دیتے ہیں یہ بازیگر دھوکہ کھلا-----

جب ہم میڈیکل ٹیکنالوجی پڑھ رہے تھے تو ہمارے اساتذہ نے صاف الفاظ میں ایک نصیحت کی تھی، جو آج بھی دل پر نقش ہے کہ Your Primary duty is to cure your's Patient, To earn money would be the secondary option.
اور کم از کم میں آج تک اس فلسفے پر قائم ہوں، کبھی کسی ایسی جگہ کام نہیں کیا جو صحت کو پیشے کے طور پہ اپنائے ہوئے ہیں، اور بدلے مین اس شعبے نے بھی مجھے مالی طور پر اتنا دیا ہے کہ میں ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں- میں نے اس شعبے کو حقیقت میں خونِ جگر دیا ہے مثال کے طور پہ جب پاکستان میں COVID 19 کے کیسسز آنے لگے اور سرکار نے ایکسپو میں ایک آئسولیشن سینٹر اور H.D.U کے قیام کا ارادہ کیا تو اپنی ذمہ دارے سمجھتے ہوئے میں نے اسی وقت Volunteer Technologist کے طور پہ اپنی خدمات پیش کر دیں اور گذشتہ پانچ ماہ سے دن رات COVID کے خلاف جنگ میں مصروف ہوں، اور اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی اپنے گھر والوں سے ایک فاصلے کے ساتھ تعلق رکھے ہوئے ہوں- (میں اس ضمن میں پروفیسر ڈاکٹر فرحان عیسیَ کا انتہائی مشکور رہوں گا اور ساتھ ہی ان کی لیب کے زونل مینیجر شیخ انور کا جن دونوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور یہ موقع عنایت کیا۔)
میرا مقصد اپنی تعریفوں کے پل باندھنا ہر گز نہیں تھا، ،قصد آپ کو یہ باور کروانا تھا کہ بناء ضمیر کو مارے یا جی حضوری کئے ہوئے بھی اگر آپ میں قابلیت ہے تو آپ کبھی بھی ناکام نہیں ہوں گے، لیکن آج کے دور میں یہ دونوں کام نوکری کے ساتھ لازم و ملزوم ہو چکے ہیں، جس کی بڑی مثال ہمارے سرکاری اداروں کے حالات ہیں، صاحب جو کہے صرف وہ سچ ہے یا دوسرے الفاط میں Boss is always right کہنے کی وجہ سے ہی ہمارے ملک کے ادارے بد حال ہوئے ہیں، کیوں کوئی شخص اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا کہ صاحب یہ غلط کام ہے اور کم از کم میں یہ ہرگز نہیں کر سکتا، یقین کریں آپ کا رزق کوئی بھی نہیں چھین سکتا لیکن ایسی مثال ڈھونڈنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

سرکاری اداروں کی تو خیر کیا بات ہے، یہاں نجی شعبے میں بھی کام کرنے والوں سے زیادہ ایسے لوگوں کو فوقیت دی جاتی ہے جو فقط جی کہنے والے ہوں، یہاں بھی ملازمت کے حصول کے لئے جاذب نظر سی وی اور اس میں خاص کر ر کیریر گولز کو دیکھا جاتا ہے جو کہ وہ خود جانتے ہیں کہ لکھنے والا بھی اس کا مطلب نہیں جانتا چلیں ایک حد تک نجی شعبے میں اس کی کہیں کہیں گنجائش موجود ہے، مگر جب بات آتی ہے ان شعبہ جات کی جو معاشرے کو بناتے ہیں یا ضرورت ہیں جیسے کے صحت، تعلیم۔ خوراک، میڈیا وغیرہ ان میں تو کم از کم نجی شعبے کو Devotion کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے- ان شعبہ جات میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کا مقصد فقط ملازمت ہے جس کے ذریعے وہ اپنی مالی ضروریات کا حصول کر سکیں ان میں اس جذبے کا فقدان ہے جو کہ ان شعبہ جات کو ایک تقدیس دیتے ہیں، ایک ڈاکٹر جب اپنے فرض سے زیادہ اپنی فیس اور پرسنٹیج سے لگاوٰ رکھے گا تو کیا وہ مریضوں کے علاج کے لئے اپنا سو فی صد دے پائے گا؟ اسی طرح کہاں گئے وہ صحافی جنہوں نے آمروں سے کوڑے کھائے مگر سچ کا دامن نہیں چھوڑا! اسی طرح کہاں ہیں وہ اساتذہ جو کسی دور میں ایک مثبت معاشرہ بنایا کرتے تھے Money making machines نہیں، لوگ کہیں گے کہ بھائی ان کا کیا قصور ان کا بھی حق ہے کہ وہ بھی اندھا پیسہ بنائیں، تو جناب ان پیشوں کی کمائی عزت ہے ضمنی فائدہ مالی ضروریات ہیں ان سے کسی نے منتیں نہیں کیں تھیں کہ آپ آئیں اور اس شعبے کے تقدس کو پامال کریں، عوام کا کیا قصور ہے جو ان سے لٹیں بھی اور ساتھ ہی ان کی بلیک میلنگ کا بھی شکار ہوں جو یہ ہّڑتالوں کی صورت میں کرتے ہیں، اگر یہ چیز لاگو ہو جائے تو یقین جانئے کہ اس شعبہ میں صرف وہ لوگ آئیں گے جن کو احساس ہو گا کہ وہ کیا ہیں اور انہیں کیا کرنا ہے- اوع اس کا طریقہ صرف ایک ہے خود سے محنت کریں اور جاننےکی کوشش کریں کے ان شعبہ جات میں کون ہے جو آپ کا استحصال کر رہا ہے، کون ڈاکٹر ہے جو آپ کو لمبے چوڑے نسخے اور لیبارٹری انویسٹیگیشنز لکھ کے دیتا ہے، کونسا اسکول ہے جو ہر طرح سے اس کوشش میں ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں آپ کی جیب سے پیسہ نکلوائے، میڈیا میں کون لوگ ہیں جن کی آواز آپ کے علاوہ سب کے لئے اٹھتی ہے جو اصل مسائل کے بجائے آپ کی توجہ دوسری طرف مبذول کروانے کا ہنر رکھتے ہیں، بس کچھ عرصے کا غور و فکر ہے آپ جان جائیں گے لیکن جاننے کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہو گا کیونکہ یہ جونکیں ہٹانا آسان نہیں ہے لیکن اس میں ہی آپ کی اگلی نسلوں کو بقاء ہے-

 

Sheeraz Khan
About the Author: Sheeraz Khan Read More Articles by Sheeraz Khan: 19 Articles with 23278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.