نام تو پتہ نہیں اس کا کیا تھا مگر۔سب چھوٹے بڑے اسے کھبا
سائیں کے نام سے پکارتے تھے ۔وڈیرے پیر احمد بخش کی محل نما حویلی کے صحن
کے کونے میں پیپل کے درخت کے نیچے بچھی ادھڑے ہوئے بان کی چارپائی اس کا
مستقل ٹھکانہ تھا ۔وہیں اسے کوئی آتے جاتے روٹی پانی پکڑا دیتا ۔سنا تھا اس
کی ماں اسے جنم دیتی ہوئی دنیا سے گذر گئی باپ کا ایک ماہ پہلے ہیضے کی وبا
نے کام تمام کر دیا تھا ۔ایک دادی کا آسرا تھا جس نے اسے پالا پوسا وہ اور
دادی دونوں پیر احمد بخش کے غلام ابن غلام تھے ۔دادی سارا دن اپنی بوڑھی
ہڈیوں کو حویلی کے مختلف کاموں میں گھستی رہتی ۔اور وہ بان کی چارپائی پر
اوندھا سیدھا بیٹھا رہتا ۔باہر نکلی ہوئی آنکھیں, لمبوترا چہرہ,باچھوں سے
بہتی رال آستینوں سے پونچھتا منھ سے غوں غاں کے سوا کچھ نہ نکلتا بائیاں
ہاتھ اور ٹانگ دائیں ہاتھ اور ٹانگ کی نسبت کمزور تھی ۔شاید اسی ہئیت نے ان
کا نام کھبا سائیں رکھ دیا تھا ۔وہ سارا دن حویلی کی چہل پہل تاکتا رہتا
۔رنگین لہراتے آنچل اسے متوجہ کرتے ۔شام تک سوتے جاگتے دادی کی آمد کا
منتظر رہتا مغرب کے وقت دادی آتی اور اس کو سہارا دے کر کوٹھری میں لے جاتی
جو ایک احاطے میں سب کمیوں کے لیے بنائی گئی تھیں۔ذرا بڑا ہوا تو لکڑی کے
سہارے سے چلنے لگا ۔بظاہر وہ بہت بے ضرر دکھائی دیتا تھا مگر عمر کے ساتھ
ساتھ اسکی عقل بڑھ رہی تھی گو کہ وہ بول نہیں سکتا تھا مگر سنتا دیکھتا اور
سمجھتا سب تھا ۔پیر احمد بخش کو دیکھ کر اسکی آنکھیں چمکنے لگتیں ۔ایک بار
وہ غلطی سے پیر صاحب کے کمرہ خاص میں جا پہنچا ۔سوڈھل جو پیر صاحب کا دربان
خاص تھا کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا اور اندر پیر صاحب چلہ خاص میں مصروف
ملنگی مائی کی جوان بیٹی کا جن نکالنے کی کوشش کر رہے تھے ۔اس نے ذرا
دروازے کو دھکیلا ہی تھا کہ نوراں بکھری حالت میں دوپٹے سے بے نیاز حواس
باختہ اس سے آٹکرائی وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہیں ڈھے گیا نوراں نے
اسے سہارا دے کر اٹھایا اور باہر کی جانب بھاگی ۔ہانپتے کانپتے پیر صاحب
دروازے میں وارد ہوئے غیض و غضب بتا رہا تھا کہ نواراں کا جن پیر صاحب پر
غالب آگیا تھا اور ان کے جنتر منتر ادھورے رہ گئے تھے۔
کھبے سائیں کو دروازے پہ یوں ایستادہ دیکھ کر پیر احمد بخش کے چہرے پہ
خشونت چھا گئی ۔"ارے چھورے یہاں کیوں کھڑا ہے"؟وہ چلایا سوڈھل کدھر مر گیا
رے ۔کھبا سائیں گھبرا گیا اور غوں غاں کرنے لگا ۔پیر صاحب نے غصے سے دروازہ
