آکری رتُوں میں

اُس نے بہت سے بہار کے موسم اپنے اس خزاں ذدہ درخت کے سائے میں بیٹھ کر بسر کیے تھے ۔یہ خزاں اُس کی سب سے وفادار ساتھی رہی سوکھے بے رنگ پتے ،ان کہے جذبوں کا اظہار اور ادھوری خواہش پریشے کو بہار کے رنگوں اور ساون کی رتوں سے زیادہ بھاتی تھی۔

شک شبہات وسوسے محبت جیسے حسین جذبے کے ساتھ ہی پروان چڑھنے لگتے ہیں جیسے ایک پھل دار درخت کے ساتھ اُس کے آس پاس جڑی بوٹیاں یا گھاس پرورش پا جاتی ہے ۔ زرق سے پریشے کی محبت چار موسموں سے تھی نو عمری سے جوانی اور جوانی سے ادھیڑ عمری کے ساتھ ساتھ عشق میں خزاں کا وقت بھی گزرا اُس نے ۔یہ وقت ایسا تھا جب وہ خود سوکھے پتوں کی مانند تنہا اور بےجان ہو گئی تھی مگر رقیب پر بہار اُتر رہی تھی کیونکہ باغبان کی سارے توجہ اور مہربانی کا منظور نظر وہ تھا۔ آج جب اتنے برسوں بعد وہ لوتا اور اپنی ولہانہ مھبت کا اظہار کیا تو پریشے اپنی دعاؤں کے قبول ہونے کی بجائے شک شبہات اور وسوسوں کی گہری کھائی میں اُترتی چلی گئی۔زرق سے اُس کی والہانہ محبت سے سب ہی وقف تھے برے چچا کا اکلوتا بیتا تھا پریشے نے تو نوعمری سے ہی اُس کی اور اُس کے والدین کی سب ذمہ دارےاں سنبھال لی ۔چچی جان تو اُس کے علاوہ کسی اور کو بہو کے روپ میں دیکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی مگر اُن کے چاہنے سے کیا ہوتا تھا جب نصیب میں اُس کا ساتھ نہیں تھا ۔زرق ہائر سٹڈی کے لیےباہر جانا چاہتا تھا اکلوتی اولاد کو خود سے جدا کرنے کی ہمت نہ تھی مگر اولاد کی خواہش کو رد بھی نہیں سکتے تھے بڑی مشکل سے زرق منگنی کے لیے راضی ہوا اور پردیس روانہ ہو گیا رتوں پر رتیں بیتی اُس کی واپسی کی کوئی خبر نہ اآئی ہاں البتہ وہاں ہی گھر بسانے کی خوشخبری بری بےدردی سے بھیج دی گئی چچی چچھا کچھ دن ناراض رہے پھر بیٹھے کی طرف سے بلواوے نے ساری ناراضگی دور کر دی۔ پریشے اس کے ماں باپ بہن بھائی اُس کے لیے بر تلاش کرنے میں تو کامیاب ہوئے مگر خود اُسے راضی کرنے میں ناکام رہے۔چند ہی سالوں میں چچھا چچی بھی بہو کے طالمانہ اور ہتک اآمیز سلوک سے تنگ آ کر وطن لوٹ آئے۔اب پریشے اپنے ماں باپ کے ساتھ اُن کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی تھی۔اور کچھ سال پیتے تو زرق بھی اُسی دہلیز پر لوٹ اآیا پریشے کی خدمات اور انتظار اُس کے دل کو اب بھا گئی تھی جبکہ انگریز بیوی نے اُس کے ساتھ بھی وہی کیا جو اُس کے والدین کے ساتھ کیا ۔ سب خوش تھے اب بات بن جائے گی پریشے اور زرق ایک ہو جائیں گے مگر اب کی بار پرشے کے وسوسے اُس کی محبت پر حاوی آ گئے ایک عورت کی خوداری نوجوانی کی محبت اور خوابوں پر غالبہ پا گئی ۔وہ خزاں کے رنگوں کے ساتھ جینا سیکھ چکی تھی ۔اُس نے خدمتَ خلق کو اپنا لیے چن لیا اور زرق کی سیکنڈ آپشن بننے کو مسترد کر دیا۔ زرق نے تایا جان کو منانے کی کوشش کی تو انہوں نے کہا بیٹا ہیرا چھوڑ کر کوئلے کا انتخاب تمہاری چوائس تھی تم تو اُسے ٹھکرا گئے تھے اُس نے تو پھر بھی بس تمہیں قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ شاید اب خزاں کے رنگ تمہارے منتظر ہیں

 

saima Mubarik
About the Author: saima Mubarik Read More Articles by saima Mubarik: 10 Articles with 11132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.