونے کے ڈر سے خاموش رہا۔ شیلو"کہاں ہے میری بیٹی۔۔۔!؟؟

دارو: اسکا کارڈ دیتے ہوئے۔۔۔۔مجھے معاف کردو۔۔۔رجی شاید مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ جاتے ہوئے میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا ۔مگر میں نے شادی نہیں کی کیونکہ رجی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی۔ وہ گھر سے نکل گئی اسکی چادر زمین پر گھسیٹ رہی تھی۔ شیلو۔۔۔خوشی سے میری بیٹی میری شہزادی۔۔۔۔!! سرخاب جو سب سن چکی تھی۔شیلو سے گلے ملی شیلو ماسی بہت بہت مبارک ہو۔ سرخاب سے پیار کیا چھوٹی بی بی بہت شکریہ ۔ زمرد بالکونی میں کھڑا سرخاب کو دیکھ خوش ہو رہا تھا۔
دارو سڑک کے بیچوں بیچ یوں چل رہی تھی جیسے طلسم ہوش ربا کے آثر میں آگئی ہو۔ کچھ دور پہنچی تھی کہ ایک تیز رفتار پک اپ سے ٹکرا گئی۔ ڈرائیور اترا اور دیکھا خون سے لتھپتھ بڑھیا اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی۔ اس نے ارد گرد دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ وہ گاڑی لے کر بھاگ گیا۔
دارو زخموں سے چور  بے یار و مددگار سڑک کے بیچ پڑی تھی۔

______
رضیہ نے کچھ دور جا کر منہ دھویا" شبیر کا لہجہ اور بات اسکے دماغ میں گھونج رہی تھی۔زمین پر گر گئی اور ہونٹ سے خون بہنے لگا۔زخم پانی سے دھویا۔۔۔۔۔۔ اس نے فورا سے فون نکالا۔۔
شبیر بہت شکریہ داود مجھے تم سے یہی امید تھی! مگر ایس پی صاحب کو بتائے بغیر تم مشکل میں پھنس سکتے ہو!
داود"اسکا حل ہے میرے پاس۔۔۔۔۔شبیر ٹھیک ہے داود پھر میں تمہیں انفارم کردوں گا۔ رضیہ کی کال آتی دیکھ کر۔۔۔۔اللہ تیرا شکر ہے- تیسری بیل پر رضیہ "اٹھاو میرا فون!!  شبیر۔۔۔۔۔سلام کے بعد مجھے یقین تھا آپ ضرور کال کریں گی۔ رضیہ"بتاو کیا مسئلہ ہے؟؟ شبیر نے اسے ملنے کی ریکویسٹ کی جو اس نے بنا کسی تردد کے قبول کر لی۔
_______
اکبر خان۔۔۔۔۔
سگریٹ پیتے ہوئے۔۔۔۔۔ میں آج واپس جا رہا ہوں! مگر شاداب کے خاص مہمانوں سے ملے بغیر نہیں جاون گا۔
سر کام ہوجائے گا۔ مگر معاوضہ چاہے۔۔!!
اکبر خان"وہ سونے کی کان ہے۔ اور چابی ہمیں مل گئی ہے۔ سر کون؟؟ اکبر" یاسر میرے بچے روبینہ۔۔۔۔ہاہاہاہا" یاسر"ہاہاہاہا۔۔۔اب آیا نا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔
_____
زمرد" کمرے سے نکلا تو شبنم عین اسکے روم کی طرف نظریں جمائے کھڑی تھی۔ وہ کافی حیران ہوا 'انہیں کیا ہوا' چھوٹی ممانی خیریت کس کا انتظار ہو رہا ہے؟
شبنم شرمندہ ہوگئی" بھانجے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ سوچا بیسٹ آف لک کہہ دوں" زمرد" بہت شکریہ چھوٹی ممانی!!
شبنم مسکراتے ہوئے بالکونی کی طرف چلی گئی۔
زمرد" سیڑھیوں سے اتر رہا تھا اسے دیکھ کر سرخاب صوفے سے اٹھی اور اسکے قریب آگئی۔ زمرد" ممانی جان کہاں  ہیں؟ سرخاب" مما مدرسہ کے بچوں کے لیے کھانا لے کر گئیں ہیں۔ زمرد مسکراتے ہوئے" کیا اجازت ہے مجھے" سرخاب " بلکل بھی نہیں" زمرد" تھوڑی دیر کیلئے" سرخاب " اک لمحے کے لیے بھی نہیں " زمرد" ایسے کہو گی تو سچ میں رک جاون گا" اسے کندھوں سے پکڑ کر اسکا منہ اپنی طرف کیا۔
"سنو میرا انتظار کرو گی؟
سرخاب: اپنے کندھے سے اسکا ہاتھ تھام کر " اتنی شدت جیسے سمندر کی لہریں چودہویں کے چاند کو چھونے کے لیے پورے سمندر کو  بےتاب کر دیتیں ہین۔
زمرد" دایاں ہاتھ اسکے چہرے کے قریب گھما کر اپنے دل پر رکھ لیا۔اس دل کی ملکہ محبت کے ساتھ دعاون کے سائے میں رخصت کرو۔ سرخاب "آپ جہاں جائیں کامیابی آپکو خود ڈھونڈ لے۔ نگاہین چار کرتے ہوئے۔ آمین! آنکھیں مچ لیں۔زمرد" کبھی اکیلا مت چھوڑنا اپنے زمرد کو۔۔۔۔!
