عید الاضحی وہ عید ہے جو بامعرفت لوگوں کو ابراہیمی
قربانی کی یاد دلاتی ہے۔ وہ قربانی کہ جس سے فرزندان آدم، اصفیا اور اولیاء
کو درس ایثار اور جہاد ملتا ہے۔قربانی کی اہمیت کے حوالے سے باری تعالی کے
ارشادہے ’’بے شک میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا اﷲ رب العالمین
کے لیے ہے۔‘‘(سورۃ الانعام) ــ’’ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: مجھے رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو
صدقہ کرنے کا حکم دیا تھا جن کی قربانی میں نے کردی تھی۔‘‘قربانی مالی
عبادت کے ساتھ ساتھ شعائر اسلام کا اہم ستون بھی ہے۔ہر وہ مسلمان جو صاحب
نصاب ہو چاہے دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتا ہو اس پر قربانی فرض
ہے۔پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال بڑے دھوم دھام سے قربانی کی
جاتی ہے۔ عید قربان ہر سال اپنے ساتھ ڈھیروں خوشیاں اور خوبصورت رنگ
بکھیرتی ہے۔ اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ معاشرے کا وہ حصہ جو مجبوری ، مفلسی
اور فاقہ کی زندگی گزار رہاہے اسکو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔
قربانی جہاں رضائے الہی کے حصول کا موجب ہے وہیں اُن مستحقین کیلئے بھی
باعث مسرت ہوتی ہے جو گوشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔خدا کی ادنی سی ادنی
نعمت کا احساس تب ہوتا ہے جب وہ نہ رہے اور یقین جانیں ہم کس قدر خوش قسمت
ہیں کہ روزانہ اﷲ کی عطا کردہ لاکھوں نعمتوں کا استعمال کرتے ہیں مگر بد
قسمتی سے کلمہ شکر بجا نہیں لاتے۔دنیا نے تین سالہ شامی بچے آلان کُردی کی
ریڈ شرٹ ، بلیو جینز پہنے ننھی لاش نے پوری مسلم امہ میں تہلکہ مچا دیا
تھا۔ ہر طرف سے اس ظلم و بربریت کے خلاف آوازیں بلند ہوئیں۔ احتجاج ریکارڈ
کرائے گئے ۔ سی این این ، بی بی سی ، اقوام متحدہ سمیت دنیا بھر سے شامی
مسلمانوں پر استبدادی طاقتوں کے ظالم پنجے کے خلاف آوازہ حق بلند ہوا
مگرچند دن گزرے تو ہم نے سب بھلا دیا ۔ مگر دریا کے کنارے اوندھے منہ پڑا ا
ٓلان کا عکس آج بھی منادی ہے کہ ظلم کے خلاف اور حق کے لیے ڈٹ جانا سیکھو۔
کسی بھی ملک کے فلاحی ادارے ملک و قوم کی ترقی میں ریڑھ کی سی حیثیت رکھتے
ہیں۔ چند فلاحی ادارے جن میں الخدمت فاونڈیشن پاکستان، شوکت خاتم، ایدھی
فاؤنڈیشن، غزالی ایجوکیشن، مسلم وغیرہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ حقیقی
معنوں میں خدمت خلق کا کام کرنے والی این جی اوز کو ضرور سپورٹ کرنا چاہیے
اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کو فروغ دینا چاہیے تاکہ مختلف الخیال
موضوعات، مختلف النوع مسائل اور فلاح وبہبود کے کاموں میں ہم آہنگی بھی
فضاء بھی پیدا ہو اور مسائل کا حل ممکن ہو۔ پاکستان اور دنیا بھر میں سفید
پوش طبقہ مسائل کا شکار رہتا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ اپنی قربانی کو
سادگی سے منائیں اورقربانی میں ہر نادار اور ضرورت مند طبقے کو یاد رکھیں
