کراچی میں نو بیاہتا دلہن پر ظلم: ایک لڑکی کوما میں، پوری قوم ضمیر کی نیند سوتی رہی

‎کراچی میں نو بیاہتا دلہن پر ظلم: ایک لڑکی کوما میں، پوری قوم ضمیر کی نیند سوتی رہی:


‎کراچی – کراچی کے علاقے لیاری میں ایک 19 سالہ نو بیاہتا دلہن اپنی شادی کے صرف دو دن بعد اسپتال کے آئی سی یو میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ شادی کے فوراً بعد، شوہر نے مبینہ طور پر اس پر نہایت وحشیانہ جسمانی اور جنسی تشدد کیا، جس کے نتیجے میں وہ کوما میں چلی گئی۔

‎پولیس کے مطابق، ملزم اشوک نے بیوی کو اس قدر وحشیانہ طریقے سے زیادتی کا نشانہ بنایا کہ اُسے شدید اندرونی چوٹیں آئیں، خون بہنا شروع ہو گیا، اور حالت غیر ہوگئی۔ میڈیکل رپورٹس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بیوی کے جسم میں مختلف اشیاء داخل کی گئیں۔



‎یہ صرف ایک واقعہ نہیں – بلکہ ایک بیماری کی علامت ہے:

‎یہ واقعہ اپنی نوعیت میں بے حد افسوسناک ہے، لیکن یہ کوئی پہلا یا واحد واقعہ نہیں۔ پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد ایک معاشرتی بیماری ہے، جو مردانہ بالادستی، فرسودہ روایات، اور انصاف کے کمزور نظام سے جُڑی ہوئی ہے۔



‎اس قسم کے مظالم کے پیچھے مردوں کی ذہنیت:

‎✅ 1. ملکیت کا تصور

‎بہت سے مرد شادی کو بیوی کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عورت کا جسم اب ان کا "حق" بن چکا ہے — چاہے وہ رضا مند ہو یا نہیں۔

‎✅ 2. زہریلی مردانگی

‎ہمارے معاشرے میں مردانگی کو طاقت، غصے اور جنسی برتری سے جوڑا جاتا ہے۔ احساسات کو کمزوری سمجھا جاتا ہے، اور تشدد کو "قوت" کا نشان۔

‎✅ 3. جنسی لاعلمی اور فحش مواد

‎بیشتر نوجوان لڑکے بغیر کسی تعلیم یا رہنمائی کے فحش ویڈیوز دیکھتے ہیں، جن میں خواتین کے ساتھ تشدد کو "عام" یا "قابل قبول" دکھایا جاتا ہے۔ جب یہی عمل حقیقی زندگی میں اپنایا جاتا ہے تو اس کے نتائج خوفناک ہوتے ہیں۔

‎✅ 4. ہمدردی کی کمی

‎جب بچپن سے بیٹوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ عورت کمزور ہے یا فقط خدمت کے لیے ہے، تو وہ کبھی عورت کے درد کو اپنا درد نہیں سمجھتے۔


‎یہ مظالم کیوں جاری رہتے ہیں؟

‎1. ناقص قانونی نظام

‎▪️پولیس اکثر مقدمہ درج کرنے سے گریز کرتی ہے۔

‎▪️ میڈیکل رپورٹس ناقص یا تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔

‎▪️ متاثرہ خواتین کو عدالتوں میں شرمندہ کیا جاتا ہے۔

‎▪️ پاکستان میں زیادتی کے مقدمات میں سزا کی شرح 1 فیصد سے بھی کم ہے۔


‎🤐 2. معاشرتی خاموشی

‎گھریلو زیادتی کو "گھریلو معاملہ" سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بیٹیوں کو برداشت کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، اور "عزت" کے نام پر سچ دبایا جاتا ہے۔

‎📿 3. مذہب کی غلط تشریحات

‎اسلام میں عورت پر ظلم سختی سے منع ہے، لیکن کچھ لوگ مذہب کا نام لے کر مرد کو بیوی پر حاکم سمجھتے ہیں۔

‎📚 4. تعلیم اور شعور کی کمی

‎پاکستان میں دو کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ اس سے جہالت، دقیانوسی سوچ اور غلط روایات کو مزید تقویت ملتی ہے۔


‎کراچی کیس کے بعد کی صورتحال:

‎متاثرہ لڑکی کی حالت تاحال تشویشناک ہے۔ ملک بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔
‎#JusticeForKarachiBride جیسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

‎مگر سوشل میڈیا کی چیخ و پکار عارضی ہوتی ہے۔ اصل تبدیلی صرف قانون سازی یا گرفتاری سے نہیں، ذہن سازی سے آتی ہے۔


‎ہمیں کیا کرنا ہوگا؟

‎✅ 1. اسکولوں میں جنسی تعلیم اور رضامندی (consent) کا مضمون

‎بچوں کو احترام، جسمانی حدود اور مساوات کے بارے میں سکھایا جائے۔


‎✅ 2. مردوں کے لیے ذہنی صحت اور ہمدردی کی تربیت

‎مردانگی کا مطلب تشدد نہیں، بلکہ حفاظت اور احساس ہونا چاہیے۔


‎✅ 3. تیز انصاف اور موثر پولیسنگ

‎زیادتی کے مقدمات میں فوری سماعت ہو۔

‎ہر اسپتال اور تھانے میں خواتین سپورٹ یونٹ ہو۔

‎پولیس کو متاثرہ افراد سے ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کی تربیت دی جائے۔


‎✅ 4. معاشرتی مہمات اور آگاہی

‎میڈیا، مسجد، اسکول اور سوشل میڈیا کے ذریعے معاشرتی شعور بیدار کیا جائے کہ خاموشی عزت نہیں، ظلم ہے۔


‎نتیجہ: یہ وقت جاگنے کا ہے

‎کراچی کی یہ مظلوم لڑکی شاید بچ جائے، شاید نہیں۔ مگر اصل المیہ یہ ہوگا اگر ہم اسے بھی ایک اور “واقعہ” سمجھ کر بھول جائیں۔

‎پاکستان کو اپنے معاشرے کی سچائی کا سامنا کرنا ہوگا:

‎بہت سے گھر عورت کے لیے محفوظ نہیں۔

‎بہت سے مرد محبت کو طاقت سمجھتے ہیں۔

‎اور بہت سے نظام ظالم کو بچاتے ہیں، مظلوم کو نہیں۔


‎جب تک ہم صرف قانون نہیں، بلکہ ذہنیت نہیں بدلیں گے — تب تک ایسی لڑکیاں یونہی کوما میں پڑی رہیں گی، اور قوم خاموش تماشائی بنی رہے گی۔

 

Muhammad Siddiqui
About the Author: Muhammad Siddiqui Read More Articles by Muhammad Siddiqui: 23 Articles with 14258 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.