اتنے میں شیلو آئی چھوٹے صاحب یہ کارڈ؟ زمرد" یہ کیا ہے شیلو ماسی؟ شیلو باہر ایک صحافی آئی تھی کہہ رہی تھی عباس صاحب سے بہت ضروری کام ہے۔ زمرد نے کارڈ کو دو تین باہر الٹا پلٹا۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے آپ جائیں میں دے دوں گا۔
سرخاب" آپ جانتے اسے؟ سوال کے ساتھ ساتھ اسکی نظروں میں شک تھا۔

زمرد" ہاں جرنلسٹ ہے اس سے زیادہ کچھ خاص نہیں" مگر صاف نظر آرہا تھا کہ وہ بے اطمنان ہوچکا تھا۔ یہ پہلی بار تھا جب وہ اسے باہر تک چھوڑنے گئی۔ شبنم نے مسیج ٹائپ کیا" میرا پیارا بھانجا آج خوب تیار ہوکے نکلا ہے۔۔۔ گاڑی کا نمبر۔۔۔!! اور سینڈ ٹو اسلم کر دیا۔
________
رضیہ" ٹیبل پر کہنی رکھ کر بیٹھی تھی سامنے بیٹھا شبیر اسے دیکھ رہا تھا جب وہ اسے دیکھتی۔تو وہ نظریں چرا لیتی۔ بولی"میں ہر صورت تمہارا ساتھ دونگی۔
شبیر" مسکرایا۔۔۔۔۔یہ ہوئی نا بات۔۔۔چلیں پھر ہاں۔۔۔ اسکے فون کی بیل بجی بولا"  ایکسکیوزمی! رضیہ نے ہاتھ اٹھا کر "ضرورت نہیں!  مسکراتے ہوئے گردن جھکائی اور دوسری طرف ہو گیا۔ رضیہ عجیب شخص خواتین کی بہت عزت کرتا ہے۔ پرس سے موبائل نکالا تو بیل بجی۔۔۔۔ہیلو کون؟ مسں رجی میں عباس کا بھانجا "زمرد"
رجی۔۔۔۔نے جب فون دیکھا تو" او ہیلو مسٹر علی اپنی اوقات میں رہو!  زمرد" دیکھو تم غلط کر ہی ہو!
رضیہ"پولیس کو رپورٹ کردوں گی۔ زمرد" میں محروم صدیق کا بیٹا اور عباس بلڈرز کے چیئرمین کا بھانجا ہون" رضیہ نے خوف میں آکر کال ڈراپ کی اور فون سوئچ آف کر دیا" لمبی سانس بھری"یہ تو مجھے زندہ دفن کر دے گا۔  اسکی نظروں میں پھر وہی سین گردش کرنے لگا۔جب اس نے رضیہ کا ہاتھ تھام کر اسے بچایا تھا وہ اپنے ہاتھ کو بے دھیانی میں چہرے کے قریب لائی اور مسکرانے لگی۔ آنکھیں بند کیں اور لمبی سانس لی۔  اتنے میں شبیر آکر اسکے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے کہان کھو گئیں ہیں۔ رضیہ آنکھیں پھاڑتے ہوئے۔۔مسکرائی یہیں ہوں بس کسی کو محسوس کر رہی تھی۔ وہ اٹھ کر چل پڑی۔ اسکی سن کر شبیر بہت خوش ہوا۔
_____
زمرد کورٹ جا رہا تھا۔ گاڑی کے سامنے دو بائیک آگئیں ۔ اس نے مشکل سے بریک لگائی۔ ایک جس پر دو آدمی سوار لمحے بھر میں منظر سے غائب ہو گئ۔ زمرد نے فورا سے گاڑی میں پڑی فائل اپنی شرٹ کے نیچے چھپا لی۔ بائیں جانب سے کافی ہٹا کٹا شخص پستول دکھا کر شیشہ کھولنے کا اشارہ کرتے ہوئے۔ زمرد نے بازو پھیلا کر شیشہ کھولا۔۔۔۔! وہ بولا زمرد میاں کدھر کی تیاری ہے۔پستول ہلا کر۔۔۔۔ سیدھا سر کا نشانہ لے لیا!!میرا نام بھی پتہ ہے اسے۔۔۔اپنے بٹوے سے اپنا کارڈ نکال کر یہ دیکھ لو!  زمرد کو خیال آیا ۔۔۔۔۔اسکی گاڑی گھر سے نکلتے ہی رک گئی۔ اس نے نکل کر زور سے پاوں مارا تو اتنے میں آواز آئی " برخوردار کیا ہوا؟ زمرد پیچھے مڑا "دانش انکل" بغلگیر ہوتے ہوئے "آپ کب آئے۔ دانش "بیٹا آنا تو ذرا لیٹ تھا مگر چھوٹی نے کہا پیپر کے بعد پھپھی کے پاس رکنا ہے تو میں پہلے چلا آیا۔زمرد"صحت کی کے بارے بری خبر سنی تھی۔دانش"الحمداللہ!! دیکھو فٹ ہوں تم کہان جارہے تھے؟ زمرد"دانش انکل کورٹ۔۔ !! دانش نے آگے بڑھ کر تھپکی دی۔ اللہ پاک تمہارا حامی و ناصر ہو۔ بیٹا  تم یہ گاڑی لے جاو۔ میں تمہاری گاڑی پر تمہاری  آنٹی کو شگفتہ باجی کے ہاں لے جاون گا۔ زمرد"انکل آپ تکلف۔۔۔ وہ پیچھے مڑا تو دانش گیٹ کھول کر گاڑی نکال لایا۔ نکال کر چابی اسے تھماتے ہوئے ۔۔۔۔۔چلو بیٹا جلدی کرو۔ زمرد"دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرتے ہوئے۔ بہت شکریہ انکل
!
اتنے میں اسلم نے کسی کو کال کی اس لڑکے کا نام تو علی ہے۔ گاڑی کا نمبر بھی میچ نہیں کر رہا۔۔۔۔۔۔ابے ہاں فوٹو شکل سے میچ کر کررہی ہے۔ زمرد"اسے دیکھ کر مسکراتے ہوئے میں جاون کیا۔
اسلم"فون بند کیا" اتنی جلدی ہے کیا ذرا یہ تلاشی" وہ سر جھکا کر گاڑی کا گیٹ کھولنے لگا۔زمرد نے پستول والا ہاتھ مچھوڑ کر پستول چھینا وہ باہر سر نکالنے لگا تو اسنے سر پر ہٹ کر کے اسے بیہوش کردیا۔ خود گیٹ کھول کر گاڑی کے پیچھے سے ہوکر نکل گیا۔ موبائل گاڑی میں ہی بھول گیا۔تین اور آدمی اسکے پاس سے گزر کر گاڑی کے قریب آئے۔ اسلم اسلم۔۔۔یہ تو بہوش ہے۔ اسی سفید شرٹ والے لڑکے کا پیچھا کرو بھاگو۔۔۔اتنے مین زمرد گلی کا موڑ مڑ چکا تھا۔انہوں نے زمرد کا پیچھا شروع کردیا۔
________
شبنم کال ملاتے ہوئے ہاں سب چلے گئے ہیں۔ شاداب پرفیوم کی بوتل کو سونگھتے ہوئے" میری جان تم کتنا خوبصورت بولتی ہو!!
شبنم نے فون بند کر کے " اخ تھو!!
سکینہ" باہر سے آئی تو آتے ہی " اب تو ٹانگیں جواب دے گئیں ہیں۔ شیلو ایک کپ چائے ہی لادو!
شبنم " بھابی میں لاتی ہون! سکینہ : شبنم تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟ وہ اسے حیرانی سے تکتے ہوئے۔ شبنم "بھابی میرا دل تو نہ توڑیں آپ!اب اتنی بھی پھوہڑ نہیں ہوں" سکینہ " غصہ نہ ہو بنادو اگر تمہاری خوشی اسی میں ہے تو۔
شبنم"کچن میں گئی تو شیلو سینڈوچ نکال کر پلیٹ میں رکھ رہی تھی۔ شبنم :شکر ٹرے میں رکھنے لگی۔ شیلو اسے دیکھ کر" یقینا کوئی مقصد ہوگا" شبنم"شیلو یہ چائے کس کے لیے؟ شیلو" گارڈز کے لیے چائے۔ اس نے آنچ آہستہ کی اور کپ میں پڑی چائے اور سینڈوچ والی پلیٹ ٹرے میں رکھی میں ذرا سرخاب بی بی کو چائے دے آون۔ شبنم" ہاں ضرور"
جب وہ آئی تو آتے ہی چائے کپ میں ڈالی پی کر شبنم کو دیکھنے لگی۔ پھر بڑے اطمنان سے  دو دو چمچ شکر چائے میں ملائی اور لے کر چلی گئی۔
شبنم۔۔۔ہنستے ہوئے بےوقوف عورت!!!
