رخسانہ نے اپنے شوہر سے خلع لے لیا ، خاندان میں جس نے
بھی یہ خبر سنی اوسان بحال نہ رکھ سکا۔ شادی کے صرف دو ماہ بعد خلع کیوں؟
خبر سننے والا ہر شخص یہی سوال کرتا، شادی تو پسند کی تھی لڑکا لڑکی راضی
تھے پھر ایسا کیوں؟ یہ سوال رخسانہ سے بھی ہوئے تو اس نے افسردگی سے کہا کہ
شادی سے پہلے اور شادی کے بعد کی زندگی بتاتی ہے کہ اصل محبت کیا ہوتی ہے
میری شادی کے ایک ہفتے بعد ہی مجھے اندازہ ہونے لگ گیا تھا کہ شادی سے پہلے
محبت صرف فریب ہوتی ہے اصل محبت شادی کے بعد ہوتی ہے۔ سسرال میں مجھے دوسرے
ہفتے ہی کچن میں کام کرتے ہوئے چھری لگ گئی، زخم گہرا تھا خون رک نہ سکا
میں نے پٹی کے لیے شوہر کو کہا وہ کمرے میں سو رہا تھا میں نے کہا پٹی نہیں
مل رہی میرا ہاتھ زخمی ہو گیا ہے اس نے آنکھ کھولے بغیر کہا سٹور میں ڈبا
پڑا ہے اس سے لے لو اور کروٹ بدل کر سو گیا میرے زخمی ہاتھ کیساتھ ساتھ دل
بھی زخمی ہوگیا، درد کی جو چوٹیں شوہر کا رویہ دیکھ کر اٹھی وہ چھری کے کٹ
سے زیادہ تھی میں نے آنسو بہاتے ہوئے سوچا کیا یہ وہ شخص ہے جو مجھے واٹس
ایپ پر قسمیں اٹھا اٹھا کر محبت جتاتا تھا، کہتا تھا کہ تم نہ ملی تو مر
جاؤں گا اور آج اسے میری کوئی فکر ہی نہیں۔ میں نے اس شخص کے لیے خاندان
اور والدین کی ناراضگی مول لی اور ضد سے شادی کی آہ میں نے غلطی کی، تب سے
میری محبت مرنے لگی واقعات اور بھی ہوئے میری روح ہر واقعے کے ساتھ زخمی
ہوتی چلی گئی اور آخر میں احسان تک کا رشتہ بھی دم توڑ گیا تو میں نے یہ
بندھن ہی توڑ دیا، اب احساس ہوتا ہے کہ محبت کے دعوؤں اور حقیقت میں بڑا
فرق ہوتا ہے محبت احساس اور سلوک سے بنتی ہے مگر ہم تو فیس بک اور واٹس ایپ
پر زندگیاں بنا رہے ہیں جو ناپائیدار ہیں تبھی تو روز ہمیں خبریں سننے اور
پڑھنے کو ملتی ہیں کہ شادی کے چند ماہ بعد ہی طلاق ہو گئی، کہتے ہیں کہ
خبریں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں، ان سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا
معاشرہ کس ڈگر پر ہے اور آنے والا وقت اس معاشرے کے لیے کوئی نوید لا رہا
ہے یا وعید سنا رہا ہے، پستی میں گرنے یا ترقی کی منزلیں طے کرنے کا جاننا
ہو تو ان خبروں سے بخوبی پتا چل جاتا ہے کہ معاشرہ کس طرف کا سفر طے کر رہا
ہے یہ خبریں چہرے کی وہ جھریاں ہوتی ہیں جو بڑھاپا آنے کے ساتھ ساتھ چہرے
پر جمع ہونے لگتی ہیں یہ جھریاں بڑھاپے کا پتا بتاتی ہیں۔آپ اگر یہ کہہ لیں
کہ اخبارات میں آنے والی خبریں معاشرے کے چہرے کی جھریاں ہوتی ہیں تو بے جا
نہ ہو گا۔
اخبار میں خبر ہے کہ پاکستان کے صرف ایک ضلع راولپنڈی میں سال 2019ء پر یہ
