ہمارے آرام، سونے اور دربار سجانے کی جگہ: ’بستر‘ سے جڑے 09 حقائق

image
 
ایک طویل سفر کے بعد اپنے بستر پر آرام کرنے سے زیادہ مزا اور کہیں نہیں آسکتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم سوتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں اور کبھی کبھار کچھ کھانا بھی تناول کرتے ہیں۔ یہ جگہ آپ کے سماجی مقام کا بھی تعین کرتی ہے۔ اور بعض اوقات یہ آپ کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہوتی ہے۔ اور ہم میں سے کئی ایک جب بڑے ہوتے ہیں یا اپنے نئے گھر میں منتقل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ایک پلنگ خریدتے ہیں۔
 
اس لیے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ پلنگ کا تصور کہاں سے آیا ہے؟ اور کیا یہ بظاہر ایک عام سی شے ہماری زندگی کے اتار چڑھاؤ کو بیان کرسکتی ہے؟
 
بی بی سی کی ’اوریجنل‘ سیریز کے سلسلے میں اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ بستر کس طرح ہماری زندگیوں کا تعین کرتا ہے، ہمارے سماجی رویوں میں تبدیلی لاتا ہے، نامہ نگار کیٹی برینڈ نے ماہرِ اعصابی نظام پروفیسر رسل فوسٹر، تاریخ دان گریگ جینر اور جدید دور کی تاریخ کی ماہر پروفیسر ساشا ہینڈلی سے بات چیت کی اور ایسے چند حقائق جمع کیے جو ہمارے پلنگ، بستر سماجی اور سیاسی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں یا اس کا مظہر ہوتے ہیں۔
 
1- گدّوں کا استعمال 77 ہزار برس سے کیا جا رہا ہے
زمین پر سونے کے متبادل کے طور پر گدّوں کے استعمال کے ثبوت 77 ہزار برس پرانے عرصے یعنی پتھر کے زمانے سے ملتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے غاروں میں لوگ گدّوں پر سوتے تھے جنھیں وہ خود تیار کرتے تھے۔غار آرام دہ نہیں ہوتے تھے۔ مزید یہ کہ زمین سے ذرا بلند سطح پر سونے کی جگہ بنانے سے وہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکڑوں سے بھی محفوظ رہتے تھے۔ پروفیسر گریگ جینر کہتے ہیں چونکہ یہ لوگ اپنا کھانا بھی وہیں بیٹھ کر کھاتے تھے اس لیے ان کے بستر بھی کچھ چکنے سے محسوس ہونے لگتے تھے اس لیے وہ انھی پر آگ بھی جلا لیا کرتے تھے۔
image
 
2- قدیم ترین بستر پتھروں کے ڈھیر پر بنائے جاتے تھے
پروفیسر جینر کہتے ہیں کہ آج کل کے جدید ترکی میں چتل ہویوُک کے مقام پر دس ہزار برس پہلے پتھروں کے جدید دور میں پتھروں کے ایک ڈھیر پر زمین سے اونچا بنایا گیا پہلا بستر ملا ہے۔اسی طرح شمالی سکاٹ لینڈ میں جزائر کے سلسلے اورکنی کے ایک قصبے سکارا برے میں بھی چھ ہزار برس پرانے پتھروں کے ڈھیر پر بنے بستر ملے ہیں۔پروفیسر جینر کے مطابق، اس دور کے باشندے پتھروں کی سلوں کی ایک تہہ بناتے تھے پھر اس پر ایک اور پھر سب سے اوپر ایک گدّہ بچھاتے تھے جس پر وہ سوتے تھے۔اس طرح بلند کیے ہوئے پتھروں کے ڈھیر پر بنائے گئے یہ پلیٹ فارم انسانی تاریح کے قدیم ترین پلنگ تھے۔
image
 
