دنیا نے کبھی عربوں کا وہ دور
بھی دیکھا تھا ؛ جہان ہر طرف تاریکی پہلی ہوئی تھی ؛وہ کونسی برائی تھی جو
ان میں موجود نہ تھی؛لیکن حضرت محمدﷺ کی بعثت کے بعد یہ حالت یکسر بدل گئی
اور وہ منظر سامنے آیا جو انہیں سارے جہاں میں نہ صرف ممتاز بنا دیا ؛بلکہ
یہ آدھی دنیا کے مالک بن کر انسانیت کے سب سے بڑے محسن بن کر اُبھرے تھے ؛شاعر
نے اس دور کا نقشہ نہایت بلیغ انداز میں اس طرح کھینچا ہے؛خود نہ تھے راہ
پر اوروں کے ہادی بن گئے،کیا نظر تھی مُردوں کو مسیحا بنا دیا،لیکن افسوس آ
ج عرب پھر سے اسی برائیوں کے دلدل میں پھنس کر اپنی شناخت کھو رہے ہیں ؛ حق
گوئی اور بے باکی جن کا وتیرا تھا لیکن اب اس کی جگہ منافقت او ر منافرت نے
لے لی ہے؛ دانائی یا دانشمندی میں وہ اپنی مثال آپ تھے لیکن اب حماقت یا بے
وقوفی ان کی پہچان بن چکی ہے؛ شرم و حیا جن کا زیور تھا ؛لیکن اب اس کی جگہ
بے حیا نے لے لی ہے؛؛بہادری اور دلیری جن کا خاص وصف تھا ؛اب اس کی جگہ
بزدلی نے لی ؛محنت اور جفاکشی کے وہ عادی تھے لیکن اب یہ آرام طلبی یا تن
آسانی کے خوگر بنے ہوئے ہیں جنگی مشقیں جن کا محبوب مشغلہ تھا؛اب اس کی جگہ
بے کار کھیل کود یا لغویات اور رقص وسرور کی محفلوں نے لے لی ہے؛خود داری
اور پامردی جن کا خاصّہ تھا ؛ اب اس کی جگہ غلامی کی زنجیریں ہیں؛ جن چیزوں
یا افعال سے انہیں سخت نفرت تھی اب اسی طرف مائل ہوگئے؛ اپنی تہذیب و ثقافت
سے یکسر بغاوت کر کے اپنے فرضَ منصبی کو بھول کر یہود و نصاریٰ کے طور
طریقوںسے مانوس ہو گئے؛نتیجتاً آج اکثر عرب ممالک صرف نام کے اسلامی ہیں؛
اسلام کی جو اصل روح ہے وہ یہاں سے ختم ہو رہی ہے؛ جتنے فحاشی کے اڈے یہاں
پر ہیں شاید دنیا میں کہیں اور نہ ہوں ؛عریانیت میں شاید یورپ کو بھی پیچھے
چھوڑ دینگے ؛لیکن عربوں کو اس کا احساس کہاں؟ اور ہو بھی کیسے؟ دنیا والے
تو اسے ترقی یا روشن خیالی کا نام دیتے ہیں؛اور یہی سبق انہیں بھی پڑھاتے
ہیں ؛ اور یہ اس جال میں اس طرح پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنا اب ان کے لیے
محال بن چکا ہے ؛کیا ایسے میں عرب اپنی شناخت باقی رکھ پائیں گے؟ اور ان کے
حکمرانی بھی قائم رہ پائیں گی؟کاش کے تاریخ سے سبق لیتے؛ہندستان کی ساڑے
چار سو سال پرانی مغلیہ سلطنت کے زوال اور خاتمہ کے اسباب کیا تھے؛ یہ
مغلیہ سلطنت جس رعب ودبدبہ سے حکومت کی تھی جس کی نظیر ہند ستان میں نہیں
ملتی؛جس نے پورے برِصغیر کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک زیرِ نگین کر لیا
تھا؛یہا ں تک کہ ان کے سامنے اُس زمانے کی تمام طاقتیں جھک گئی تھی؛لیکن جب
اس (super power) میں ضعف وپیری کے آثار نمودار ہوئے تو ان کی حالت یہ