جائزہ لیا گیا ہے کہ یہ سال اس ضلع میں گھریلو زندگی کے لیے کیسا رہا،
خانگی زندگی کیسے بسر ہوتی رہی خاندانوں کے تعلق اور میاں بیوی محبت کا کیا
حال رہا تو رپورٹنگ میں حیرت انگیز اور ہوش ربا انکشافات سامنے آئے، اس ایک
سال کے اندر ضلع بھر میں خواتین کے طلاق حاصل کرنے کے واقعات اس قدر بڑھ
گئے کہ حیرت کی انتہا ہوتی ہے صرف ایک سال میں طلاق اور علیحدگی کے جو
مقدمات درج ہوئے ان کی تعداد 13560 ہے یہ تعداد پاکستان کے صرف ایک ضلع کی
ہے باقی اضلاع کی تعداد شامل کریں تو سوچیں بات کہاں تک جائے گی، جہاں باعث
پریشانی یہ ہے کہ طلاق کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں حیران کن
بات یہ ہے کہ طلاق حاصل کرنے والی خواتین کی عمریں صرف 17 سال سے 30 سال کے
درمیان ہیں۔ اس رپورٹنگ میں شامل واقعات، اعداد و شمار وہ ہیں جو یکم جنوری
2019 سے لے کر دسمبر 19 تک رونما ہوئے اور یہ انکشاف حیران کن ہے کہ طلاق
حاصل کرنے والی لڑکیوں نے واٹس ایپ اور فیس بک پر دوستی کے نتیجے میں پیدا
ہونے والی محبت کے بعد شادیاں کیں جو بری طرح ناکام رہی بہت سی لڑکیوں کی
تعداد ایسی بھی تھی جنہوں نے والدین کے برخلاف محبت کے نام پر گھروں سے
بھاگ کر شادیاں کیں اور پھر جب محبت کا بخار اتر گیا تو طلاق حاصل کر لی اس
کے بعد جب گھر والوں نے بھی انہیں قبول نہ کیا تو وہ دارالامان میں پناہ
لینے چلی گئیں ایسی لڑکیوں کی تعداد 281 بتائی جاتی ہے، خاندانوں کے دیگر
مسائل کی طرف دیکھیں تو طلاق کے بعد بچوں کی حوالگی، سامان جہیز کی واپسی
اور حق مہر کی ادائیگی ان جیسے مقدمات پر نظر ڈالیں تو صرف ایک ضلع میں ان
کی تعداد دس ہزار سے اوپر ہے (روزنامہ 92 نیوز اسلام آباد 14 دسمبر 20)
یہ ایک رپورٹ پر مبنی خبر ہمارے معاشرتی چہرے پر پڑنے والی جھریوں میں ایسا
اضافہ دیکھاتی ہے کہ معاشرے کا سفر خطرناک حد تک تنزلی کی طرف ہے اگر اس
راستے کو بدلا نہ گیا تو اس شاہراہ پر گامزن سب کے سب اتھاہ گہرائیو ں میں
گر جائیں گے۔پاکستان میں جیسے جیسے ٹیکنالوجی عام ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے
خاندانی نظام بھی بری طرح تباہ ہوتا جا رہا ہے ایک دو عشرے پہلے کی بات
کریں تو شادی بیاہ کے تمام تر معاملات میں خاندان کے سب افراد شامل ہوتے
تھے بلکہ دوست احباب تک کو بھی شامل کیا جاتا تھا لڑکی لڑکے کے رشتے دیکھنے
سے یہ سلسلہ چلتا تھا اور ولیمہ تک سب کی مشاورت کو اہم سمجھا جاتا تھا اب
تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب کسی کی شادی ہوئی کب ٹوٹ بھی گئی، فیس بک پر یہ