3- قدیم مصریوں کے پلنگوں کے پایوں پر کشیدہ کاری ہوتی تھی
پروفیسر جینر کہتے ہیں کہ قدیم مصر کے امراء نے اپنے بستروں کو ایک پلنگ کی صورت دی اور اس میں پائے لگائے۔ عموماً لکڑی کے بنائے گئے ان پاؤں پر بہت ہی خوبصورت طرز کی کندہ کاری کی جاتی تھی، نچلے حصے میں کسی جانور کے پاؤں کی شکل ہوتی تھی۔لیکن آج کل کے جدید پلنگوں کے برعکس، قدیم دور کے پلنگ ہموار سطح کے نہیں ہوتے تھے۔ اس کے بجائے یہ درمیان میں ذرا سے گہرے ہوتے تھے یا سرہانے کی جانب جھکے ہوئے ہوتے تھے۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پلنگوں کی جانب پاؤں رکھنے کی بھی جگہ بنائی جاتی تھی تاکہ سوتے ہوئے نیچے سرک نہ جائے یا گر نہ پڑے۔‘
image
 
4- مشرق میں اونچے پلنگ کا مطلب اعلیٰ سماجی حیثیت نہیں
مغرب میں اور چین میں بھی فرش سے بلند پلنگوں یا بستروں کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ آپ کی سماجی حیثیت بھی کافی بلند ہے۔ لیکن بعض خطوں میں اس کے برعکس تھا۔ جاپان میں روایتی قسم کے تتامی گدّے، جو آج بھی مقبول ہیں، فرش سے بہت ہی کم اونچے ہوتے ہیں۔اور قزاقستان کے کچھ علاقوں میں ’فرش پر بچھانے اور پھر انھیں تہہ کیے جانے والے گدوں پر سونے کا رواج اب بھی ایک معمول ہے۔‘ ان گدّوں کو ’توشک‘ کہا جاتا ہے۔ پروفیسر گریک جینر کے مطابق، اُسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ رواتی طور پر خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے اور انھیں اپنے بستروں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا پڑتا تھا، یہ روایت آج تک برقرار ہے۔
image
 
5- رومن اور یونانی لوگ اپنے بستروں پر کھانا بھی کھاتے تھے
رومن اور یونانی تہذیبوں میں بستروں کے مختلف قسم کے استعمال ہوتے تھے۔ ان پر سویا جاتا تھا، لیکن ان کو کھانا کھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ لوگ ان بستروں پر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے تھے۔ جب ان کا دل چاہتا تو سامنے رکھی میز سے وہ کھانے کی کوئی شہ مثلاً انگور کے خوشے یا کسی خوراک کا ایک نوالہ اٹھا لیتے۔لہٰذا آئندہ اب آپ کا دل بستر پر بیٹھے ہوئے کھانا کھانے کو چاہے تو برا محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ صرف روم کے امیر امراء کی نقل کر رہے ہوں گے۔
image
 
6- قرونِ وسطیٰ کے بڑے بڑے پلنگ تو خاندان سمیت مہمانوں کے لیے بھی جگہ رکھتے تھے
قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں عوام کی اکثریت غربت میں رہتی تھی اور وہ اس وقت بھی گھاس پھوس کے بنے گدّوں پر سوتے تھے۔ لیکن اسی یورپ میں امراء نے اپنے لیے بڑے بڑے شاہانے طرز کے پلنگ بنانے شروع کردیے۔پروفیسر گریک جینر کہتے ہیں کہ وہ تو بہت ہی بڑا پلنگ ہوتا تھا جس کی سب سے بڑی مثال برطانیہ کی ملکہ الزبیتھ اول کا شاہانہ پلنگ تھا۔یہ پلنگ ’اتنے وسیع ہوا کرتے تھے کہ شاید اس میں آپ فٹ بال کی پوری ٹیم کو سلا سکتے تھے۔‘’اگرچہ یہ بہت ہی مضبوط ہوتے تھے لیکن ان کو الگ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا تاکہ اگر انھیں کہیں اور لے جانا پڑے تو اس کے حصے با آسانی جدا کیا جا سکے۔ اور امرا جب دیہات میں اپنی جاگیروں پر جائیں تو ان پلنگوں کو اپنے ہمراہ لے جائیں۔
image
 
