صاحبزادہ عاصم مہاروی ایک نوجوان
محقق اور صوفی منش دوست ہیں ، انھیں سکوں نہیں ملتا ہر وقت گھومتے پھرتے
رہتے ہیں . حال ہی میں میری ان سے بات ھوئی تو ہم نے جاری حالات پہ ایک
دوسرے سے تبادلہ خیال کیا . کچھ بات ہی ایسی تھی کہ اس بات کے ختم ہونے سے
پہلے مہاروی صاحب ایک اور سفر پہ جانے کو تیار تھے . میں نے پوچھا کہ کیا
وسائل ہیں آپ کے تو موصوف نے جو جواب دیا وہ ساری رات میری سوچ کا حصہ رہا
اور آج کی اس تحریر کی وجہ بھی. عاصم بولے " راجہ صاحب میں وسیلے والے پہ
توکل کر کے نکلتا ہوں وہ ہی سب بندوبست کر دیتا ہے "....... کتنا سچ کہا
مہاروی صاحب نے . آج کا ڈوبتا پاکستان توکل کی دولت اور انعام سے محروم ہے
. بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور بات کا تذکرہ کرتا جاؤں . پچھلے سال میں
بھی ایسی ہی صورت حال کا شکار تھا اور سمجھ کچھ نہیں آ رہا تھا . عاصم پاس
تھے میں نے سوچا کچھ مشوره کر لیتے ہیں ، یوں تو زمینی طور پر ہمارے درمیان
سات سمندر کا فاصلہ تھا مگر اس لمحے وہ ہی پاس تھے. میری ڈاما ڈول کہانی سن
کر موصوف نے اپنی زندگی کا ایک لمحہ مجھ سے بانٹا جو شامل تحریر ہے .
مہاروی صاحب بولے " راجہ صاحب! ہم زمین دار لوگ ہیں اور ہمارے گھروں میں
بڑے بڑے صندوق اور الماریاں سالوں پڑی رہتی ہیں ایک بار بچپن میں کسی شرارت
کی وجہ سے مجھے ایک پرانی الماری میں چھپنا پڑ گیا ، خوف تھا کہ کہیں بڑا
بھائی ڈھونڈھ کے پٹائی نہ کر دے مگر ایسا نہ ہوا اور میں اس الماری میں تب
تک چھپا رہا جب تک بیہوش نہ ہوا ، بھائی میرے کو تو یاد بھی نہ تھا کہ میں
نے کچھ کیا ہے مگر میں خوف میں مبتلا خود کو تاریکی میں بند کیے یہ سوچتا
رہا کہ کہیں وہ آ نا جائے " عاصم نے اپنی بات جاری رکھی اور بولے " خوف ہی
سب سے بڑی بیماری اور سب سے بڑا دشمن ہے- آپ خوف سے لڑنا سیکھ لیں کامیاب
ہو جائیں گے ". صاحبزادہ عاصم کی یہ بات آج پورے پاکستان کا مسئلہ ہے . سب
سے پہلے توکل کی بات کرتے ہیں .
آج کا پاکستانی کسی بھی صورت حال میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اللہ
سائیں ہر کام کرنے والا ہے اور وہی غفور اور قادر ہے . حکمران جو درحقیقت
بزدل اور کمظرف پس منظر کے مالک ہیں دن رات یہی مالا جپتے نظر آتے ہیں کہ
اگر امداد بند ہو گئی تو ہمارا کیا بنے گا . عوام جن کو یہ علم ہی نہیں کہ
جس امداد کو ان کے حکمران امداد کہہ رہے ہیں در حقیت ان کا خود کا وظیفہ ہے
جو انھیں ان کی تابعداری کے صلے ملتا ہے اور جس کا ایک بڑا حصہ انہی
حکمرانوں کے مسکین بچوں کی کفالت پہ خرچ ہوتا ہے جس کا صرف پاکستان کے لیے
سوائے کاغذی ہندسوں کے کچھ بھی نہیں .
تین سال قبل میں بنگلہ دیش میں تھا ، کوکسک بازار کے طویل سمندری ساحل پہ
کھڑا میں اپنے میزبان کی زبانی پاکستان کے مستقبل کی پیشنگویاں سن رہا تھا
. میرے میزبان نے اپنی جوانی میں تحریک پاکستان میں اور سن ٧١ میں تحفظ
پاکستان میں اپنا خون دیا تھا ، اسکی جیب میں پاکستان کا پرانا پاسپورٹ تھا
جسے اس نے کسی الہامی کتاب کی طرح چوما اور صرف اتنا کہا کہ " مجھے ڈر ہے
کہ کہیں قلعہ اسلام تباہ نہ ہو جائے " میں اسے بنگالیوں کا بغض سمجھا مگر
پھر بھی اس پیشنگوئی کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے صرف ایک ہی لائن بولی جو
آج سمجھ میں آتی ہے . وہ بولے " نوجوان !جس مملکت میں اللہ کے نام پہ جھوٹ
بولا جاتا ہے اور جہاں کتاب الہی کا مذاق اڑایا جاتا ہے وہ مملکت عذاب الہی
کا شکار ہوتی ہے اور پھر دنیا کے نقشے سے مٹ جاتی ہے ".
