ہمارا نظام

نظام،،جس کےلئے انگلش کا متبادل لفظ٫٫سسٹم،،استعمال کیا جاتا ہے۔ہمیشہ سے الجھا ہوا اور ٹیڑھا میڑھا ہی رہا ہے۔14اگست 2020کو انشاء اللّٰہ 73سال ہو جائیں گے،اس کو سلجھاتے ہوۓ مگر ناکام ہی رہے ہیں۔

اب تو یوں لگتا ہے کہ نظام نہ ہوا سیاں ہوگیا جو کہ روٹھنے کے بعد مانتا ہی نہیں،اورپھرجس کہ بارے میں ہمارے مشہور گائیک شفقت امانت علی صاحب گانا گاتے ہیں،
لاکھ جتن کر ہاری
مرا سیاں مجھ سے بولے ناں

1947میں آزادی کے سنہرے لمحات میسر ہونے کے بعد ہم نے اپنی تمام امیدیں اور توقعات اپنے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناح سے وابستہ کر لیں،مگراللہ تعالیٰ نے انہیں مزید جدوجہد کا موقع ہی نہیں دیا۔اس کے بعد کبھی کوئی تو کبھی کوئی ہمارا مسیحا بنتا رہا،ہم دیے جلا جلا کر ستارے ہی ڈھونڈتے رہے جو کہ ٹمٹماکر گل ہو جاتے،ہماری تلاش تو شاید ایسے چاند کی تھی جو جگمگا کر ہمارے چمن کی اندھیر نگری کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کر دیتا،لیکن شاید رب ذوالجلال کو ایسا منظور نہیں اس لیے ایسا چاند ہمارے چمن میں اترنے سے قاصر ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ نظام درست کیونکر نہیں ہو رہا؟اب اس سوال کا جواب دینا تو
مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،لیکن کچھ وجوہات میرے مشاہدہ سے گزریں جن کا ذکر کرنا چاہوں گی۔

سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے ہمارے ملک کی مثال اس گھر کی سی ہے،جس میں کل دس افراد ہوں اور دس کے دس سربراہ ہوں۔اب آپ ہی سوچیئے اس گھر کا حال پھر جیسا ہوگا ویسا ہی ہمارے پاکستان کا ہے۔اوپرسے فن چوری میں ہم پیش پیش ہیں۔اگرکبھی اس فن میں ماہر لوگوں کی لسٹ بنائی گئی تو انشاء اللہ پہلے نمبر پرہم ہی ہوں گے۔

رشوت خوروں کی بھی ہمارے پاس کوئی کمی بیشی نہیں،سودخور تو ہمارے ہاں اس قدر پائے جاتے ہیں جتنی بحیرہ عرب میں مچھلیاں،اسکے علاوہ ملاوٹ کرنے والے،ذخیرہ اندوز،ٹیکس خور،فراڈیےتو سر کی جوؤں کی طرح ہمارا حصہ ہیں۔اسکے علاوہ زکوٰۃ دینے کا تو ہمارے ہاں رواج ہی نہیں ہے۔بےایمانی اور بھتہ خوری کی تو ہم پر خاص نوازش ہے۔سازشی لوگوں کی نعمت سے مالامال ہیں ہم۔

اوپر سے کاہلی اور عیش پرستی کی فطری عادت نے سونے پہ سہاگا کردیا ہے۔کیونکہ اس کی وجہ سے جو تھوڑا بہت حلال ہمیں میسر ہے حرام بنا کر کھاتے ہیں۔ چاپلوسی کے فن نے ہمارے نظام کو مزید تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے۔

رہی بات ہمارے سیاسی میدان کی تو اس میں ہم سے مایہ ناز کھلاڑی پوری دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا،کیونکہ ہم تو سیاستدان پیدہ ہو کر سیاستدان ہی مرتے ہیں۔پاکستان میں کوئی گاڑی چلے نہ چلے مگر سیاست ضرور چلتی ہے۔حزب اقتدار کے بانی جس زور سے نظام کو چلانے کی کوشش کرتے ہیں،حزب اختلاف کے حامی اس سے دگنا قوت سرف کرکے نظام کو درہم برہم کرنے میں مبذول رہتے ہیں۔

اب آپ ہی بتائیے ان حالات میں ہمارا نظام کیونکر درست سمت پر گامزن ہوگا۔اوردرست کرنے کی بارہا کوششیں اس لیے ناکام ہوئیں کہ بگڑے ہوؤں کو گنا نہیں جا سکتا،بلکہ یوں کہنا گوں ناں گوں ہوگا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا جائے تو ان پڑھ لوگوں سے زیادہ جاہل اور پاگلوں سے زیادہ بیوقوف ہیں ہم،بھئی سادہ سی بات ہے جو بھی پاگل ہوتا ہے،اس کا ذہھن کسی نہ کسی کشمکش کا شکار ہوتا ہے،مگر پاکستان میں اسی فیصد لوگ ایسے ہیں،جن کے ذہھن میں کسی بھی قسم کی کشمکش نہیں ہوتی،انھیں کچھ نہیں معلوم کہ وہ درست کیے جارہے ہیں یا کہ غلط کیے جارہے ہیں،بس کیے جا رہے ہیں۔لیکن پھر بھی میں تو دعا گو ہی رہوں گی۔٫٫اللہ تعالیٰ ہم سب کو جزائے خیر ہی عطا کریں،،۔٫٫آمین،،۔

 

Surat Khan
About the Author: Surat Khan Read More Articles by Surat Khan: 13 Articles with 32282 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.