تاریخ عالم آج تک بےشمارتحریکات سےروشناس ہوچکی ہے,آئےدن چشم فلک کونئےنئےناموں سےموسوم عجیب وغریب نظریات اورپروگراموں کی حامل اورطرح طرح کےلوگوں کی قیادت میں کام کرنےوالی تحریکوں سےواسطہ پڑتاہے,اس میں سےکچھ مثبت اورکچھ تخریبی ہوتی ہیں ,انہی رنگارنگ ناموں اورطرح طرح کےنظریات پرمشتمل تحریکات میں سےایک ,,الماسونیہ,,فری میسنری,free masonry بھی ہے..
جس کےطریق کاراورعقائد ونظریات کےمطالعہ کرنےسےایک خطرناک وخوفناک تصویرسامنےآتی ہے……….. فری میسن (Free Mason) یہودیوں کی ایک نہایت درجہ خفیہ تنظیم ہے۔ اس کا قیام 1771ء کو برطانیہ کی کاونٹی لنکا شائر میں ہوا۔ اس کے دفاتر دنیا بھر کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان دفاتر کو یہودی لاجز (Lodges) کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس تنظیم کے پاس کھربوں ڈالرز کے فنڈز ہیں۔ امریکا نے صرف 2014ء میں اسے 3.115 بلین ڈالرز عطا کیے۔ اس کی رکنیت کے عمل کو بڑے پراسرار انداز میں سرانجام دیا جاتا ہے۔ رکنیت کا عمل ڈگری کہلاتا ہے۔ ایک جیسی ڈگری کے حامل افراد صرف اپنے ہم رتبہ لوگوں سے ہی واقف ہوتے ہیں۔ اس تنظیم کے اجلاس اور تمام تر کاروائیاں خفیہ رکھی جاتی ہیں۔ تمام تر گفتگو کوڈ ورڈز میں کی جاتی ہے۔ صرف آراکین ہی ان کو ڈز کو ڈی کوڈ کر کے سمجھ سکتے ہیں۔ ایک آنکھ کا نشان جو دجال کی علامت ہے، فری میسن کی شناختی علامت ہے۔ یہودی فرقوں سمارٹینز، کارائینز، ایسینی ناسٹکٹس، فریسی اور سوقی کو یہ باہم مرتکز کر کے ایک زبردست شیطانی قوت دیتی ہے۔ یہ دنیا بھر میں جاسوسی کرتی اور یہودیوں کے مفادات کو تقویت پہنچانے کے لیے ہمہ وقت سر گرم رہتی ہے۔ اس تنظیم نے گریٹر اسرائیلGreater Israelکا نقشہ پیش کیا۔ عربوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کا ناپاک قدم اٹھایا۔ ہر دہائی میں یہ اپنے اہداف سیٹ کرتی اور بڑی بے رحمی اور سفاکیت کے ساتھ ان کی تکمیل کے لیے کام کرتی رہتی ہے۔ یہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو روند کر صیہونیت کو دنیا بھرمیں فتح مند ی کا پرچم عطا کر تی ہے۔ دنیا کی ہر طاقت ور ریاست کے اندر فری میسن نے نقب لگا رکھی ہے۔
وکٹرای مالڈرن نامی ایک فری میسن نے ’’لیگ آف نیشنز ‘‘بنائی جو بعد میں اقوام متحدہ کی صورت میں دنیا کے منظر نامے پر ابھری تھی۔ یون این او کے 10انتہائی اہم اداروں کے اعلی ترین عہدوں پر فری میسن قابض ہیں۔ اقوام متحدہ کے نیویارک آفس میں 22 شعبوں میں سے 9 پر یہودی اپنا تسلط جمائے ہوئے ہیں۔ یونیسکو کے 11 شعبے مکمل طور پر یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ ایف اے او کی 3 شاخیں یہودیوں کے گھر کی باندیاں ہیں۔ آئی ایل او کے چار شعبے یہودیوں کے غلام ہیں۔ آئی ایم ایف کے 6 سب سے بڑے عہدوں پر یہودی قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ ورلڈ بینک جس نے دنیا کے 176 ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسایا ہوا ہے، سارے کے سارے بڑے عہدے دار فری میسن یہودی ہیں۔ یوں ان ملکوں پر یہودیوں کا تسلط بہت مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہے۔ امریکا کے 85 سب سے بڑے اداروں میں سے 54 پر یہودی بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس طرح امریکا کا 60 فیصد درحقیقت فری میسن کے قبضہ میں ہے۔