بند کیا گویا اس کے منھ پہ دے مارا ہو ۔کھبا سائیں اپنی سوٹی سنبھالتا
پرمعنی انداز میں سر ہلاتا اپنے گوشہ عافیت کی طرف بڑھ گیا ۔
مرادیں مانگنے والوں کے ہجوم میں پیر سائیں اونچے تخت پہ براجمان تھے آج
جمعرات تھی باہر دیگیں کھڑک رہی تھیں ۔فطرت انسانی بھی کتنی عجیب ہے غریبوں
کی دی ہوئی جمع پونجی جو نذر و نیاز کے کھاتے میں تفاخر سے لی جاتی اس
مجبوری کے عوض چاول کے چند دانے ہر جمعرات شاپروں اور جھولیوں میں ڈال کر
انہی پر احسان کیا جاتا۔شاید طاقتور کا یہ کلیہ حکمرانوں سے لیکر خواص تک
سب میں ایک ہی طرح کام کرتا ہے ۔نوراں نےچاولوں کی پلیٹ کھبے سائیں کے آگے
رکھی اور ایک سلور کے ٹیڑھے سے گلاس میں نلکے سے تازہ پانی بھر لائی
۔اٹھارہ سالہ کھبے نے جو اپنی ٹوٹی چپل کو کپڑے کی کترن سے باندھنے کی
ناکام کوشش کر رہا تھا نظر اٹھا کر نوراں کو دیکھا ۔سائیں وہ منمنائی میرے
لیے دعا کرنا تو بھی تو اللہ لوک ہے اور ان شیطانوں سے بہتر ہے ۔اس نے
دھیرے سے کھبے کے ہاتھ سے چپل لیکر زمین پر رکھتے ہوئے کہا ۔کھبے نے جانے
کس سوچ کے تحت اس کے سر پہ ہاتھ رکھ دیا ۔نوراں تو خوشی سے دیوانی ہوگئی
۔گویا اپنی مراد پالی ہو ۔سائیں دعا کر حاتم کا ابا میری اس سے شادی کے لیے
مان جائے ۔اور ادی سکینہ کی گود ہری ہو جائے ۔وہ گویا سر گوشی میں بولی ۔تب
تک کھبا چاولوں کی مٹھیاں بھر کر کھانے میں مگن ہو چکا تھا کچھ چاول منھ
میں اور کچھ باہر گر رہے تھے جنہیں وہ اپنے کمزور مڑے ہاتھ سے منھ کے اندر
دھکیل رہا تھا۔
پیر سائیں نے سوڈھل سے جانے کیا کہا تھا شاید وہ مفت خورا اب ان کی آنکھ
میں کھٹک گیا ۔سوڈھل اسے بھینسوں کے باڑے میں لے آیا اور اسے انکو چارہ
ڈالنے اور پانی پلانے پہ تفویض کر دیا ۔آخر وہ ان کا غلام ابن غلام تھا کب
تک فارغ بٹھا کر کھلاتے ۔نوراں کی حاتم سے شادی اور سکینہ کے ہاں بارہ برس
بعد بیٹے کی ولادت گویا ایسا معجزہ تھا کہ جس نے نوراں کو کھبے سائیں کا
معتقد کردیا ۔اس طرح کھبے سائیں کے پہلے تین مرید نوراں,سکینہ اور حاتم
وجود میں آگئے بات منھ سے نکلی اور کوٹھوں چڑھی مگر دبے لفظوں میں۔کسی میں
اتنی ہمت تھی کہ پیری کا مرتبہ کسی اور کو دیتا ۔نوراں نے رات کے اندھیرے
میں لفافے میں تھوڑی سی مٹھائی اور حفیظے کو حاتم کے ساتھ بھیجا کہ دعا
کروا آئے حفیظے کی بھینس بڑی بیمارتھی اور اس کے سوا اس کا زریعہ آمدنی بھی
کچھ نہ تھا دن بدن سوکھتی جارہی تھی دودھ کے سوتے کیا خشک ہوئے انکے گھر
رزق کے لالے پڑ گئے دودھ نہ بیچتا تو کھاتا کہاں سے ۔