7- ’کس کے سونا‘ سے مراد یہ ہوتی تھی کہ آپ کا پلنگ کیسا بنا ہوا ہے
اس قسم کے پرانے پلنگوں کا ڈھانچہ عموماً لکڑی سے بنایا جاتا تھا۔ پروفیسر گریک کے مطابق ’ان کے درمیان میں کھیتوں کے بھوسے سے تیار کیا گیا بان استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ بان کی رسی ڈھیلی ہو جاتی تھی اور پھر اسے کسا جاتا تھا تاکہ رات کو آرام دہ نیند آسکے۔ اور یہیں سے یہ محاورہ 'کس کے سونا' بنا۔'
image
 

8- پلنگ کے ارد گرد چار ستون سے سماجی حیثیت ظاہر کی جاتی ہے

چودھویں اور پندھرویں صدی میں چار ستونوں والے پلنگ کے رواج کی ابتدا ہوئی۔ان بستروں کے اوپر ایک چھتری بنی ہوتی ہے۔ گریک کہتے ہیں کہ اس کا اس زمانے میں اٹلی میں بہت رواج تھا۔ اس کے ستونوں پر شفاف قسم کے پردے ٹنگے ہوتے تھے، بہت سارے تکیے رکھے ہوتے تھے جن کی وجہ سے یہ ایک تماشگاہ کا منظر پیش کرتا تھا۔ یہ خوبصورت پلنگ اس کے مالک کی مالی حیثیت کو ظاہر کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہوتا تھا اور وہ اس لیے نہیں کہ اس پلنگ کو سجانے کے لیے نوکروں کی ایک فوج درکار تھی۔

image
 
9- پلنگ سیاسی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہوتے تھے
پروفیسر ساشا ہینڈلی کہتی ہیں کہ 15ویں اور 16ویں صدی کے ادوار شاہی پلنگوں کے زمانے کہے جاسکتے ہیں۔ پروفیسر ساشا جدید تاریخ کے شروع کے دور اور اس زمانے کی نیند پر گہری نظر رکھتی ہیں جو کہ پندھرویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک محیط ہے۔پروفیسر ساشا کہتی ہیں کہ اس دور کے دو یورپی بادشاہوں نے درباروں میں مخصوص شان و شوکت والی شاہی ثقافت کو فروغ دیا، ایک تو فرانس کے لوئی چہاردھم نے ورسائے میں، اور دوسرے انگلینڈ کے چارلز دوئم تھے جنھوں نے سترویں صدی کے آخر میں اس ثقافت کی سرپرستی کی۔اس زمانے کی بروق کہلانے والی طمطراق سیاسی ثقافت کی بنیاد اس فلسفے پر قائم ہوئی تھی کہ بادشاہ کو خدا نے حقِ حکمرانی عطا کیا ہے یعنی وہ ظلِّ الٰہی ہے۔ اسی سے یہ نظریہ بنا کہ ریاست کی تمام طاقت کا مظہر بادشاہ ہے۔ لہٰذا یہ تصور ابھرا کہ آپ جتنے بادشاہ یا ملکہ یا اس سے منسوب اشیاء یا ان کے حواریوں کے قریب ہیں آپ خدا کی نظر میں اتنے ہی مقرب اور منظورِ نظر ہیں۔ساشا کے مطابق، ’ان کے لیے پلنگ سیاسی زندگی کا مرکز ہے، وہ اُسے ایک ایسے سٹیج کی طرح استعمال کریں گے جس پر یا جس کے ارد گرد، تمام رسومات و آداب بجا لائے جائیں گے اور جہاں یہ بھی ظاہر ہوگا کہ بادشاہ یا ملکہ کس ملک کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ورسائے میں پسندیدہ ریاستوں کے حکمرانوں کو بادشاہ کی رہائش کے اُس حصے تک آنے کی دعوت دی جاتی تھی جہاں وہ نیند کے بعد جاگتا تھا اور جہاں وہ اپنا لباس بدلا کرتا تھا۔
image
 
Partner Content: BBC URDU
YOU MAY ALSO LIKE: