|
|
ماہ اگست کی آمد پاکستانیوں کے لیے ایک جانب تو یومِ پاکستان کے حوالے
سے اہم ہوتی ہے تو دوسری جانب خوشی کے ساتھ ساتھ ایسی یادیں بھی ہمارے
دامن میں بکھیر دیتی ہیں جو کہ کافی دکھی کر دینے والی ہوتی ہیں- اور
ہمیں اس بات کا احساس دلاتی ہیں کہ جن آواد فضاؤں میں ہم آج فخر سے
سانس لے رہے ہیں ان کے حصول کے لیے ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال اور
عزت کی قربانیاں دی ہیں- |
|
اس سال جب کہ پاکستان کے قیام کو 73 برس گزر چکے ہیں آج بھی ہمارے درمیاں
وہ لوگ موجود ہیں جو کہ قیام پاکستان کی تحریک کے عینی شاہد ہیں اوروہ
داستانیں جو ہم لوگوں نے صرف سنی ہیں وہ ان لوگوں پر خود بیتی ہوتی ہیں
انہوں نے ان تمام تکالیف کا سامنا کیا ہوتا ہے- ایسے ہی ایک فرد شیر محمد
بھی ہیں جن کی عمر اس وقت 88 برس ہے اور قیام پاکستان کے وقت وہ پندرہ سال
کے کڑیل جوان تھے ان کا تعلق بھارت کے علاقے فیروز پور سے تھا- |
|
قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے گاؤں میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور
ان کے گاؤں میں موجود مسلمانوں کو چن چن کر ہلاک کرنے کا عمل شروع ہو گیا
تھا- اس موقع پر شیر محمد صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسے دن بھی دیکھے جب
کہ ہم بیس بیس جنازے ایک ہی دن میں پڑھا کرتے تھے- |
|
|
|
ان حالات کو دیکھتے ہوئے ان کے گھر والوں نے پاکستان
ہجرت کا فیصلہ کیا زاد راہ کے طور پر ان کے پاس صرف ایک تولہ سونا ، دو کلو
چاندی اور کچھ سو روپے تھے جو کہ ان کے والد نے اپنے ساتھ رکھ لیے تھے جب
کہ میری والدہ نے اپنے ہمراہ کھانے پینے کے سامان کے ساتھ کچھ مصالحہ جات
بھی رکھ لیے تھے- |
|
راستے میں سونا ، چاندی اور نقدی ہندؤ اور سکھ حملہ آوروں نے چھین لی تھی
اور ہم خالی ہاتھ رہ گئے تھے ان کا اگلا نشانہ ہمارے قافلے میں موجود جوان
لڑکیاں تھیں جن کی عزتیں لوٹنے کے لیے انہوں نے کئی بار ہمارے قافلے پر
حملے کیے- |
|
مگر اس وقت میں شیر محمد کی والدہ نے ان غنڈوں کا مقابلہ لال مرچوں سے کیا
اور ان کی آنکھوں میں لال مرچیں ڈال کر جوان لڑکیوں کی عزتوں کی حفاظت کی
پیدل چلتے چلتے جب دریائے جمنا تک پہنچے تو اس کا پانی خون کے سبب سرخ ہو
چکا تھا- دو دن تک بے سروسامانی کے عالم میں بھوکے پیاسے دریائے جمنا کے
کیمپ میں وقت گزارا یہاں تک کہ ہمیں پاکستان لے جانے والی ٹرین آگئی- |
|
|
|
ٹرین واہگہ بارڈر کے کنارے پہنچی تو ٹرین کے ہندو ڈرائیور نے گاڑی روک دی
اور اس کو پاکستان لے جانے سے انکار کر دیا ایسے وقت میں قافلے میں موجود
ایک مسلمان علاو الدین نے ٹرین کو چلا کر پاکستان میں داخل کیا اور ہمیں
ملتان پہنچا دیا جہاں پر مہاجرین کا بے تحاشا رش تھا- جس سبب ہم نے بورے
والہ کا رخ کیا جہاں پر مسلمانوں نے ہمارا استقبال کیا اور ہم سب کے کھانے
پینے اور رہائش کا اہتمام بہت خلوص اور محبت سے کیا- |
|
یہ تمام واقعات بیان کرتے ہوئے شیر محمد کی آنکھوں میں آنسو تھے اور ان
آنکھوں کو صاف کرتے ہوئے انہوں نے شکر گزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم
اس آزاد ارض وطن کے لیے رب کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے ۔ |