پاکستان میں پچھلے دس پندرہ سال میں جو ہوا وہ شائد اسی عذاب کا آغاز ہے جس
کی پیشگوئی میری اس بنگالی میزبان نے کی تھی . توکل سے محرومی کا یہ عالم
ہے کہ آج پاکستان کی سرحدیں سب کے لیے کھلی ہیں ، جو اچھی قیمت دیتا ہے وہ
اس ملک کے کسی بھی کونے سے کچھ بھی لوٹ کر لے جاتا ہے . کل کی خبروں میں
ایک خبر جو کراچی والے حادثے کی سنگینی میں زیادہ لوگوں نے نہیں سنی کشمیر
میں کچھ ہوائی پروازوں کا آنا اور غائب ہو جانا تھا . جو ایک المیہ ہے . وہ
وقت دور نہیں جب لوگ بچوں کو جنات کی کہانیاں نہیں بلکہ امریکہ کی مثالیں
دیا کریں گے اور کہیں گے کہ اگر تم نے ہماری بات نہ سنی تو امریکی ہیلی
کاپٹر تمہیں اٹھا کر لے جائیں گے . اب ہم توکل والے لوگوں کی بات کرتے ہیں
. کوئٹہ میں ہونے والے واقعہ میں مارے جانے والے خاندان کی شہادت پاکستان
کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خوف، جھوٹ اور ظلم کی کہانی تو ہے ہی
مگر اخباری اطلاعات اور کالموں کو پڑھنے کے بعد اس چیز کا احساس ہوا کہ وہ
تمام کے تمام بے وطن اور مجبور مظلومین کتنے توکل والے تھے کہ بربریت کا
شکار ہونے سے پہلے انہوں نے نماز الفت ادا کی اور پھر سینکڑوں گولیوں کا
شکار ہو گئے. یہی ان کا مقدر تھا اور یہی اللہ نے ان کے نصیب میں لکھا تھا
مگر ان کی لاشیں بہت مدت تک نظام مصطفیٰ اور کلمہ طیبہ کے نام نہاد سپاہ
سالاروں کو یہ یاد کرواتی رہیں گی کہ وہ کتنے بہادر اور یہ کتنے بزدل ہیں
کہ تنگ دستی کی نسبت بزدلی کے سائے میں اپنی مٹی کا سودہ کر رہے ہیں .
اللہ کی ذات بڑی کریم ہے اس کے نظام قدرت میں سب ممکن ہے مگر جس خوف کا ذکر
اور مثال آج کے پاکستان میں نظر آتی ہے اس کا نہ کوئی علاج ہے اور نہ ہی
کوئی حل . آج کا خودمختار پاکستانی میڈیا جو آزاد خیال زیادہ اور وطن دوست
کم ہے اپنی ٹی آر پی کی خاطر ہر چیز میں اتنی سنسنی بھر دیتا ہے کہ طوفان
آنے سے پہلے طوفان کے خوف میں لوگوں کو مار دیتا ہے . اور پھر ہر ماہر سے
اور تجزیہ نگار سے جو خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے یہ سوال
پوچھتا ہے کہ " بتائیں اس کا حل کیا ہے ؟" . یہ دانشور جو خود بھی اچھی
تنخواہوں پہ فائز ہیں قوم پہ احسان کرتے ہوئے ہند ، چین ، جرمنی ، فرانس
اور ماضی کے یورپ کی مثال دیتے ہوئے عوام کو مزید ڈرا کر چلے جاتے ہیں اور
جانے سے پہلے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان کی تصویر اچھی آئے ہے اور
انھیں چالیس منٹ کے پروگرام میں کم از کم بیس منٹ بات کرنے کو ملے ہیں
جسمیں انہوں نے اپنی فارن ڈگری کے مضامین کی رٹی رٹائی کہانی اس قوم کی
سنائی ہے جو پہلے ہی مایوس اور خوف میں مبتلا ہے .
صاحبزادہ عاصم مہاروی کی بات سچ تھی یہ خوف ہی دشمن ہے اور توکل سے دوری نے
آج ہمیں غلام بنا دیا ہے ورنہ اس مٹی میں کسی چیز کی کمی نہیں . بس ضرورت
استغفار کرنے کی ہے اور خود پہ یقین کرنے کی ہے . میرے دوست جو ٹاک شوز
کرتے ہیں انھیں بھی ان کے اس سوال کا جواب اس بات میں مل جانا چاہیے کہ ہر
مسئلے کا حل اللہ پہ توکل اور اس کے اصولوں کی پاسداری ہے . توکل والے لوگ
کبھی ڈرتے نہیں ان کی ذات کا ایک رعب ہوتا ہے اور پھر رزق ، زندگی اور موت
کا مالک جب رب ہے تو اندیشہ صرف گمراہی کی موت کا ہونا چاہیے . |