نوے کی دہائی کے بچے جشن آزادی کیسے مناتے تھے جس سے اکیسویں صدی کے بچے نا آشنا ہیں

image
 
وطن سے محبت انسانی خمیر کا حصہ ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ اپنے ملک کے آزادی کے دن کو بہت جوش و خروش سے مناتے ہیں ہمارے ملک میں بھی یہ دن خاص جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے- مگر جو جوش و خروش اس دن کو منانے کے حوالے سے نوے کی دہائی کے بچوں میں نظر آتا تھا وہ اس دور کے بچوں میں مفقود نظر آتا ہے ۔ موجودہ دور کے بچے جو ڈیجیٹل دور اور سوشل میڈیا کے دور کے بچے ہیں ان کے اندر ہر جذبے کا اظہار سوشل میڈیا تک محدود ہو چکا ہے اور وہ عملی طور پر کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے جب کہ اس کے مقابلے میں نوے کی دہائی کے بچے عملی طور پر بہت سے ایسے کام کرتے تھے جن سے نئی نسل محروم نظر آتی ہے-
 
1: جھنڈیوں کی تیاری
اگست کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی بچے اپنی جیب خرچ کو بچانا شروع کر دیا کرتے تھے اور اس کے بعد اپنی جیب خرچ سے بچائے جانے والے پیسوں سے سیکڑہ کے حساب سے جھنڈیاں خریدی جاتی تھیں اور اس کے بعد ان جھنڈیوں کو آٹے کی لئی تیار کر کے دھاگے میں پرویا جاتا تھا- اس کے بعد ان کو سکھایا جاتا تھا سوکھنے کے بعد ان جھنڈیوں کو احتیاط سے ایک خاص انداز میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا تھا تاکہ تیرہ اگست کو ان جھنڈیوں کو اپنے گھر ، اسکول اور گلی کو سجانے کے لیے استعمال کیا جا سکے-
image
 
2: سب سے اونچا پرچم یہ ہمارا رہے
یکم اگست سے گھر کی چھت پر پاکستانی سبز ہلالی پرچم لہرانا اور اس پرچم کو فخر سے لہراتے ہوئے دیکھنا نوے کی دہائی کے بچوں کا سب سے بڑا شوق ہوتا تھا- اپنے پرچم کو ارد گرد کے گھروں میں سب سے اونچا رکھنے کے لیے بانسوں کی تلاش اور اس کے بعد ان بانسوں کو اس طرح باندھنا کہ وہ ہوا کے باوجود قائم رہیں اس جتن کے بارے میں اس وقت کے بچوں کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا- اس کوشش میں گھر کے بڑے بھی پورا ساتھ دیتے تھے دور گلی کے کنارے پر کھڑے ہو کر اپنے گھر کے اوپر لہراتا سبز ہلالی پرچم جو فخر اور خوشی دیتا تھا اس سے آج کے دور کے بچے نا آشنا ہیں-
image
 
3: سفید شلوار قمیض سلوانا
یوم آزادی کی مناسبت سے لڑکوں کے لیے سفید شلوار قمیض پہننا ایک عید کے دن کے تہوار کی طرح لازمی ہوتا تھا اور تمام لڑکے سفید شلوار قمیض اور لڑکیاں اس دن کی مناسبت سے سفید شلوار قمیض کے ساتھ پرچم کے رنگ کے دوپٹے کا انتخاب کرتی تھیں اور اس جوڑے کو پہننے کی خوشی میں رات بھر نیند نہ آتی تھی- سفید رنگ کے اس جوڑے کو کلف لگا کر ہینگ کیا جاتا تھا اور صبح اٹھتے ساتھ ہی اس جوڑے کو پہنا جاتا تھا اور اس طرح تیار ہوا جاتا تھا جیسے عید کے دن کی تیاری ہوتی تھی -
image
 
4: رنگ برنگے بیجز اور چوڑیوں کی خریداری
سفید رنگ کے جوڑے کے ساتھ سینے پر بائیں جانب سبز ہلالی پرچم والا بیج لگانا اور اس بیج کا انتخاب اس طرح کرنا کہ ہمارا بیج سب سے منفرد اور نمایاں ہو یہ اس دور کے بچوں کا سب سے بڑا شوق ہوتا تھا- اسی طرح لڑکیاں بھی ہری اور سبز چوڑیوں سے اپنے ہاتھ بھر لیتی تھیں اور مہندی لگا کر اس خوشی کے دن کی تیاری کا خاص اہتمام کرتی تھیں-
image
 
5: ٹیبلو اور ملی نغموں کے مقابلوں میں شرکت
آج کل کے دنوں میں یوم آزادی کے دنوں میں سرکاری چھٹی ہوتی ہے اس وجہ سے اسکول والے یوم آزادی کا فنکشن عام طور پر تیرہ اگست کو ہی کر لیتے ہیں جب کہ ماضی میں اس دن خاص طور پر اسکول پرچم کشائی کی تقریب کے لیے کھولے جاتے تھے اور بچوں کے درمیان ملی نغموں ، تقریروں ، اور ٹیبلوز کے مقابلے کروائے جاتے تھے- غرض اس دن ہر بچے کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہوتا تھا کہ پاکستان زندہ باد-
image
YOU MAY ALSO LIKE: