عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

امی حضور کی طبیعت کل صبح سے ہی کچھ ناساز تھی، دوا کے استعمال سے بہت حد تک افاقہ ہوا لیکن رات میں پھر وہی حالت خیر پھر دوا دی اور رات میں اپنے کمرے میں اپنے بستر پر لیٹ کر ساری رات میں ان کی ہمارے لئے دی گئی قربانیوں کے بارے میں سوچتا رہا اور پھر میں نے سوچا کیوں نہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ مل کر اپنی ماں کے لئے ایک اعزازی محفل کا انعقاد کروں اور پھر میں نے ان سب کے سب کو باری باری فون کیا اور بتایا کہ میری پیاری امی جان کی تعریفوں کے ساتھ ان کو اپنا مقصد بتایا اور کہا کہ اب ہم ایک ایسا پروگرام ترتیب دے رہے ہیں جس میں امی حضور کی زندگی کی جدوجہد جو انہوں نے بیوہ ہونے کے بعد ہمارے لئے کی اور ہم سب بہن بھائیوں کے ساتھ ساتھ خاندان کے اور بہت سے لوگوں کو بھی اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور آج بھی کئی گھروں کا چولہا جلنے کا اللہ نے ان کو وسیلہ بنایا ہوا ہے اس پر ان کو خراج تحسین پیش کریں، ایسا بہت کم لوگ سوچتے جو میں نے اپنی ماں کے لئے سوچا میں اور ان سے کس قدر محبت کرتا ہوں اپنی ماں کی سب سے اچھی اولاد ہوں میں ، اوہ معذرت کے ساتھ میں یہ بتانا بھول گیا کہ کل رات امی حضور نے 102 ڈگری بخار میں تپتے ہوئے یہ کہا تھا کہ بیٹا ایک گلاس پانی پلا دو اور میرے پیروں میں شدید تکلیف ہو رہی ہے اس لئے درد کی دوا دے دو اور تھوڑی دیر بیٹھ کے مجھ سے بات کر لو مگر مجھے اپنی ماں سے شدید محبت ہے، اس لئے میں ساری رات ان کے لئے اس پروگرام کو ترتیب دینے میں مشغول رہا، ارے کیا کہ رہے ہیں آپ جاہل، نکما، گھٹیا، بے غیرت اور یہ تو میں تحریر میں بھی نہیں لا سکتا اتنی گالیاں، میرا قصور کیا ہے جناب، کیا کیا ہے میں نے؟ کیا ! مجھے امی کے کہے ہوئے کام کرنے چاہیے تھے ! تو وہ جو میں امی کے لئے کر رہا تھا وہ کوئی کرتا ہے کیا؟ کبھی آپ نے کیا ہے؟ جی! ان کا حکم اور ضرورت ؟ جناب من یہ تو میرے معاشرے کے اصولوں کے خلاف کر دی آپ نے، اس بات کا میں بھرپور دفاع کروں گا کہ میں “حق“ پر ہوں۔



میں جس ملک میں رہتا ہوں اس ملک میں حاکمیت اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے، اور ہم تو دن رات اللہ کی تعریف کرتے رہتے ہیں ہر نماز میں کہتے ہیں تمام تعریفیں اللہ کی ہی ہیں، سائنس جب بھی کوئی نئی دریافت کرتی ہے تو ہم اللہ کی کتاب سے اس کو ہمیشہ ثابت کرتے ہیں کہ دیکھا ! یہ ہے رب الکائنات، تعریف ہی ہے نہ یہ؟ مگر اسی کتاب میں جب وہ ہمیں کچھ کرنے کا یا کچھ نہ کرنے کا کہتا ہے بلکہ حکم دیتا ہے زیادہ نہیں سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات ہی کافی ہیں اس کے احکام کے بارے میں جاننے کے لئے، ایک بات کہنا چاہوں گا کہ کیا اس معاشرے میں رشوت ستانی، سفارش، چور بازاری، ملاوٹ، دھوکہ دہی، عدم برداشتگی، حسد، حرص ، لالچ، جنس پرستی وغیرہ جیسے اعمال اکثریت میں رچ بس نہیں گئے؟ کیا اس معاشرے میں صبر، حق، افہام و تفہیم، مساوات جیسی روایات اب ناپید نہیں ہوتی جا رہیں؟ تو جناب یہ صریحا احکام الہیٰ کے منافی ہیں، چلیں آگے بڑھتے ہیں۔