وہی شکر اٹھا کر شبنم چلو آج اسی بابرکت شکر سے اپنی بھابی جان کو بھی مستفید کرواو۔ تین کپ چائے ڈالی ایک میں شکر نہیں ملائی باقی دو میں ملا دی۔ شیلو: باہر سے آرہی تھی اتنے میں فون کی گھنٹی بجی" سکینہ نے مسکراتے ہوئے" وعلیکم لسلام ثاقب" الحمداللہ " بھابی میں آنا چاہتا تھا مگر آپکو پتہ ہے پراجیکٹ کی وجہ سے ناممکن ہے" سکینہ " دل چھوٹا نا کرو اللہ سے دعا کرو وہ ہماری مدد فرمائے۔ امین بھابی
!
شیلو" کچن میں گئی تو شبنم اسے چائے کا کپ دیتے ہوئے سوچا آج تمہارے لیے نکال لوں ! شیلو شبنم کی اس حرکت پر تو دھنگ ہی رہ گئی۔ مشکل سے بول سکی شکریہ چھوٹی بیگم صاحبہ! بڑی بیگم صاحبہ ثاقب صاحب کا فون سن رہی ہیں۔ شبنم کے رنگ ہی اڑ گئے۔ وہ ٹرے لے کر بھاگی۔ شیلو "اسے کیا ہوا" چلیں ہمیں کیا کرسی پر بیٹھ کر چائے کی چوسکی  لینے لگی۔ سکینہ کو جب چائے پکڑائی تو اسنے چوسکی لیتے ہوئے بڑی خوشی سے" تمہاری بیوی بہت اچھی چائے بناتی ہے۔ ثاقب" بھابی کون
۔۔۔۔!
سکینہ نے دوبار ایک چوسکی لی" اتنی جلدی بھول گئے ہو اپنی بیوی کو؟؟ لگتا ہے مجھے شبنم کو بتانا پڑے گا۔۔۔۔شبنم کے ہاتھ پاوں پھول گئے۔ بھابی میں تو آتے ہوئے اسے طلاق دے کر آیا تھا۔ وہ اچھی عورت نہین ہے۔ کیا وہ گھر سے گئی نہیں؟؟؟ سکینہ کا سر چکرانے لگا " کیا۔۔۔۔اپنا سر پکڑ کر شبنم کی طرف چائے۔۔۔چا چائے۔۔۔۔ میں۔۔۔ کیا تھا۔۔کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا۔ وہ اپنے ہوش کھو چکی تھی اٹھ کر شبنم کی طرف لپکی اور فرش پر اوندھے منہ جا گری ملازموں کو آوازین دینے لگی مگر کوئی اسکی آواز پر لبیک نہین کہہ رہا تھا۔ثاقب" بھابی۔۔۔۔۔افف کیا ہوگیا بھابی وہ چیخ رہا تھا۔ شبنم نے فون ملایا تو فورا سے چار لوگ گھر میں گھسے سکینہ بے بس زمین پر پڑی تھی۔ انہیں دیکھ کر اٹھنا چاہا مگر "سرخاب" زور سے چیخی اور گرگئی۔ سرخاب باہر نکلی تو اپنی ماں کو بیہوش دیکھ کر مما۔۔۔۔مما آکر اس سے لپٹ گئ" شیلو، صابر، چچا، گارڈز،،، گارڈ"  وہ چارون سرخاب کو کھینچتے ہوئے لے گئے۔ اسکی چیخیں سن کر ثاقب کو کسی چیز کی ہوش نہ رہی وہ بھاگتے ہوئے اپنی لیب سے نکل گیا سامنے گارڈ تھا اسنے روکا تو اس سے ہاتھا پائی ہوئی اسے زمین پر گرا کر  گزر گیا۔ عباس کو کال کی اسکا فون بند تھا زمرد کو کی فون نہین اٹھا رہا۔۔۔۔کبھی دائین مین فون پکڑتا کبھی بائیں۔۔۔پھر اسے رجب کا خیال آیا۔ رجب اپنے دوست کے ساتھ تھا۔ فون کان سے لگاتے ہی چچا۔۔۔۔۔ چچا کیا کہہ رہے ہین" سر۔۔۔سر وہ بنا کچھ بولے بھاگ نکلا۔۔۔۔۔۔ اسکا دوست اسکے پیچھے بھاگا مگر وہ اس تک نہ پہنچ سکا۔

۔۔۔۔۔
شبنم نے اپنا سامان اٹھایا اور ٹیکسی پر بیٹھ کر چلتی بنی۔
☆☆☆☆

 

Saima Munir
About the Author: Saima Munir Read More Articles by Saima Munir: 14 Articles with 10904 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.