سائیں اپنی کوٹھری میں ڈھیلی چارپائی پہ اوندھا پڑا تھا دن بھر کی مشقت نے
اس کو تھکا دیا تھا ۔حاتم کے جگانے پہ مٹھائی دیکھ کر خوشی سے پھولے نہ
سمایا ۔اس دوران حفیظے کی روداد بیان کی گئی اور دعا کا کہا گیا ۔سائیں نے
اپنی سرخ آنکھیں آسمان کی طرف اٹھائیں اور قبولیت کا اذن دے دیا ۔
خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ حفیظے کی بھینس نہ صرف تندرست ہو گئی بلکہ اس کے
دودھ کی مقدار بھی بڑھ گئی ۔مریدوں کو یہ سودا بہت بھایا کہ نہ ہینگ لگے نہ
پھٹکری اور رنگ بھی چوکھا ۔اور دوسری طرف پیر احمد بخش کے حواری تو نذر
نیاز کے بغیر بات ہی نہ سنتے دکھوں کے مارے انہیں وسیلہ نجات سمجھتے ہوئے
ان کی قدموں کی دھول چاٹنے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے تھے۔مگر اب کچھ کایا
کلپٹ ہو رہی تھی ۔کھبا سائیں صاف ستھرے سفید کرتے شلوار میں ملبوس جو کسی
معتقد نے چپکے سے اسے نیازمندی دکھاتے ہوئے دیا تھا, انسان کا بچہ لگ رہا
تھا ورنہ لیرے لیرے کپڑے تو کمیوں کی پہچان تھے اگر کچھ بہتر ملتا بھی تو
اترن کے سوا کیا ہوتا۔
سوڈھل ہاتھ باندھے پیر سائیں کے سامنے کھڑا تھا ۔منشی سہ بار عوامی نوازشوں
کی گنتی کر چکا تھا اس کا چہرہ مایوسی کا شکار تھا ۔"ارے بابا آخر نذر نیاز
میں کمی کیوں آرہی اور مرید کدھر مرے ہوئے ۔لوگوں کے دکھ کم ہو گئے ہیں یا
تم سب نامرد ہو گئے ہو" ؟ پیر سائیں نے حقے کی نال پرے ہٹاتے ہوئے سوڈھل کو
گھورا ۔"نہ سائیں ہم اپنا کام بروبر کر رہے ہیں پتہ نہیں اب لوگ کم آنے لگے
ہیں اور اگر آتے بھی ہیں تو ان کے ہتھ خالی ہوتے ہیں "سوڈھل نے اپنی صفائی
پیش کرتے ہوئےکہا۔"ہمم اعلان کرا دو اگلے ہفتے دادا سائیں کا عرس ہے مزار
کو عرق گلاب سے دھونا ہے اور گاؤں کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے نذرانے لے
کر آئیں"پیر سائیں نے نیا نکتہ نکالا ۔ابھی گفتگو جاری تھی کہ رحمتاں
ہانپتی کانپتی دروازے پہ دستک دینے لگی ۔پیر سائیں نے سوالیہ نظروں سے اسے
دیکھا "کیا قہر نازل ہوا ہے تجھ پہ کیوں بھاگی آ رہی ہے؟"
"سس سائیں وہ کھبے سائیں کی دادی مر گئی ہے شوہدی ترہے ڈینھ سے بیمار تھی
۔وڈی سائن نے پیغام بھجوایا ہے اس کا خفن دفن کا انتظام کر دیں "۔
دادی کیا گئی کھبا سائیں تنہا ہو گیا وہ بولایا بولایا پھرتا اور دادی کی
کچی قبر پر بیٹھا مٹی کو یوں سہلاتا جیسے دادی کے جھریوں بھرے چہرے سے
تقدیر کی سلوٹیں دور کر رہا ہو۔آنسو اور بے آواز سسکیاں اس بات کی غماز