رشتے بن رہے ہیں ایک ٹویٹ پر ٹوٹ رہے ہیں، پہلے لوگ نکاح کو برکت سمجھتے
تھے اور نکاح قاضی سے پڑھواتے تھے یہ سنت طریقہ بھی ہے اور دعا کا ذریعہ
بھی دوست احباب رشتے دار سب اکھٹے ہو کر نئے جوڑے کو دعائیں دیتے ہیں اور
ان کی خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں اب نکاح قاضی کی بجائے کورٹ میں ہونے لگا
ہے لڑکے لڑکی کا میلاپ واٹس ایپ یا فیس بک پر ہوتا ہے دو چار بار کی چیٹ کے
بعد میل ملاقات شروع ہو جاتی ہے دونوں طرف سے نئی نئی دوستی محبت میں بدل
رہی ہوتی ہے یہ بڑا خوشگوار سا ماحول ہوتا ہے اس میں آنے والے وقت اور
خدشات کی کوئی جھلک نہیں ہوتی بس وعدے وعید اور تحفے تحائف میں سب اچھا
لگتا ہے۔پھر دونوں شادی کی طرف نکلتے ہیں کسی کو بھی کانوں کان خبر نہیں
ہونے دیتے جیسے چپ چاپ شادی ہوتی ہے ویسے ہی جلد بازی میں طلاق سر انجام
پاتی ہے جیسے اسی سال 2019 میں پاکستان کے دوسرے ضلع سرگودھا کی عدالتوں
میں نکاح کرنے کا رجحان حیرت انگیز طور پر بڑھتا نظر آیا ایسے ہی طلاق کے
لیے جمع ہونے والی درخواستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا نظر آیا۔
سرگودھا کی فیملی عدالتوں میں ایک سال کے دوران طلاق سے متعلقہ 2500 سے
زائد کیس دائر ہوئے جن میں سے 1700 سے زائد خواتین نے طلاقیں لیں۔ (روزنامہ
آواز 25 دسمبر 2019ء خاندانی نظام کی بربادی کے لیے یہ دو رپورٹیں بڑی بری
ہیں پنجاب اور پاکستان کے باقی اضلاع میں بھی صورتحال تشویشناک ہے، ہمارے
ہاں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی سے جو نقصان ہو رہا ہے وہ ہمیں باہمی طور پر ایک
دوسرے سے دوری سے دوچار کرنا ہے پہلے کی بات کریں تو خاندان بھر کے افراد
مل بیٹھتے تھے اب تو گھر کے افراد تک ایک نشست پر اکھٹے نہیں ہو پاتے اسے
ہی تعلیمات اسلام پر عمل کا سلسلہ بھی رک گیا ہے، فرض احکامات تک چھوڑ دئیے
گئے ہیں بچے ساری رات فیس بک، ٹوئیٹر، یو ٹیوب پر مشغول رہتے ہیں اور رات
گئے تک سوتے نہیں نماز فجر کی ادائیگی تو اب سوچنا بھی محال ہے ایسے ہی عدم
برداشت بڑھ گئی ہے۔
ازدواجی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے مطابق نہ ہونے سے بری طرح متاثر ہے،
خواتین پر تشدد، غیرت کے نام پر قتل یہ سب سلسلے خاندان کے نظام زندگی کے
ٹوٹ جانے سے سرانجام ہو رہے ہیں، ٹی وی پر چلنے والے ڈراموں اور ان میں
دکھائے جانے والے ماحول نے ہمیں اس شاہراہ پر گامزن کر دیا ہے جس کے آخری
کونے پر سلامتی نہیں تباہی ہے اور خوفناک بات یہ ہے کہ حکام سمیت سب کو خبر
ہے کہ ہم سب تباہی کی طرف جا رہے ہیں مگر روک کوئی نہیں رہا سب چلتے چلے
جارہے ہیں۔
|