انسانی معاشرہ کی ہر وہ شخصیت جس کانام سنہرے حروف میں عروس تاریخ کے ماتھے کی زینت بنا وہ علم ودانش کی روشنی میں ہی کچھ کر گزرنے میں کامیاب رہی۔ یہی وجہ ہے کہ علم ودانش ازل سے آج تک ہر سماج اور معاشرہ کی کامیابی اور کامرانی کے ضامن ٹھہرے ، بڑے بڑے تمدنوں کے انحطاط کی دلیل صرف ان کی اقتصادی زبوں حالی نہیں بلکہ ان کے پاس علم و حکمت کا فقدان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اقتصادی پسماندگی وابتری اور برتری وبلندی دونوں ہی کاسرچشمہ جہالت اور علم کو مانا جارہا ہے۔ آج مریض قومیں جس رنج ومحن اور درد والم میں تڑپ رہی ہیں وہ جہالت ہی ہے۔ ان کی پسماندگی و زبوں حالی ، دیگر قوموں کے درمیان انہیں حقیر سمجھا جاناسب اسی لئے ہے کہ جہالت کی اوجھڑی ان کے سر سے پائوں تک پڑی ہوئی ہے اس کے تعفن سے نہ صرف یہ کہ دوسرے پریشان ہیں بلکہ انہیں بھی اپنے آپ سے نفرت ہے۔ ان سب باتوں کا علاج صرف تعلیم ہے۔ آج جاہل انسان کو سماج اور معاشرہ کا حصہ نہیں مانا جاتا کیونکہ وہ سماج کی مشکلوں میں اضافہ کاسبب ہے، کوئی مشکل حل نہیں کرسکتا اور سماج انہیں لوگوں پر مشتمل سمجھاجاتا ہے جو ایک دوسرے کی مشکلات کو حل کرسکتے ہوں۔ جاہل انسان زندگی کے ہر شعبہ میں بے بس ہے نہ وہ اجتماعی طورپر کچھ کرسکتا ہے نہ اقتصادی اور نہ ہی سیاسی ، جب کہ آج تعلیم صرف انسان کے اخلاق ، اس کی عقل اور اسکے کردار اور ظاہر ی وجود کو آراستہ نہیں کررہی ہے بلکہ انسان کی اقتصادی ، سیاسی اور اجتماعی ضروریات کو بھی پورا کررہی ہے۔ تعلیم نہ ہوتو انسان کسی بھی حدکو پھلانگ سکتا ہے، یہ تعلیم ہی ہے جو انسان کولگام دیتی ہے۔ تعلیم نہ صرف آج مادی رفاہ کا باعث ہے بلکہ زندگی کے صحیح شعور کی بھی ضامن ہے۔ انسان تعلیم کے ذریعہ نیکی کا شعور حاصل کرسکتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ اپنی اندرونی ، داخلی اور روحانی نظر کو سچائی کے قالب میں ڈھال سکتا ہے اس کی بنیاد پر غلط رائج طریقہ سے آگاہی ہوتی ہے اور معاشرہ کو نئی بنیادوں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم کا مقصد ایسا ماحول فراہم کرنا ہے جہاں روح کے تمام عناصر کی نشو ونما ہوتی ہے۔ معیاری علم و ہ ہے جو جسم اور روح کی تربیت پر مشتمل ہو۔ یوں تو تعلیم کی افادیت کو لے کر بہت سے اسکالر ز ، مفکرین اور دانشوروں نے اپنے نظریات پیش کئے ہیں لیکن اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اسلام نے ہر منزل اورہر مقام پر زندگی کے ہر شعبہ میں تعلیم کو لازمی قرار دیتے ہوئے مہد سے لحد تک تعلیم کی سفارش کی ہے بعثت انبیاء کی بات ہو کہ سب سے پہلی وحی کا مسئلہ ، شکر حق کے لئے تعلیم و تعلم ہی نقطہ آغاز ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیگر ادیان کے پیرو اگر تعلیم سے بے بہر ہ ہوں تو اس قدر تعجب کی بات نہیں جتنا دین اسلام پر عمل پیرا ایک مسلمان کے لئے علم وجہل کاموازنہ ، علم وحکمت کی برکات کے ذکر ، جہالت کی بے انتہا مذمت ، اس کے نقصانات کے بیان کے باوجود جاہل رہنا تعجب کا باعث ہے۔ تعلیم کے سلسلہ میں ادیان الٰہی ، مفکرین، فلاسفرز ، حکماء کی رہنمائی بالخصوص تعلیمات قرآنی کے پیش نظر تعلیم کی ضرورت اور اس کی افادیت کا منکرتودنیا میں کوئی نہیں ہے، البتہ بعض مقامات پر یہ بحث ضرور ہوتی ہے کہ تعلیم کی مقدار کیا ہو؟ اور صنف نازک کے لئے تو تعلیم بعض مقامات پر سماج سے ان کی بغاوت نیز تعلیم کے پردہ میں جاہلی افکار کی ترویج کاسبب ہوتی ہے یا پھر اس طرح کی باتیں بھی سامنے آتی ہیں کہ تعلیم ہومگر کون سی ؟ اگر صرف گھر کے دائرہ میں محدود رہ کر ان باتوں کی تعلیم دے دی جائے کہ جو بچوں کی تربیت میں کام آسکے تو کیا یہ کافی ہے وغیرہ … ظاہر ہے خواتین کی تعلیم کے سلسلہ میں مذکورہ بالا تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک ایسے مستحکم ، پائدار اور ٹھوس نظام تعلیم کی ضرورت ہے جس کی روشنی میں قوم کے بہتر مستقبل کی تعمیر کی جاسکے۔ البتہ بعض جزوی مسائل خود غور کرنے سے حل ہوسکتے ہیں۔ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے وہ تعلیم جو انسانی قدروں اور اخلاق سے دور ی کاسبب بنے کبھی بھی مطلوب نہیں رہی ،اس لئے کہ تعلیم کی نسبت ویسے ہی ہے جیسے انسان کے لئے قوت حیات اور غذا۔ درحقیقت اخلاق و تعلیم میں وہی رشتہ ہے جو غذا اور قوت حیات پیدا نہیں کرتی تو وہ صحیح غذا نہیں ہے اسی طرح اگر کوئی تعلیم صالح اخلاق پیدا نہیں کرتی تو وہ صحیح تعلیم نہیں ہے۔ ‘‘ ان تمام باتوں کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جدید مشینی دورمیں اچھی اور بری تعلیم دونوں کے معیاروں کو مدنظر رکھتے ہوئے جتنی زیادہ ضرورت مردوں کو ہے اس سے زیادہ ضرورت خواتین کو ہے کیونکہ ایک ماں اپنی آغوش میں ایک بچہ کی نہیں پوری نسل کی تربیت کرتی ہے ، وہ صرف ایک وجود کو حیات نہیں بخشتی بلکہ پوری کائنات کو حیات عطا کرتی ہے اور حقیقی حیات تو تب ہے جو جب ظاہری حیات کے ساتھ تعلیم وتربیت بھی ہو۔ حقیقتاً تعلیم وتربیت سے آراستہ زندگی پوری کائنات کی زندگی کے برابر ہے۔ ایک تعلیم یافتہ خاتون نہ صرف یہ کہ حصول علم کی راہ میں جانفشانیوں کے ذریعہ اپنے مکتب اوراپنی کتاب سے لگن اور اس کے دستورات پر عمل پیرا ہوکر اپنے جذبۂ تسلیم ورضا کو بیان کرتی ہے بلکہ اپنے علم کی روشنی سے سماج کے امراض کو بھی قابل دیدبناکر اپنا اجتماعی فریضہ اداکرتی ہے کہ انکا کوئی قابل قبول علاج کیا جاسکے۔