تھی؛اُمراء اور ذمہ دارانِ حکومت تفریحات اور دل بہلانے والے کاموں میں
مشغول تھے؛اُس زمانے میں نادر شاہ ایران میں اپنی حکومت قائم کر چکا تھا؛
اور جب اس نے ہندستان پر اپنے معمولی اور چھوٹے لشکر سے حملہ کیا تھا ؛تو
اسے کہیں سے کسی قسم کی امداد یا کمک کی اُمید نہیں تھی اور وہ چاروں طرف
سے مقامی اور ہندستانی قوتوں کے درمیاں گھیرا ہوا تھا؛مگر و ہ سخت جاں اور
محنت و مشقت کا عادی تھا؛اس کے مقابلے میں ہندستاں کا مغل بادشاہ محمد شاہ
تفریحات اور عیش وعشرت میں انہماک کی وجہ سے::رنگیلے ::کے نام سے مشہور ہو
گیا تھا؛ جب اس کو نادر شاہ کے حملے کی خبر ملی تواپنے محل کی چھت پر چڑ ھ
کر نہایت حسرت وافسوسناک لہجے میںیہ کہا تھا،،،،شامتِ اعمالِ ماصورت نادر
گرفت::کیا آج عربوں کا حال اس سے مختلف ہے؟؟؟؟؟
کاش کے تاریخ سے سبق لیا ہوتا؛کیا آج پھر وہ تاریخ ُ ُ داہرائی جانے وا لی
ہے ؟جہاں یہ قومِ مسلم اپنے بامِ عروج پر پہچنے کے بعد انتہائی ذلت سے
دوچار ہوئی یعنی پانچویں صدی ھجری میں مسلمانوں کے قبلہ اول(بیت المقدس) پر
سہونی قبضہ اور ساتھویں صدی ھجری میں مسلمانوں کے سب سے بڑے علمی مرکز اور
دارالخلفہ(بغداد) پر وحشی تاری قوم کی یورش اور تباہی جس سے سارے عالم
اِسلام پر سکتہ طاری ہو چکا تھا؛کیا یہ کوئی غیر معمولی واقعہ تھا؟یا زمانے
کی گردش تھی؟ جو قدرت کے ہاتھوں ہوئی تھی؛ہرگز نہیں ربّ کریم کا وہ فیصلہ
تھا جسے ہم نے اپنی بد اعمالی کے سبب اسی کے مسحق ہو گئے تھے اور یہی قانونِ
قدرت ہوتا ہے ؛وان تتولو یستبدل قومً غیرکم ثمّ لایکونُ امثالکم ہ۔۔۔ا
وہ زمانہ اور عربوں کا یہ دور کیا اس سے مختکف نظر آتا ہے ؟ضمیر فروشی
؛عقاید میں شکوک ؛اخلاقی امراض؛قوت فیصلہ کی کمی؛بزدلی اور پست
ہمتی؛علماءواہلِ دیںِ حق کا حق بات کہنے اور تنقید واحتساب سے گریز ؛مصنوی
معیاروں کے سامنے ان کی سپر اندازی؛ اور معیارِ زندگی کے لیے ایڑی چوٹی کا
زور؛ سخت سے سخت حالات میں بھی لہو ولعب یا عیش وطرب کی گرم بازاری یعنی
زندگی سے عشق اور موت سے گھبراہٹ اور فرار؛ ہر قسم کے اقدام یا جرات اور
بروقت سہی فیصلہ سے معذوری ؛یہ ا نہی افعال و کردار کا نتیجہ ہے؛ان حالات
کو گہرائی سے غور کرنے کے بعد ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اب یہ ان کی بقا
کامسلہ بن چکا ہے؛ کیونکہ اب ان میں دشمن کے پہلے وار کو بھی سہنے کی سکت
باقی نہیں رہی ؛اور ایک معمولی چوٹ بھی ان کے لیے کاری ضرب ثابت ہو سکتی ہے
؛ اس کے بعد ان کے لیے اپنے دین ، اپنی عزت وناموس ؛ ملی وجود دیگر مقامات
مقدسہ کی حفاظت بھی نہایت دشوار کن بات ہوگی۔
وہ حکمراں تھے جہاں کے مسلمان ہو کر
اور یہ تو زنجیر پہنی ہے غلامی کی بادشاہ ہو کر |