سوئے حرم قافلے عشاق کے جانے لگے

دوسری صدی ہجری کا دور تھا۔ حج کے ایام قریب تھے... بلادِ اسلامیہ سے غول کے غول اور قافلہ در قافلہ سوئے حجاز رواں دواں تھے...

ماحول میں نکھار تھا اور دل بے قرار... شہرِ محبت اور حرمِ مقدس کی جانب عشاق کشاں کشاں چلے آ رہے تھے... حاجیوں کے قافلے اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار منزل کی سمت گامزن تھے... خطۂ عرب کے ایک شہر ’’مرو‘‘ سے بھی ایک قافلہ عازمِ حرمین تھا... جس کا ہر شخص حج کی سعادت اور طیبہ کی زیارت کے پاکیزہ جذبات سے مسحور تھا... جلوہ گاہِ ناز قریب تھی... وادیِ جانِ جاں بس آنے والی تھی... دلوں کا عالم مدوجزر تھا... آنکھیں اشک بار تھیں... اُمیدوں کے چراغ طاقِ دل پر روشن تھے...

ہولے ہولے کارواں آگے بڑھ رہا تھا... شب کی تاریکی دور ہو رہی تھی، سویرا نمودار ہو رہا تھا...خنک ہوائیں دلوں کو گدگدا رہی تھیں... صحرا میں ایک ہیولا سا دکھائی دیا... جو بڑھتے بڑھتے ایک بستی کا پتہ دینے لگا... منزل قریب تھی... قافلے نے بستی کے قریب قیام کیا... مختصر سے آرام کے بعد قافلہ کوچ کو تھا...

قافلہ سالارمحدثِ وقت عالمِ جلیل حضرت عبداللہ بن مبارک تھے... جن کی علمی تب و تاب اور نیک نامی دور تک پھیلی ہوئی تھی... معاً ان کی نگاہ ایک نحیف و کم زور اور کم سِن بچی پر پڑی... اور وہ حیرت زدہ ہو کر رہ گئے... ہوا یوں ایک بچی بستی سے نکل کر کوڑے کے ڈھیر کے قریب آئی اور ایک مُردار ’’چڑیا‘‘ کو اُٹھا کر دامن میں رکھ لیا اور اپنے آشیانے کی سمت چل پڑی... حضرت ابنِ مبارک اس کی طرف تشریف لے گئے... اور اس بچی سے مُردہ چڑیا کو دامن میں چھپانے کی وجہ دریافت کی... بچی نے قدرے تأمل سے کام لیا... لیکن جب اصرار بڑھا تو جھجکتے ہوئے کہا:

’’میں اور میرا بھائی اس بستی میں رہتے ہیں، ہم مفلوک الحال ہیں، سوائے ستر پوشی کے کچھ بھی میسر نہیں... ہم کئی دنوں سے بھوکے ہیں، بھوک مٹانے کی غرض سے کوڑوں کے ڈھیر سے مُردہ چڑیا لے جا رہی ہوں تا کہ خودکے لیے اور اپنے کم سِن بھائی کے لیے کھانے کا سامان کروں... ‘‘

حضرت ابنِ مبارک متاثر ہوئے، ان کی آنکھیں نم ہو گئیں... اہلِ قافلہ سے اسبابِ سفر کی بابت پوچھا، بتایا گیا کہ ایک ہزار دینار موجود ہیں... فرمایا: ’’بیس دینار ’’مرو‘‘ پہنچنے کے لیے کافی ہیں باقی ۹۸۰؍ دینار اس غریب بچی کی نذر کر دو... اللہ نے اس غریب کی جھوپڑی کے سائے میں ہمارا ارادۂ حج مقبول فرما لیا، یہ امداد و اعانت ہمارے لیے بہتر ہے...''

اُمیدوں کی دُنیا میں اس عمل سے چاندنی پھیل گئی... کم سِن بچی نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے حضرت ابنِ مبارک کی نذر قبول کی... مسرت سے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں... تشکر کے موتی رُخسار پر ڈھلک گئے... اور یہ قافلہ جو ’’مرو‘‘ سے سوئے حجاز چلا تھا امتنان کے سائے میں واپسی کی سمت گام زن تھا... اہلِ قافلہ نے وفا کیش نگاہوں سے حرم پاک کی سمت نگاہِ شوق ڈالی اور حریمِ دل میں حاضری و حضوری کے دیپ روشن کر کے ’’مرو‘‘ کے راستے ہو لیے... فکر حجازی مسرت و کیف کے جذبات سے معمور تھی...

قبولیت کی سند ایک محدثِ جلیل کی زبانِ مبارک سے مل چکی تھی اور یقین کی کرنیں دلوں کو منور کر رہی تھیں...

صدیاں گزر گئیں ایثار و وفا کے ان پاکیزہ لمحات کی یادیں اب تک اسلامی تاریخ کے صفحات میں تازہ ہیں... قوم مسلم کو ایثار کا جذبہ دے رہی ہیں... گردشِ ایام اس حقیقت کو اب بھی اپنے سینے پر سجائے ہوئے ہے... جہاں حضرت ابنِ مبارک کی بزم علمِ حدیث کا ذکر ہوتا ہے ان کے ایثار کے اوراق بھی چمکنے لگتے ہیں... ان کے کردار کی روشنی فکرِ عمل کو بڑھا دیتی ہے...

امتدادِ زمانہ حجاز کے اس قافلے کی سُرخروئی کو اب تک دُھندلا نہ سکی... وہ کیسے لوگ تھے؟ ایثار و قربانی کے جذبات جنھیں بے چین رکھتے... جو غریب کے درد کو اپنا درد سمجھتے... پوری قومِ مسلم ایک جسم کی طرح ہے، ایک حصے کو کوئی زخم پہنچے، پوری قوم کو تڑپ اٹھنا چاہیے... منظر نامۂ عالَم بڑا درد ناک ہے، ہزاروں زخم ہیں جن سے اُمتِ مسلمہ چٗور چٗور ہے... افغانستان میں آہ و فغاں ہے... عراق میں نالہ و کرب ہے... ارضِ بیت اقدس نوحہ خواں ہے... شام کی زمیں خوں آشام ھے، پاک زمیں لبرل اور دین بیزار فتنوں سے دھشت زدە ھے... پھر ضرورت ایثار کی ہے... قربانی کی ہے اور یہی درس اسلاف سے منتقل ہو کر ہم تک پہنچا ہے، ان کو عمل کی مژگاں پر سجانے کی ضرورت ہے۔؎

دلوں میں وَل وَلے آفاق گیری کے نہیں اُٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
 

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281253 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.