دروازہ کھلا اور سب حیران رہ گئے مورتی کا استھان خالی تھا مندر بھگوان سے خالی ہو چکا تھا. ذرا سی دیر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی.رادھا تو حال سے بے حال ہو رہی تھی اس کے سولہ سوموار پورے ہونے کو تھے کہ بھگوان ہی پرلوک سدھار گئے.اب کیسے مل پائے گی وہ اپنے من مندر کے دیوتا سے کون ملا پائے گا ان کو. دو پریمیوں کے درمیان حائل سماج کی دیوار کوئی گرا سکتا تھا تو وہ بھگوان ہی تو تھے.جو ناجانے کہاں گم ہو گئے تھے
. مندر کے درو دیوار کے ساتھ کوسوں میل تک سب نے وشنو جی کو کھوجا مگر وہ نجانے کہاں گئے .بڑے بچاری جی بھی تو نجانے کہاں تھے .پتہ نہیں کسی نے ان کو بھی خبر کر دی تھی یا نہیں کہ کل کے قیمتی چڑھاوے کے بعد بھی دیوتا تو چپ کر کے نکل لیے.بھگتوں کی پوچا اور بھوگ انہیں راضی نہ کر سکے.رادھا سمجھتی تھی سب سے بڑی پاپی وہ ہے کیونکہ اس نے ایک ایسے شخص کو من مندر کا دیوتا بنایا جو نہ تو اس کی ذات کا تھا نہ برادری اور نہ ہی اس کے دھرم کا.پھر بھی بھگوان کے بھروسے اس نے سولہ سوموار کا ورتھ رکھا اور بس بڑے سوامی جی کو اپنا رازدار رکھا .بڑے سوامی جی نے گاؤں میں چھائی کالی پرچھائی سے چھٹکارے کے لیے کتنی محنت سے پوچا کی اور گاؤں والوں نے اپنے کل دیوتاؤں کی اس آخری بھگوان کی سونے مورتی کو کیسے مزید ہیرے جواہرات سے بھر دیا تھا
. رادھا نے بھی تو اپنےوہ سونے کے کنگن بوچا کی تھالی میں ڈال دیے تھے جو اس کے ماں باپ نے پچھلی فصل پر اس کی شادی کے لیے بنائے تھے.اسے یقین تھا یہ اسی کی وجہ سے ہوا ہے اس نے ایسی خواہش کر ڈالی جیسے پورا کرنا بھگوان کے بس کی بات بھی نہ تھی.اس کا وہم تب یقین میں بدل گیا جب پوجا کی تھالی سے اس کے کنگن مل گئے اب یہ بات طے تھی اس سب کی ذمہ دار وہ کلموہی خود تھی بھگوان نے سب کے چڑھاوے قبول کر لیے تھے مگر اسے اس قابل نہیں سمجھا.وہ کنگن پکڑے دیوانہ وار چیخ رہی تھی میں نے بھگوان کو ناراض کر دیا سب کی سنی گئی میں بے مراد رہ گئی.گاؤں والے بھی صبح سے سونے کی مورتی اور اس پر چڑھے چڑھاوں کو ڈھونڈنے میں ناکام ہو گئے
. پورے گاؤں میں کہیں سسکیاں تو کہیں خاموشی کا راج تھا.مگر گاؤں سے کچھ کوس آگے جہاں گاؤں والے نہ پہنچ پائے تھے بڑے پچاری جی اپنے چیلوں سے بازپرش کر رہے تھے سچ سچ بتا دو پوچا کی تھالی والے کنگن کس نے چرائے ہیں.مجھے یہ سونے کی مورتی چرانے میں سالوں لگ گئے میں کسی کو یوں آسانی سے وہ جڑاؤ کنگن ہھتیانے نہیں دوں گا.بچاری کے بھگت اس کے خوف سے دبکے بیٹھے تھے اور پچاری جی بار بار ایک طرف پڑی مورتی اور اس کے آس پاس بکھرے گہنوں کو الٹ پلٹ کر اس میں سے کنگن تلاش کی بے سود کوشش کرتے.
|