پھر ایک دن عاشر کو گھر آنے میں دیر ہوئی ممتاز اور روبینہ دونوں اس کا انتظار کر رہے تھے تبھی عاشر کے والد کو اس کے دوست علی کا فون آیا اور اس نے بتایا کہ عاشر کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے اور اسے اہسپتال لے گئے ہیں...ممتاز کا تو خون ہی سوکھ گیا...انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ روبینہ کو کیسے بتاہیں گے...پر جیسے ہی انھوں نے روبینہ کو بتایا وہ رونے لگیں...بڑی مشکل سے وہ دونوں اہسپتال پہنچے...دونوں کی جان تو عاشر میں تھی جو ان پر گزر رہی تھی وہی جانتے تھے...عاشر کو کچھ زخم آہے مگر کوئی گہری چوٹیں نہیں آئی...روبینہ کا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا ممتاز اس وقت کو کوس رہے تھے جب انھوں نے عاشر کو باہیک لے کر دی تھی شام کو عاشر کو گھر لے گئے ایک ہفتے کے آرام کے بعد عاشر نے پھر وہی روٹین بنا لی کالج سے واپسی پر وہ آوارہ گردی کرتا اور شام کو گھر آتا ہر روز گھر میں نیا تماشا ہوتا ممتاز نے پہلی بار عاشر پر ہاتھ اٹھایا...اس شام کو گھر سے باہر چلا گیا اور رات دیر سے گھر آیا...اگلی صبع ممتاز نے اسے بہت پیار سے سمجھایا کہ وہ گھر جلدی آیا کرے تاکہ انھیں پریشانی نہ ہو اور وہ مان گیا تین چار دن سب ٹھیک تھا مگر عاشر نے پھر وہی روٹین بنا لی ممتاز نے اسے دھمکی دی کہ وہ اس سے باہیک واپس لے لیں گے مگر اس نے اس بات کو کوئی اہمیت نہ دی...
عاشر کالج سے جلدی آ گیا بارش ہونے کہ وجہ سے وہ گھر سے باہر نہ نکل سکا جب بارش رکی تو موسم بھی صاف ہو گیا عاشر نے موٹر باہیک نکالا اور والدہ کو بتا کر چلا گیا اس نے اپنے دوستوں کو بھی بلایا ہوا تھا "لاہے ہو پانچ سو روپے؟" اس کے دوست نے پوچھا اس نے ہاں میں سر ہلایا عاشر اور اس کے دوستوں نے شرط لگائی تھی کہ بڑے چوک سے گاؤں کے باہر جو راستہ شہر کو جاتا ہے وہاں تک ریس لگانی ہے عاشر بہت پرجوش رھا کیونک اسے یقین تھا کہ ریس وہی جیتے گا صائم اور عاشر دونوں اپنی اپنی باہیک پر بیٹھے حماد نے سیٹی بجائی اور ریس شروع ہو گئ دونوں اپنی فل اسپیڈ کے ساتھ جا رہے تھے لیکن صائم آگے نکل گیا عاشر نے اپنی رفتار اور بڑھا دی اور وہ بھی صائم سے بھی آگے نکل گیا اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی اس نے پیچھے مڑ کر صائم کو دیکھا اور کہا " تم مجھ تک اب نہیں پہنچ پاؤ گے ہاہاہا" صائم کے چہرے پر اچانک خوف نمایاں ہوا عاشر کو لگا کہ اب ہار کی وجہ سے صائم شرمندہ ہو گیا ہے صائم نے ہاتھ کے اشارے سے عاشر کو کچھ کہنا چاہا مگر عاشر سمجھ نہ پایا
جیسے ہی عاشر نے آگے دیکھا اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا صائم بھاگتا ہوا عاشر کی طرف گیا عاشر کو ایک آگے سے آنے والی بڑی گاڑی نے ٹکر ماری اور وہ دور جا کر لگا صائم نے باقی دوستوں کو جلدی سے کال کر کے بلا لیا عاشر کے پورے جسم پر شدید چوٹیں آہیں وہ درد سے تڑپ رہا تھا اس نے بس اتنا کہا; " شاہد....امی ابو....ٹھیک......" وہ موت کی وادی میں قدم رکھ چکا تھا اس کے دوست ہوش کھو بیٹھے تھے وہ سب روئے جا رہے تھے انھوں نے عاشر کی لاش کو باہیک پر رکھا اور اس کے گھر کی طرف لے جا رہے تھے... اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس کے ابو نے دروازہ کھولا اس سب کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے "انکل....وہہہہہہہ عاشر.... صائم روتے روتے بول رہا تھا "کیا ہوا عاشر کو تم سب رو کیوں رہے ہو خیریت ہے نا" ممتاز اب پریشان اقر خوفزدہ ہو گئے پھر ایک بزرگ بولے جو عاشر کے جنازے کے ساتھ آئے تھے " میاں تمہارا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا ریس لگانے گیا تھا اور ایکسیڈینٹ ہو گیا" عاشر کی والدہ نے جیسے ہی یہ سنا بس ایک چیخ ان کے حلق سے نکلی اور وہ بے ہوش ہو گئیں بڑی مشکل سے انھیں ہوش میں لایا گیا انھوں نے دیکھا سب رو رہے ہیں سامنے چارپائی پر عاشر کی خون آلودہ لاش پڑی تھی ماں کا تو جیسے کلیجہ ہی پھٹ گیا ان کے منہ سے صرف ایک ہی آواز نکلی"عاشر" عاشر کی بہنوں کا رو رو کر برا حال ہو گیا غسل کے بعد جنازے کو جب لے جا رہے تھے تب شور مچ گیا مگر عاشر کی والدہ سکتے میں تھیں عاشر کو دفنا کر اس کے والد بے بسی میں بیٹھے تھے جیسے خود کو کوس رہے ہوں اس دن کے بعد کسی نے روبینہ کو بولتے نہیں سنا ممتاز نے باہیک کو بند کر لے ہمیشہ کے لیے تالا لگا لیا ممتاز خود کو قصوروار ٹھہرا رہے تھے اس سب کا جبکہ سب کو معلوم تھا کہ اصل قصور کس کا تھا۔۔۔ختم شد۔
|