چاند اور ستارے


دوسرے نے پہلے کو بد دعائیں دیں۔ پہلے نے تحمل سے سنا اور جواب دیا

اگر روز جزا میزان کا پلڑا میرے گناہوں سے جھک گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے، میں اس سے بھی بد تر ہوں اور اگر گناہوں کا پلڑا ہلکاہو کر اوپر اٹھ گیا تو جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے مجھے کوئی ڈر یا خطرہ نہیں ہے

اس جملے کے پیچھے تقوی ٰ کا پہاڑ ہی نہیں علم کا گہرا سمندر موجزن دکھائی دیتا ہے۔ایسا جواب کسی دوسرے نے نہیں بلکہ اس پہلے نے دیا تھا۔ جسے سابقین میں پہلا خودعالمین کے صادق اور اللہ کے آخری نبی ﷺ نے بتایا تھا۔ یہ وہی شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت معاذ بن جبل ؓ نے اپنی وفات سے قبل کہا تھا علم کو ان کے پاس تلاش کرنا ۔
ان کو خود اللہ کے رسول ﷺ نے 300 کھجور کے درختوں اور 600 چاندی کے درہموں کے عوض عثمان بن العشال سے خرید ا ۔آزادی کا پروانہ حضرت علی بن ابو ظالب نے لکھا اور نام سلمان خود رسول اللہ ﷺ نے رکھا ۔ ان کو اپنے نام سلمان پر فخر تھا مگر جب بات دین کی آئی تو کہا میرا نام اسلام ہے ۔ صاحب تاریخ مشائخ نقشبند نے لکھا ہے کہ کسی نے سلمان فارسی سے پوچھا تھا آپ کا نسب کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا تھا اسلام اور کہا کہ جب ہمارا دین اسلام ہے تو ہمارا سب کچھ اسلام ہے۔ ہمارا دین ہمیں اپنے ماں باپ، بہن بھائی سے زیادہ عزیز ہے

سلمان فارس میں خوشفودان نامی زرتشت کے گھر پیدا ہوئے تو ان کا نام مابہ رکھا گیا۔ اور سولہ سال کی عمر تک انھیں آتش پرستی کی تعلیم دے کر ایک معبد کا نگران مقرر کر دیا گیا۔ علم کی تاثیر ہے کہ وہ اپنے طالب کے اندر مزید علم کے حصول کی آتش کو بھڑکاتا ہے۔اس آتش پرست نوجوان کی آتش بھڑکی تو اس نے شام کا ارادہ کیا۔ خاندان کے لاڈلے بیٹے کو گھر والوں نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ رکے۔ اور شام میں عیسائی راہبوں کے پاس علم حاصل کرتے رہے۔ علم کا اعجاز ہے کہ وہ اپنے طالب پر حقیقت آشکار کرتی ہے۔ شام میں ہی انھیں ادراک ہو گیا تھا کہ اصل کامیابی کا علم اس نبی کے پاس ہو گا جن کے سارے ہی صاحبان علم منتظر تھے۔ انھیں معلوم ہو چکا تھا کہ ان کی آمد یثرب میں ہوگی۔ ان نبی آخر الزمان کی پہچان کی نشانیاں بھی انھوں نے ازبر کر لیں تو یثرب کے ارادے سے بنو کلب کے کاروان کے ساتھ ہو لیے۔ وقت نے انھیں بنو قریظہ کے عثمان بن العشال کا غلام بنا دیا۔
خندق کی کھدائی کا مشورہ دینے والے اس ساسانی پردیسی کہ اہمیت اس وقت کھلی جب مہاجرین نے کہا سلمان ہم میں سے ہے مگر انصار کا صرار تھا سلمان ہم سے ہے ۔ بات اللہ کے رسول ﷺ تک پہنچی تو فرمایا۔ سلمان میرے اہل بیت میں سے ہے یہ ایسا شرف تھا جو صرف حضرت سلمان ؓ کے حصے میں آیا ۔
صحابہ کرام ہمارے قمر نبوت کے نجوم ہیں۔ بات ستاروں کی ہو مگر استعاروں میں ہو تو علم فلکیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ ہر ہر ستارے کی اپنی وسعت ہے۔ آسمان پر اورین بلٹ میں تین ستارے چمکتے ہیں
 
. النقاط1
. النیلم
المنظقہ
یہ تینوں ستاروں کی دنیا دوسرے آسمانی ستاروں سے مختلف ہے۔ ان کی چمک کا انداز ایسا روشن ہے کہ رات کے وقت آسمان کی وسعتوں میں ان کی نشان دہی مشکل نہیں ہوتی۔ روشنی، روشنی ہی ہوتی ہے مگر روشنیوں کے بھی اپنے اپنے رنگ ہوتے ہیں۔ قمر نبوت کے نجوم میں تین نام دوسروں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان ناموں میں:
۔ سلمان فارسی
۔ صہیب رومی
۔ بلال حبشی ۔ شامل ہیں
اللہ کے رسول نے ایک دفعہ چار ناموں کا ایک چارٹ بنایا تو اپنے نام کے ساتھ ان تین پردیسیوں کے نام شامل کیے۔ رسول اللہ کے دنیا سے وصال کے بعدیہ مہاجرین مسلمانوں کے قلوب میں ایسے انصار بن کے رہے کہ حضرت بلال کو مسلمانوں کے خلیفہ یا سیدی سے مخاطب ہوتے تھے تو حضرت سلمان کو مدائن کی فرمان روائی پیش کی جاتی تھی ۔
اصحاب رسول ﷺ ایسے لوگ تھے جن کے دلوں میں اللہ تعالی ٰ نے ایمان ثبت کر دیا تھا (المجادلہ؛؛۲۲) البتہ مسلمانوں پر دین کا یہ قرض باقی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کی روشنی میں قمرو نجوم کے استعاروں کو کھولیں تاکہ تشنگان علم کے قلوب میں ایمان کی رسوخیت کی کونپلیں کھل کر پھول بن جائیں۔

 

دلپذیر
About the Author: دلپذیر Read More Articles by دلپذیر: 135 Articles with 169398 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.