تھیں کہ اسے دادی سے بہت محبت تھی ۔رات گئے جب بھوک نے پیٹ میں مروڑ اٹھائے
تو وہ خود کو گھسیٹتا ہوا قبرستان سے چلا آیا حویلی کی طرف جانا چاہتا تھا
مگر اسوقت کس نے اس کو کھانا دینا تھا اس کی بھوک کی پروا کرنے والی تو اس
سے اور خود سے بے نیاز ہو گئی تھی ۔وہ کچی گلیوں میں پھرتا رہا سرشام
اونگھنے والے گاؤں میں سکوت چھایا ہوا تھا ۔کبھی کبھار کتوں کے بھونکنے کی
آواز آ جاتی اور پھر خاموشی۔بھوک نے بے تاب کیا تو نوراں کے گھر کا دروازہ
جا بجایا ۔لکڑی کے دروازے پر دھپ دھپ کی آواز نے خاموشی میں ارتعاش سا برپا
کر دیا ۔"کون ہے اسوقت آیا بابا ماٹھ تو کرو "۔حاتم کی غنودگی بھری آواز
ابھری اور کنڈی نیچے گرنے کی آواز آئی ۔اس نے ہاتھ میں پکڑی لالٹین کو بلند
کیا تاکہ پہچان سکے ۔"ارے کھبا سائیں تم آجاؤ آجاؤ .اری نوراں تکڑی اٹھ
سائیں آیا ہے ۔ادھر آجاؤ سائیں بیٹھو خیر اے"؟حاتم نے نوراں کو آواز لگائی
اور سائیں کو سہارا دے کر چارپائی پہ بٹھایا۔سائیں نے پیٹ پہ ہاتھ پھیرا
اور نوالہ بنانے کا اشارہ کیا ۔اوہ حاتم سمجھ گیا ۔نوارں مانی ٹکر کھنڑیں آ
سائیں کو بھک لگی ہے شاید ۔سو وہ رات سائیں نے حاتم کے گھر گذاری ۔دن بھر
وہ پھرتا رہا اور شام ڈھلے نوراں کے گھر آجاتا اور روٹی کھا کر ایک کونے
میں پڑ جاتا۔
کھبے کی جی میں جانے کیا دھن سمائی کہ قبرستان کے ایک کونے میں ڈیرا ڈال
لیا نیم کے گھنے پیڑ کے نیچے کچی زمین پر درخت کی شاخ سے شاید اپنے مقدر کی
لکیریں مٹاتا اور کھنچتا رہتا ۔چند بچے ادھر سے گزرے تو تجسس کے مارے پاس
آگئے ۔سائیں یہ تمہارا گھر ہے؟نوعمر بالی نے اس کے اس جھونپڑے پہ نظر ڈالی
جہاں اس نے چار لکڑیاں زمین میں دبا کر ان پر ایک بڑی سی پرانی چادر ڈال
رکھی تھی ۔اس کے نیچے ایک ٹین کا صندوق تھا جو اسے دادی کے چھوڑے ہوئے ترکے
میں ملا تھا۔اس پرانے صندوق میں بڑے لوگوں کی اترنیں تھیں جنہیں لباس کا
نام دیا جاتا تھا چند جوڑے جن میں کھونچیں اور پیوند لگے ہوئے تھے ۔اور
کھبا سائیں مانند ایاز انکو متاع جاں سمجھتا تھا ۔رفتہ رفتہ گاؤں کے سادہ
لوح لوگوں نے اس جگہ کو سائیں کا ڈیرہ کہنا شروع کر دیا ۔روز کوئی نہ کوئی
ترس کھا کر اسے روٹی پانی پہنچا دیتا۔حویلی سے اس کا رشتہ دادی کے ساتھ ہی
ختم ہو گیا تھا۔سائیں کے لیے لائی روٹی میں اریب قریب کے کتے بھی پیٹ بھر
لیتے تھے ۔چند تو ایسے وفادار تھے کہ اس کے قدم میں لوٹتے تھے وہ بھی انکا
قدر شناس تھا بڑی محبت سے انکا سر سہلا دیتا۔گاؤں کے بچے کبھی کبھار آکر اس
