نظم و ضبط اورمسلم معاشرہ


دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ اس کے افراد کی زندگی میں نظم وضبط نہ آجائے اور آج شاید ہی مسلمان سے زیادہ غیر منظم کوئی قوم روئے زمین پر ہو۔ جو نظم وضبط ہمارے مذہب کا حصہ ہے اور جسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے اور آخرت کی نعمتیں جس کے بدلے میں رکھی گئی ہیں،وہی ہماری زندگی سے ندارد ہے۔ ہمیں تو کہا گیا ہے کہ علی الصباح اٹھیں اور نماز فجر ادا کریں اور نئے دن کا آغاز کرئیں اورہر معاملے میں ایمانداری روا رکھیں حلال رزق حاصل کرنے کی سعی کرئیں اور اللہ کے دئیے مال کو اس کے حکم کے مطابق خرچ کرئیں
مساجد مسلمانوں کا مرکز ہوتی ہیں جہاں عبادات کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کااہتمام کیا جاتا ہے۔

مگر افسوس صد افسوس
 
مسجدوں میں آج کل عبادت سے زیادہ گروہ بندی اور انتشار کی باتیں ہوتی ہیں۔ کوئی مسجد شیعوں کی ہے تو کوئی سنیوں کی، کوئی دیوبندیوں کی ہے تو کوئی بریلویوں کی۔ کوئی اہل حدیث کی تو کوئی اہل قرآن کی۔ پھر ان میں بھی فرقہ در فرقہ۔ کیا کوئی مسجد ایسی ہے جو صرف مسلمانوں کی ہو؟ یہی حالت ہمارے دینی مدرسوں کی بھی ہے۔جومسجدیں نظم وضبط سکھانے کا مرکز ہوا کرتی تھیں ،جب وہیں نظم و ضبط کا فقدان شروع ہوجائے تو دوسری جگہوں پر کہاں سے نظم آئے؟
ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں مسلمانوں کا جو حال ہے اس میں وہاں کی سرکار کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کا اپنا بھی قصور ہے غوث سیوانی ایک انڈین لکھاری ہیں ان کی ایک تحریر مطالعے سے گذری تو اندازہ ہوا کہ وہاں بھی حالات ہمارے جیسے ہی ہیں
پڑھیے اور سر دھنیے۔۔۔۔۔

غوث سیوانی، نئی دہلی

ایک واقعہ ،سینکڑوں سبق

پچھلے دنوں کا واقعہ ہے کہ دہلی کی ایک مسجد پر تبلیغی جماعت کے لوگوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس قسم کے قبضے عام ہیں اور مسلمان ان جھگڑوں کے عادی بھی ہیں۔یہاں کا انتظام اس سے پہلے جماعت اسلامی کے لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ نمازی بھی دوگروہوں میں تقسیم ہوگئے اور یہ طے پایا کہ تبلیغی جماعت کا امام جہری نمازیں پڑھائے گا اور جماعت اسلامی کا امام سری نمازیں پڑھائے۔ مسجد میں ایک ہی ساتھ وعظ کی دومحفلیں بھی سجنے لگیں۔ ایک طرف جماعت اسلامی کا ایک شخص درس قرآن کے لئے بیٹھتا تو دوسری طرف تبلیغی جماعت کا ایک مبلغ ’’فضائل اعمال‘‘ پڑھ کر سناتا تھا۔درس ِقرآن میں دو چار افراد ہی نظر آتے اور درسِ فضائل اعمال میں بھیڑ لگی ہوتی، جس سے مسلمانوں کی قوت کا اظہار ہو نہ ہو مگر تبلیغی جماعت کے دبدبے کا اظہار ضرور ہوتا اور اس فرقہ بندی کا بھی جس کی ممانعت قرآن کریم میں اللہ نے کی ہے۔’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواور فرقہ بندی نہ کرو‘‘(آل عمران:۱۰۳)۔ یہ ایک واقعہ ہے اور درسِ عبرت بھی۔ ایک طرف جہاں مسجد کا تصور ہی اتحاد و یکجہتی اور نظم وضبط کی بنیاد پر ہے ,وہیں دوسری طرف یہ مسجدیں ہی ہمارے انتشار کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ مسلمانوں کے اختلاف کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے اور پھر وہ ایک انتشار کی صورت میں پوری قوم میں پھیل جاتا ہے۔