انسان اپنی مختصر سی زندگی کو آسائش ، چین وسکون اور آرام کے ساتھ گزارنا چاہتا ہے۔ وہ ہر اس چیز سے بھاگتا ہے جس کا لازمہ زندگی میں بے سکونی ، پریشانی یا اضطراب ہو۔ اس راہ پیمائی اور گریز پائی کے باوجود جو اس نے سوچا ہے وہ سب کچھ اسے نصیب نہیں ہو پاتا ، اور بہت کم ایسے افراد ہوتے ہیں جو اپنی زندگی سے مطمئن نظر آتے ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اگر اس برق رفتار دنیا پر نظر ڈالی جائے تو نظر آئے گا کہ زیادہ تر وہی لوگ کامیاب ہیں جنہوںنے زندگی کی تاریک راہوں میں عقل وخرد کے ساتھ علم ودانش کے چراغ جلائے ، اور اس کی روشنی میں راہ کمال کے درپیش تمام خطرات کو اپنے لئے قابل دید بنالیا اور ان سے مقابلہ کی تدبیر کی اورآگے بڑھتے گئے
اس طرح وہ اپنے دینی اور اجتماعی فریضہ کو اداکرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ سماج کی بہتری میں ایک کردار ادا کررہی ہے بلکہ ان تمام نعمتوں سے مکمل استفادہ کی صلاحیت بھی اپنے اندر پیدا کررہی جو خدانے اس دنیا میں رکھی ہیں لیکن انکا حصول علم پرموقوف ہے۔ ظاہر ہے کہ ناخواندہ خاتون جب اپنی زندگی کے بارے میں ہی صحیح طورپر واقف نہ ہوگی کہ اس کے مختلف شیون کا کس طرح سے استفادہ کیا جائے جو اپنی آغوش میں پلنے والی نسل کی کیا تربیت کرسکے گی؟ اس کی روشنی میں وہ سماج اور سوسائٹی میں کوئی موثر کردار ا داکرسکے لہذاسماج میں بہتری کا عمل اپنی جگہ خود بخود جہالت کی بناپر ٹھہر جائے گا جبکہ پڑھی لکھی خاتون اپنے علم کی روشنی میں ہر اس چیز سے پرہیز کرے گی جو اس کی گود میں پروان چڑھنے والے بچے یا بچی ترقی میں رکاوٹ بن سکے۔ اس کا واضح نتیجہ سماج کی ترقی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس لئے کہ فرد فرد سے ہی افراد بنتے ہیں اور افراد ہی کے ایک مجموعہ سے مل کر سماج وجود میں آتا ہے۔ موجودہ دورمیں تمام تر ترقی کے باوجود بھی انسانیت نالہ وشیون کرتی نظر آرہی ہے۔ اگر انسانیت کو وہ سب کچھ دینا ہے جو اس کی لازمی ضرورت ہے تو اس آغوش کا تعلیم یافتہ ہونا بہت ضروری ہے جس میں انسانیت پر وان چڑھتی ہے اور اس آغوش کا نام ’’ماں ‘‘ ہے۔ تعلیم نسواں کی ضرورت اور افادیت پر غور کرنے اور اس سلسلہ میں آگے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تخریبی اور تعمیری تعلیم کے درمیان ایک خط فاصل کھینچا جائے۔ اس لئے کہ تعلیم سے مراد اگر وہ تعلیم ہے جو ہماری یونیورسٹیوں اورکالجوں میں دی جارہی ہے تو وہ ہمیں روز بروز اپنے آپ سے بیگانہ کئے جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم اس علم کے ذریعہ اپنی ملی خودی اور دینی حمیت وغیرت بھی کھورہے ہیں۔ آج خواتین کے لئے اس تعلیم کی ضرورت ہے جو انہیں اسلام سے قریب کرے اور دنیا کی رنگینیاں دل میں گھر کرنے سے بچائے۔
|