کے پاس بیٹھ جاتے اور اشاروں سے باتیں کرتے ۔بچے اور کتے ہی اسکی زندگی کی
اہم مصروفیت تھے۔
چاند کی چودہ تاریخ تھی ہر طرف اسکی ٹھنڈی چاندنی بکھری ہوئی تھی ۔ایسے میں
سائیں اپنی جھونپڑی کے باہر لیٹا چاند کو تک رہا تھا ۔آج وہ اپنے بارے میں
سوچ رہا تھا کہ اس کا کیا مستقبل ہے بول نہیں سکتا تھا چلتے ہوئے لنگڑاتا
تھا مگر عقل و شعور تو تھا لوگوں کے مزاج اور رویوں کو تو سمجھتا تھا ۔وہ
ماضی کے واقعات یاد کرنے لگا اسے نوراں یاد آئی جس نے پہلی بار تقاضہ دعا
کیا تھا پھر سکینہ اور حفیظا جو اس کے پہلے مرید تھے ۔کیا میری دعائیں قبول
ہوتی ہیں اس نے سوالیہ انداز میں سوچا کیا وہ واقعی اللہ لوک ہے اور سائیوں
کا کام بس دعا کرنا ہوتا تو کیا میں نارمل زندگی نہیں گذار سکتا ؟ ان سب
سوالوں کے گرداب میں اسے نیند نے آلیا ۔اچانک ایک درد بھری چیخ سے اس کی
آنکھ کھل گئی۔
وہ جلدی سے باہر کی طرف لپکا ۔سانول زمین پر پڑا تڑپ رہا تھا۔ کھبے کی نظر
ایک طرف جاتے سانپ پر پڑی جو غالبا فطرت دکھا کر واپس جا رہا تھا ۔کھبے کو
اور کچھ نہ سوجھا اس نے سانول کی پنڈلی میں کھبے ہوئے دو سوراخوں پہ اپنا
منھ رکھ دیا اور زہر چوسنے لگا ۔وہ بار بار یہ عمل دہراتا اور زہر چوس کر
تھوکتا رہا ۔تھوڑی دیر میں سانول کو ہوش آگیا اس کی حالت سنبھل چکی تھی
۔بارہ سالہ سانول اٹھ کر بیٹھ گیا اور ممنون نظروں سے کھبے کو دیکھا ۔کھبا
لمبے لمبے سانس لے رہا تھا غالبا زہر اس کی رگوں میں سرائیت کر گیا تھا
۔سانول نے گھبراتے ہوئے گھر کی طرف دوڑ لگادی ۔اب ابا اببا وہ چلایا سائیں
نے میرا زہر چوس لیا وہ ادھر گرا پڑا ہے۔سانول نے ہانپتے کانپتے اپن باپ کو
سارا قصہ سنایا ۔کریم بخش اس کو ساتھ لے کر باہر لپکا ۔کھبے کی آنکھیں اوپر
چڑھ گئیں تھیں اور چہرہ نیلا پڑ گیا تھا ۔سانسوں کا ربط ٹوٹ چکا تھا ۔کریم
بخش اسے جھنجھوڑتے ہوئے رو رہا تھا ۔کھبا سائیں اس کے بیٹے کی زندگی بچاتے
ہوئے اپنی زندگی ہار گیا تھا۔
ہر طرف ایک رونق سی تھی آج کھبے سائیں کا عرس تھا ۔جن کی منتیں مرادیں پوری
ہوئی تھیں وہ کھبے سائیں کے مزار پر چادریں چڑھا رہے تھے اور کچھ امیدیں
ہاتھ میں تھامے دعا مانگنے آئے ہوئے تھے۔جبکہ کچھ دیر قبل ہی پیر احمد بخش
آب زم زم سے کھبے سائیں کی قبر کو غسل دے کر گیا تھا ۔اور سوڈھل نذر ونیاز
کا حساب کتاب کر رہا تھا۔
ڈھلتا سورج انسان کی اس سیاسی بصیرت کا تماشا ہائے سوز دیکھ کر شرم سے مغرب
کی گہرائیوں میں منھ چھپانے جا رہا تھا ۔
ختم شد
|