اب ذکر ہے ہماری عادات کا۔۔۔۔۔۔۔
 
صبح بستر سے جلد اٹھنا، رات کو جلد سونا، دن کے اوقات میں اپنے تمام کام کاج وقت پر کرنا، وقت پر کھانا اور وقت پر پینا،منظم انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور اسلامی عبادتیں اس نظم ضبط کی زندگی کا عادی بنانے میں مددگار ہوتی ہیں ۔ دوسری قوموں نے نظم وضبط کا فائدہ سمجھا اور اسے اپنا لیا مگر ہم نے بس اسے ارکانِ عبادت جانا اور اس کے فوائد کو اپنی عملی زندگی میں نہیں اتارا۔ ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے کہ ہم رات کو دیر تک تفریحات اور گفتگو میں مصروف رہتے ہیں۔

محلوں میں چائے کے ہوٹلز، پان کی دکانوں، ہوٹلوں اور گلیوں ونکڑوں پر رات دیر تک بھیڑ دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ سب بس تفریح طباء کرنے کے لئے ہوتا ہے اور وقت کی ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ جب رات کو دیر تک جگیں گے تو ظاہر ہے کہ صبح دن چڑھے تک سوئیں گے۔اسی لئے بچے اسکول ناغہ کرتے ہیں اور جو چلے بھی جاتے ہیں وہ تھکے تھکے سست اور کاہل ہوتے ہیں۔جب ہم بیدار ہوکر صبح کے معمولات سے فارغ ہوتے ہیں تب تک بارہ بچ چکے ہوتے ہیں اور دنیا آدھے کام کرچکی ہوتی ہے۔اس پر بھی ہمیں حکومت سے ہی شکوہ رہتا ہے۔ جس قوم کے افراد اپنا آدھا وقت سونے ، چائے خانوں پر گپیں ہانکنے اور دوسرے فضول کاموں میں گزاردیتے ہوں وہ اس دنیا کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں جو روزانہ صبح اٹھ کر مارننگ واک کر کے خود کو فٹ رکھتی ہے، اپنے بچوں کو پابندی کے ساتھ اسکول بھیجتی ہے اور ادھر ادھر فضول وقت گزارنے کے بجائے انہماک کے ساتھ اپنے کاموں میں صبح سے ہی لگ جاتی ہے اور پوری جانفشانی اور ایمانداری سے اپنے حصے کا کام کرتی ہے جب ہی تو ایسی اقوام آج کی دنیا میں ہم سے بہت آگے ہیں

جو انسان مسجد میں نظم وضبط کا پابند ہوگا وہ سڑک پر ٹریفک کے ضابطے کیسے توڑے گا؟ جس کے دل میں اللہ کی گرفت کا خوف ہوگا وہ بندگان خدا کے حقوق کیوں مارے گا؟ جو روزانہ پانچ بار مسجد میں قرآنی تعلیمات اور احکام الٰہی کو یاد کرے گا ،وہ ضابطہ ٔ اخلاق سے کیسے آزاد ہوگا؟لہٰذا اپنی زندگی کو ضوابط کا پابند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے بھی عبادت سمجھیں اور عبادات کی روح تک پہنچیں۔ ہمیں زوال کے موجودہ دور سے نکلنے کے لئے تن آسانی چھوڑنی ہوگی اور انداز مسلمانی بدلنا ہوگا کیونکہ :

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ؟یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟ ۔۔۔




 

Syed Mujtaba Daoodi
About the Author: Syed Mujtaba Daoodi Read More Articles by Syed Mujtaba Daoodi: 45 Articles with 63488 views "I write to discover what I know.".. View More