اسرائیلی مظالم کے خلاف اب تک 500 سے زیادہ قرار دادیں سلامتی کونسل نے پاس کیں۔ 60 منظور ہوئیں پر کسی بھی قرار داد پر عمل نہ ہو پایا۔ 45 بار اسرائیل کے خلاف ایکشن لینے کی قرارداد کو امریکا نے ویٹو کر دیا، یوں فری میسن ہر بار اسرائیل کو امریکا کی مدد سے درندگی کے وحشیانہ کھیل کے نتائج سے نکال کر لے گئے۔ فری میسن یہودیوں نے 1951ء میں ’’موساد‘‘کو جنم دیا۔ موساد کے آٹھ شعبے ہیں۔ پہلی شاخ کو لیکشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔ یہ دنیا بھر میں یہودیت کی راہ میں مزاحمت کرنے والوں کو ختم کر دیتی ہے۔ دوسری شاخ پولیٹکل ایکشن ڈیپارٹمنٹ ہے۔ اس کا کام کرہ ارض پر قائم ہر حکومت کو یہودی مفاد کے تابع کرنا ہے۔ اسپیشل آپریشن برانچ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں کسی بھی ملک میں گھس کر صہیونی مفادات کی حفاظت کرتی ہے۔ ریسرچ ڈیپارٹمنٹ میں دنیا بھر میں ہر طرح کی معلومات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ جاپان جیسے ملک میں 2000 یہودی بستے ہیں۔ ان میں اسے 1600 صرف الیکٹرونکس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ یہ جاپانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن کر حساس معلومات اکھٹی کر رہے ہیں۔ موساد کی چھٹی شاخ ٹیکنالوجیکل ڈیپارٹمنٹ ہے۔ اس کا کام سائنس اور ٹیکنالوجی میں نئی سے نئی اختراحات کے ذریعے فری میسن گولز کو حاصل کرنا ہے۔ موساد کی دوشاخیں مزید ہیں جن کے بارے میں معلومات نہیں ملتیں۔
ایک اندازے کے مطابق یہ دونوں شاخیں موساد کو فری میسن اسرائیل کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں۔ یوں فری میسن اور موساد مل کر ہر سال کروڑوں ڈالرز کا اسلحہ اسرائیل کے لیے حاصل کرتی ہیں۔ امن کے ان غارت گروں نے میزائل، راکٹ لانچرز، بحری آبدوزیں اور خطرناک کیمیائی ہتھیاروں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تل ابیب میں سٹور کر دیا ہے۔ 2007ء اور 2012میں یہودیوں نے اپنی قوت کے درشن کروائے اور2014ء میں فری میسن کا سفلہ پن ننگا ہو کر سارے عالم کے سامنے آگیا۔ ظلم اپنے پچھلے ریکارڈ توڑ گیا۔
8جولائی 2014ء کی صبح اسرائیل نے آپریشن (Protective Edge) کا آغاز کیا۔ 7 ہفتوں تک دن رات آسمان سے لاکھو ں ٹن بارود برسایا گیا۔ میزائلوں کی بارش ہوتی رہی۔ 2150مظلوم فلسطینی شہید کر دیئے گئے۔ ان میں 495 سے لے کر 578 تک معصوم بچے شامل تھے۔ 11,000 زائد مسلمان شدید زخمی یا اپاہج ہو گئے۔ 5 لاکھ 20 ہزار فلسطینی بے گھر ہوکر رہ گئے۔ ان میں سے 4 لاکھ 85 ہزار افراد دشدید ترین خوراک کی کمی کا شکار ہو گئے۔ 17 ہزار 200 مکانات مکمل طور پر تباہ ہو گئے جبکہ 37 ہزار 650 مکانات جزوی طور پر مسمار ہو گئے۔ مجموعی مالی نقصان5سے 6.6 بلین ڈالرز کا ہوا - جب حماس 2006ء میں اقتدار میں آئی تو چین نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ امریکا اور اسرائیل کے دباؤ کے باوجود چین نے ایک شاندار عرب کانفرنس منعقد کی اور حماس کو اس میں مدعو کیا۔1987ء میں اپنے قیام سے لے کراب تک چین حماس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ سلامتی کونسل میں بھی یہ فراخ دلی ہمیں بے حساب نظر آتی ہے۔ کتنی بدقسمتی ہے کہ چند مسلمان ملکوں نے حماس پر پابندی کی توثیق کی ہے۔ مسلم دنیا ظلم کے خلاف بیانات، مذمتی ارشادات کے علاوہ حماس کی کوئی قابل قدر مدد نہیں کرتی۔ یہ ملک اور ان کی حکومتیں ’’سویا ہوا محل‘‘ کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ انہیں حالات کی سنگینی اور یہودیت کے تیزی سے بڑھتے ہوئے فری میسن ٹڈی دل کا اندازہ نہیں ہے۔ فر ی میسن یہودی سارے عالم اسلام کے دشمن ہیں۔ ان کی انتقام کی کتاب میں حماس محض ایک باب ہے۔ سارے مسلم ملکوں کو گراں خوابی سے نکلنا ہو گا۔ ایک مشترکہ حکمت عملی بنانا ہو گی۔ حماس کی اور فلسطینیوں کی دل کھول کر ہر طرح سے مدد کرنا ہو گی
|