چاہیے وہ پاکستان میں ہو یا پاکستان سے باہر۔ آئیے آپ کو ان سے ملاتے ہیں
جو خدمت خلق میں گُندے نظر آتے ہیں۔ محمدعبد الشکور پاکستان کے معروف
Philanthropist ہیں جو الخدمت فاؤنڈیشن کو ہیڈ کرتے ہیں ۔ انہوں نے بتایا
کہ الخدمت ہر قربانی کرتی ہے اورگوشت بیواؤں، یتیموں، بیواؤں، یتامیٰ اور
مساکین اور مستحقین تک پہنچاتی ہے۔ گزشتہ سال1765 بڑے جانور اور1058 چھوٹے
جانور قربان کئے گئے جس سے مجموعی طور پر97 ہزار مستحق خاندان مستفید ہوئے۔
ترکی میں مقیم شامی مہاجرین اوربنگلہ دیش میں مقیم روہنگیا مہاجرین میں بھی
وہاں کی مقامی تنظیموں کی مدد سے قربانی کا خصوصی اہتمام کیا جاتاہے۔
الخدمت اپنے جدید سلاٹر ہاؤس میں قربانی کرتی ہے۔ الخدمت قربانی کا یہ عمل
روایتی طریقہ کار کے ساتھ ساتھ جدید سلاٹر ہاؤسز میں بھی سرانجام دیتی
ہے۔سلاٹر ہاؤسز میں قربانی کا مقصد گوشت کو موسمی اثرات سے بچانا اور حفظان
صحت کے اصولوں کے مطابق بحفاظت مستحقین تک پہنچانا ہے۔کورونا وباء میں
جانور خریدنا، سنبھالنا، ذبح کروانا اور پھر مستحقین میں گوشت کی تقسیم
مشکل بھی ہے اور پُر خطر بھی۔اس کے باوجود ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنی
روایت کو قائم رکھتے ہوئے الخدمت قربانی کا یہ عمل جدید سلاٹر ہاؤسز میں
سرانجام دے گی۔جہاں قربانی، گوشت کی کٹائی اور پیکنگ کا کام ہائی جینک
ماحول میں تجربہ کار عملے کی زیر نگرانی جدید مشینوں پر سر انجام دیا جائے
گا۔بعد ازاں گوشت کی تازگی کو برقرار رکھنے کے لئے چلر ٹرکوں کے ذریعے ملک
بھر میں دور دراز علاقوں تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے اپیل کی کہ چرم
قربانی کے لیے بھی الخدمت فاؤنڈیشن کو یاد رکھیں کہ چرم قربانی سے حاصل
ہونے والی رقم سال بھر جاری رہنے والے الخدمت کے رفاہی کاموں مثلاََہسپتال،
سکول،کلینک، بیواؤں میں راشن کی تقسیم، پسماندہ علاقوں میں طلبہ میں
سٹیشنری اور سکول بیگ کی تقسیم، دور دراز علاقوں میں پینے کے صاف پانی کے
منصوبوں پر خرچ کی جاتی ہے۔اس عید الاضحی پر کوروناصورت حال سے متاثرہ اور
ضرورت مندبہن بھائیوں کو خوشیوں میں اپنے ساتھ شریک رکھیں۔اورکرونا وباء کی
پیش نظر قربانی کرنے والوں کو حکومتی ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمدکرنا
چاہیے۔گورنمنٹ کی طرف سے جاری کردہSOP's کی مکمل پابندی کی جائے۔
آئیے اس بات کا عزم کرتے ہیں کہ ہمارے اب سے ہمارے پڑوس میں کوئی ضرورت مند
نہیں رہے گا اور اگر رہے گا تو اس کے ساتھ ایسی شفقت و محبت کا معاملہ ہو
گا کہ لینے والے کو نہیں پتہ ہو گا کہ دینے والا کون ہے؟ انسانیت کی عزت
برابر ہے اور اسلام کا یہی درس ہے۔خدمت خلق جنت کازینہ ہے اور یاد رکھیں کہ
خدمت کرنے والے افراد کے دل صاف شفاف ہوتے ہیں اور غرور و تکبر ، انا پرستی
اور اقرباء پروری ان کا لباس نہیں ہوتا۔
بقول خواجہ میر درد : درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لیے
کچھ کم نہ تھے کروبیاں
|