جس دین کا میں ماننے والا ہوں اس دین کو میرے پیارے آقا محمد صللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکمل کیا ان سے محبت اس دین کا لازم جزو ہے، خود آپ صللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث مبارکہ ہے کہ ایمان کے کامل ہونے کے لئے ہم سب کا آپ صللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت اپنی جان مال اور اولاد سے بھی زیادہ ہونا شرط ہے، اور ہم اس کا دم بھی بھرتے ہیں ان کی تعریفوں کی محافل سجاتے ہیں حتیٰ کہ ہم ان کی ناموس کے لئے جان دے اور لے بھی سکتے ہیں، مگر حضور کے فقط دو اقوال کی کسوٹی سے خود کو گذار لیں کہ “ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں“ “ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا جیسے آگ لکڑیوں کو“ اپنی تعلیمی زندگی میں اہنے گھر، پڑوس میں یا عملی زندگی میں روزانہ کئی مرتبہ ہم آپ صللہ علیہ و آلہ وسلم کے ان اقوال کے منافی نہیں جا رہے ہوتے اور ساتھ ہی اپنے اچھے اعمال کو بھی برباد نہیں کرتے جا رہے۔

ہم اپنے اسلاف کی عطمتوں پر روزانہ قربان جاتے ہیں اور وہ اس قابل بھی ہیں، مولا علی کی عظمت ان کے اس قول سے واضع ہو جاتی ہے کہ “ میں خدا کی عبادت اس لئے نہیں کرتا کہ مجھے جننت کا لالچ ہے یہ عبادت نہیں تجارت ہے اور نہ پی اس لئے کرتا ہوں کہ مجھے دوزخ کا خوف ہے یہ عبادت نہیں غلامی ہے بلکہ میں خدا کی عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ میں جانتا ہوں کہ وہ عبادت کے لائق ہے“ کیا ہم جو ان کے ماننے والے ہیں اور ان سے محبت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے ہماری عبادات کا عالم یہی ہے ہم بھی ان کی طرح رب کو جانتے ہیں؟ اسی طرح حضرت عمر کے احساس ذمہ داری ان کے اس قول سے واضع ہوتی ہے کہ “اگر فرات کے کنارے بکری کا ایک بچہ ( دوسری روایت میں کتے کا ذکر ہے) بھی بھوک سے مر گےا تو اس کا حساب عمر سے لیا جائے گا“ ہم ہیں اپنے فرائض میں اس کے عشر عشیر بھی؟ اقبال نے جواب شکوہ میں کیا خوب کہا ہے “ تھے تو آباء وہ تمہاری ہی مگر تم کیا ہو؟“۔
تو اب جناب میری بات آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی اب آپ کو میری والدہ سے میری محبت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے، آپ نے مجھے جن القاب سے نوازہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ آپ انہیں واپس لیں کیعنکہ میں جانتا ہوں کہ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے الفاظ واپس نہیں ہوتے مگر اب کم از کم یہ ضرور مانیں کہ میں اپنی امی حضور سے بے پناہ محبت کرتا ہوں باقی رہی ان کے احکام کو رد کرنے کی تو یہ تو ہمارے معاشرے کا خاصہ ہے اور میں بھی اس ہی معاشرے کا فرد ہوں۔

 

Sheeraz Khan
About the Author: Sheeraz Khan Read More Articles by Sheeraz Khan: 19 Articles with 23364 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.