|
|
لڈو کا نام ذہن میں آتے ہی زبان پر ایک شیرینی سی پھیل جاتی ہے اور منہ میں پانی
آنا شروع ہو جاتا ہے ان کی خوشبو ، نرمی اور لذت سیکڑوں سالوں سے برصغیر پاک و ہند
کے لوگوں کے دلوں میں رہی ہے- معاملہ خوشی کا ہو یا کسی تہوار کا ہر ہر موقع پر لڈو
دسترخوان کا لازمی حصہ رہے ہیں گزرتے وقت کے ساتھ ان کی تیاری میں نت نئے تجربات
کیے گئے ہیں مگر اس کو کھانے کے شوقین لوگ اس کی تاریخ کے بارے میں بہت کم جانتے
ہیں- |
|
لڈو کی تاریخ |
لڈو بطور دوائی |
دنیا میں سب سے پہلے لڈو بنانے کے شواہد چوتھی صدی عیسوی کے ایک طب یونانی
کے ماہر سسروتا کی کتاب سے ملتا ہے جنہوں نے یہ لڈو مٹھائی کے طور پر نہیں
بلکہ ایک دوائی کے طور پر بنایا تھا- اور ان کا استعمال یہ سرجری کےمریضوں
پر اینٹی سیپٹک کے طور پر کرتے تھے اور ان کے بنیادی اجزا تل گڑ اور مونگ
پھلی ہوتے تھے- یہ لڈو موجودہ تل کے لڈو کی ابتدائی شکل ہوتی تھی اور یہ آج
بھی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور حاملہ خواتین طاقت
اور قوت مدافعت میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہیں- |
|
|
|
لڈو بطور مٹھائی |
مٹھائی کے طور پر لڈو کا استعمال پندرہویں صدی میں ہندوستان کی ریاست بہار
سے شروع ہوا جس میں بیسن کے باریک دانوں کو میٹھے شیرے میں ڈبو کر ان کو
گول شکل میں ڈھال لیا جاتا تھا اور مذہبی تقریبات میں ان کو چڑھاوے کے لیے
چڑھایا جاتا تھا- |
|
ٹھگوں کے لڈو |
قیام پاکستان سے قبل کانپور کی ایک ریاست نے ثھگوں کے لڈو متعارف کروائے-
یہ لڈو درحقیقت انگریزوں کے خلاف گاندھی کی چلائ؛ گئی ایک تحریک کا حصہ تھے
انگریزوں نے مٹھاس کے لیے سفید چینی کو متعارف کروایا تھا جو کہ سستی اور
آسانی سے دستیاب ہونے کے سبب ہندوستانیوں کو بہت مرغوب ہو گئی تھی اور
انگریزوں کے کاروبار کو چمکانے کا سبب بن رہی تھی- اس موقع پر کانپور میں
چینی سے تیار کردہ لڈوؤں کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر انگریزوں کے خلاف
استعمال کر کے ہندوستانیوں کو چینی کے استعمال سے روکا گیا تھا- ان لڈوؤں
میں تل کے بیچوں کے بحائے کھویا سوجی اور گوند کا استعمال کیا جاتا تھا- |
|
|
|
لڈو کی مختف اقسام |
لڈو کی مختلف اقسام اب بھی برصغیر پاک و ہند میں رائج ہیں جن میں سب سے
مشہور موتی چور کے لڈو ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ بیسن کے لڈو ، تل کے لڈو ،
اور ایرانی شاہی لڈو جن میں کھجور ،انجیر اور دیگر خشک میوہ جات شامل ہوتے
ہیں قابل ذکر ہیں- مگر اب لڈو کا استعمال معاشرے میں صرف بطور مٹھائی رائج
ہو چکا ہے اور بطور دوا اس کا استعمال کمیاب ہو چکا ہے- |